Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

میر افسر امان

ستائیس اکتوبر 2018ء کو کشمیری قوم نے مقبوضہ کشمیر، آزاد جموں و کشمیر اور پوری دُنیا میں یوم سیاہ منایا۔ 1947ء سے لے کر آج تک یہ دن ہر سال کشمیری مناتے ہیں۔ اس دن سفاک اور دہشت گرد بھارت نے بین الاقوامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ہوائی راستے سے فوجیں اْتار کر جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سفاکیت کے خلاف کشمیری قوم اْس دن سے ہی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے جس پر بھارت قابض ہے۔ کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ اپنی لاشوں کو پاکستان کے ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفناتے ہیں۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جمہوری جدوجہد کے ذریعے بنا تھا۔ جب برصغیر میں انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے تحریک چلی تو ہندوؤں نے کہا تھا کہ بھارت میں صرف ایک قوم رہتی ہے جس میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی شامل ہیں۔ ان سب قوموں کی نمائندہ سیاسی جماعت آ ل انڈیا کانگریس ہے۔ کچھ کانگریسی مسلمانوں کو ملا کر یہ بیانیہ بھی جاری کیا کہ قومیں اوطان، یعنی وطن سے بنتی ہیں۔ لہٰذا اقتدار ہندوؤں اور مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کانگریس کے حوالے کیا جائے۔ مگر قائد محترم نے کہا کہ برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں رہتی ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ اگر انگریزوں نے اقتدار صرف ہندوؤں کے حوالے کیا تو مسلمانوں کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ ہندو اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے حقوق ہڑپ کرلیں گے، اس لئے اقتدار دو قوموں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ دونوں قوموں کے مذہب، سماج، تہذیب، ثقافت، رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے، لباس، ان کی تاریخی کہانیاں اور ہیرو سب کچھ مختلف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے، ان کا حق ہے کہ ان کو علیحدہ ملک میں اپنی تہذیب، تمدن، روایات اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہئے۔ قائداعظم نے مسلمان قوم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کیا اور ان کو سلوگن دیا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ‘‘، ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘، ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘، ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ پھر قائداعظم نے برصغیر کے اندر ایسی زبردست تحریک پاکستان اْٹھائی کہ اس کے سامنے نہ انگریز اور نہ ہی ہندو ٹھہر سکے۔ قائداعظم نے جمہوری طریقے سے اپنی بات منوائی۔ پھر دو قومی نظریے کو تینوں فریقوں یعنی انگریز، ہندوؤں اور مسلمانوں نے تسلیم کیا۔ وہ یہ کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پاکستان بنے گا اور جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہاں بھارت بنے گا۔ ساتھ ہی ساتھ جو ہندو آبادی والی ریاستیں ہیں وہ بھارت میں اور جو مسلمانوں کی ریاستیں ہیں وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں گی۔ اس طرح ریاست حیدرآباد اور جونا گڑھ میں ہندو زیادہ تھے مگر ان میں حکمران مسلمان تھے۔ ان ریاستوں کے حکمرانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا کہا مگر ان ریاستوں پر بھارت نے قبضہ کرلیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی مگر اس کا راجہ ہندو تھا لہٰذا اس کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ مگر تقسیمِ برصغیر کے فارمولے کے خلاف بھارت نے انگریز اور راجہ جموں کشمیر سے سازش کر کے کشمیر میں بھی 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں داخل کر کے کشمیریوں کی خواہش کے بلمقابل کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ پھر گلگت بلتستان کے عوام نے راجہ کی فوجوں سے لڑ کر اِسے آزاد کرا لیا۔ جموں اور وادی کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے کشمیریوں، سرحد کے قبائلیوں اور پاکستان فوج نے آگے بڑھ کر موجودہ آزاد جموں کشمیر کا تین سو میل لمبا اور تیس میل چوڑے علاقے کو آزاد کرا لیا۔ یہ مشترکہ فوجیں سری نگر تک پہنچنے والی تھیں کہ بھارت کے اْس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لئے پہنچ گئے اور درخواست دی کہ جنگ بند کردی جