احمد حسن خان
کم وسائل کے باوجود آپریشن دووارکا میں کامیابی پر پاک بحریہ کی اعلیٰ صلاحیتوں عالمی سطح پر سراہا گیا
پاک بھارت جنگوں میں پاکستان کی بحری فوج کی کارکردگی نمایاں رہی۔ آج پاک بحریہ کا شمار دُنیا کی بہترین سمندری افواج میں ہوتا ہے۔ سطح آب یا زیرآب، فضا ہو یا ساحل، پاک نیوی پاکستان کی سمندروں کی پاسبان، شمالی بحیرہ عرب میں 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اکنامک زون اور مشرق میں سرکریک سے لے کر مغرب میں گوادر تک پھیلی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے دفاع اور قومی اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ پاک نیوی کا سطح آب بیڑہ جدید فریگیٹس، تباہ کن ڈسٹرائرز، ہائی اسپیڈ میزائل کرافٹس، گن بوٹس اور مائن ہنٹرز پر مشتمل ہے۔ فضائی بیڑے میں جدید میری ٹائم ایئر کرافٹس اور ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔ 2009ء میں چین سے حاصل کئے گئے تین گھنٹوں کی مسلسل پرواز کرنے والے جدید اینٹی سب میرین ہیلی کاپٹرز بھی پاک نیوی کی قوت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ پاک بحریہ نے امریکہ سے 7 پی سی تھری اورین جہاز میں حاصل کئے ہیں، پاک بحریہ کی چوتھی جہت اسپیشل سروسز گروپ اور پاک میرینز ہیں۔
جدید اسلحہ سے لیس پاک نیوی ایک جدید جنگی قوت بن چکی ہے جس کی نظریں صرف پاکستان کی سمندری سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر ہیں۔ پاک بحریہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ پاک بحریہ کو 2 اسلوپ، 2 فریگیٹس، 4 مانیسویپر، 2 بحری ٹرالر، 4 بندرگاہ لانچز اور 350 اہلکار ملے جن میں 180 ٹیکنیکل افسران اور 34 ریٹنگ اہلکار تھے۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ کو 200 آفیسرز اور 300 سیلرز ملے۔ جن میں کموڈور ایچ ایم ایس چوہدری سینئر ترین آفیسر تھے۔
پاک بحریہ کے سامنے کافی اہلکاروں، آپریشنل اڈوں کی کمی کے علاوہ ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی جیسے مسائل کسی عفریت کی طرح کھڑے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ کامیابیاں پاک فوج کا مقدر بنتی گئیں اور آج الحمداللہ پاک بحریہ کے پاس 63 بحری جہاز اور 101 ایئرکرافٹس ہیں۔ پاک بحریہ کے فعال ملازمین کی تعداد 25000 ہے۔ اضافی میرین کی تعداد 2000 ہے۔ کوسٹ گارڈ کی تعداد 2500 سے زائد ہے۔ میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے فعال ڈیوٹی 2000 اہلکار ہیں۔ اس کے علاوہ 5000 ریزرو اہلکار موجود ہیں۔ پاک نیوی کے اہلکاروں کی کل تعداد تقریباً 35 ہزار 700 ہے۔ پاک فوج کے پاس اس وقت آگسٹا آبدوزوں کے علاوہ 3 ایکس کرافٹ آبدوزیں بھی ہیں۔ ایکس کرافٹ آبدوز مائنز کی منتقلی، تاپیڈو فائر کرنے اور محدود آپریشنز کے لئے کمانڈوز کی لانچنگ جیسی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ آبدوزیں ہاربون میزائل، اینٹی شپ میزائل اور ایگزوسیٹ میزائل فائر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ الخالد ٹینک بھی پاک نیوی کا حصہ ہے جو خشکی اور پانی دونوں میں چل سکتا ہے۔ الخالد ٹینک نائٹ وژن کی بدولت رات کو بھی آپریشنل سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ پاک نیوی کے پاس جلالت 2 کلاس اور جرأت کلاس 2 طرح کی میزائل برادر کشتیاں ہیں۔ جو بے خبری میں دشمن کے جنگی طیاروں کے پرخچے اڑا سکتی ہیں۔ پاک بحریہ نے چین سے تیز رفتار اور ٹارگٹ کو جلد ٹریس کر لینے والی دو ایم آرٹی پی-33 اور دو ایم آرٹی پی-15 کشتیاں حاصل کی ہیں۔ یہ کشتیاں اینٹی شپ میزائل 803/سی802 سے لیس ہیں۔ پاک نیوی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار پاکستان نیول ایئر ڈیفنس سسٹم بھی لگا چکی ہے۔ جو پاک نیوی کی طاقت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے لئے نیک شگون ہے۔ بین الاقوامی ماحول اس وقت مسلسل تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بحری امور کے شعبے میں سمندروں کا کنٹرول اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے ایک کلیدی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حال ہی میں انجام پانے والے دو منصوبے ایسے ہیں جو بحری نقطہ نظر سے ہمارے مستقبل پر گہرے اثرات کی گواہی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے جو گوادر کو جہاز رانی، علاقائی تجارت اور رابطے کا مستقبل کا مرکز بناتے ہوئے شمالی بحیرہ عرب تک براہ راست رابطے کی سہولت فراہم کرے گا۔ دوسرا پاکستانی سمندری حدود میں توسیع ہے جس کی بدولت 200 ناٹیکل مائل تک پھیلے ہمارے خصوصی اقتصادی زون میں 50 ہزار مربع کلومیٹر کونٹی نینٹل شیلف کا اضافہ ہے جس سے پاکستان کی سمندری حدود 200 ناٹیکل مائل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل مائل ہوگئی ہے۔ یہ 50 ہزار اضافی کونٹی نینٹل شیلف بے پناہ وسائل بشمول آئل اور گیس سے مالا مال ہے جہاں سمندر کی تہہ اور زیرتہہ موجود وسائل کے ہمیں بلاشرکت غیرے حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ ان دونوں کی بدولت حاصل ہونے والے میری ٹائم خزانوں کی شراکت سے مستفید ہونے اور ان کی حفاظت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ حالات میں ہمارے ایک طرف بحیرہ عرب میں موجود بیرونی قوتیں تقریباً مستقل طور پر موجود ہیں جبکہ دوسری جانب متلون مزاج پڑوسی اپنی حاکمانہ اور جابرانہ سوچ کے تحت اپنے بحری اسلحہ میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ یہ وہ چند قابل ذکر احوال ہیں جو ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ ہم سیاسی اور عسکری دونوں سطحوں پر نہ صرف ہر دم چوکس رہیں بلکہ اپنی انفرادی افادیت کو برقرار رکھیں۔ پاکستان نیوی اپنی مختلف کاوشوں اور علاقائی و بین الاقوامی بحری افواج کے ساتھ مل کر متنوع سرگرمیوں کی بدولت مشترکہ علاقائی میری ٹائم سیکورٹی کے قیام کے سلسلے میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان نیوی ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بھرپور لگن اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے وطن کی سرحدوں کے دفاع اور ملک کے میری ٹائم اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے پُرعزم ہے۔
پاکستانی قوم کو اپنی مسلح افواج پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھتے ہوئے اور پُرعزم طریقے سے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہیں۔ پاکستان نیوی کے آفیسرز، چیف پیٹی آفیسرز، سیلرز اور سویلینز اپنی لگن، دلیری، شجاعت اور ثابت قدمی سے مادر وطن کو ہر قسم کے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے اپنا کردار بطریق احسن ادا کررہے ہیں۔
پاک بحریہ کی تاریخ فتوحات سے بھری پڑی ہے۔ جب وطن کے بیٹوں نے دشمن کو خاک چٹائی اور بھارت پوری دُنیا میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہا۔ 1965ء کی جنگ میں پاک بحریہ نے بھی جارحانہ کردار نبھایا۔ پاک بحریہ کی پہلی طویل رینج آبدوز پی این ایس/ ایم غازی کو 2 ستمبر کو کموڈور نیازی کی کمان میں بھارتی بحریہ کی نقل و حرکت و اجتماعیت پر نظر رکھنے اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرنے کے لئے تعینات کیا گیا۔ 7/8 ستمبر کی درمیانی رات ایک پاکستانی اسکوارڈن جو چار تباہ کن (ڈیسٹرائٹر) ایک فریگیٹ، ایک کروز اور ایک آبدوز پر مشتمل تھا، نے کموڈور ایس ایم کے زیرکمان بھارتی فضائیہ کے دووارکا کے ساحلی قصبہ میں موجود ریڈار بیس پر حملہ کیا۔ ریڈار سسٹم کی تنصیبات تباہ کرنے کے بعد اسکوارڈن تیزی سے دووارکا سے نکل گیا۔ انڈین نیوی بوکھلاہٹ اور خوف کے باعث کوئی بھی جوابی کارروائی نہ کرسکی۔ کم وسائل اور محدود نفری کے باوجود آپریشن دووارکا میں کامیابی پر پاک بحریہ کی اعلیٰ صلاحیتوں اور بے مثال کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ نیوی کی کارکردگی کو شاندار بنانے کے لئے 1966ء میں نیول اسپیشل سروسز گروپ کی بنیاد رکھی گئی۔ پاک بحریہ نے 1980ء میں بے مثال ترقی کی۔ اس کا جنگی بیڑا 8 سے بڑھ کر 16 جہازوں تک آگیا۔ پاکستان نے فوجی سازوسامان پر توجہ مرکوز کرنا شروع کردی۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے فرانس سے آگسٹا آبدوزوں کی خریداری (بشمول ٹیکنالوجی کی منتقلی) کے معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ شدید ہندوستانی احتجاج اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود انجام پایا اور اس سے پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔ ملک میں 2010ء کے سیلاب میں پاک بحریہ نے پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاک بحریہ نے (آپریشن مدد) کے تحت ملک بھر میں 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا۔ سیلاب زدگان کے لئے 43 ہزار 850 کلوگرام خوراک اور امدادی سامان پہنچایا، 5 ہزار 700 کلو کے تیار کھانے اور 5 ہزار کلو گرام کی خوراک سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ سکھر میں ہنگامی بنیادوں پر پہنچائی۔ پاک بحریہ نے بین الاقوامی سطح پر بھی امدادی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ 26 دسمبر 2004ء کو آنے والے سمندری طوفان نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ سمیت متعدد ممالک میں تباہی مچا دی۔ پاکستان نے ان ممالک میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لئے دو جنگی بحری جہاز پی این ایس طارق، پی این ایس نصر اور ایک لاجسٹک پورٹ جہاز بھیجا۔ یہ جہاز تین ہیلی کاپٹروں، ملٹری و سول ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف سے لیس تھے۔ پاک بحریہ نے مالدیپ کی حکومت کی مدد کرتے ہوئے جزائر میں پھنسے سیاحوں اور مقامی لوگوں کے انخلا کو یقینی بنایا۔
پاک بحریہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ پاک بحریہ کے زمینی لڑاکا دستوں نے پاک آرمی کے ہمراہ مغربی سرحدوں پر ہونے والی طالبان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ہندوستان کے تربیت یافتہ طالبان کے پانچ دہشت گردوں نے 22 مئی 2011ء کو پاک نیوی کے بحری اڈہ پی این ایس مہران پر حملہ کیا۔ اس دہشت گردانہ حملے میں نیوی کے 18 اہلکار شہید ہوئے جبکہ 16 اہلکار زخمی ہوئے۔ پاک نیوی کے ایس ایس جی کمانڈوز نے دہشت گردوں کے اس بزدلانہ حملے کو ناکام بنا دیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ حملہ کرنے والے پانچوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔ گوادر پورٹ کی حفاظت کی حساس ذمہ داری بھی پاک بحریہ کے نڈر، بہادر اور بے خوف جوانوں کے کندھوں پر ہے۔ جسے نبھانے کے لئے پاک نیوی نے اپنے چاک و چوبند دستے تعینات کر رکھے ہیں۔ بلاشبہ پاک بحریہ پاکستان کا فخر ہے، جس کے کارہائے نمایاں کی بدولت دشمن پر خوف، بے بسی اور بوکھلاہٹ طاری ہے۔ قوم اپنے بہادر سپتوں کو سلام پیش کرتی ہے۔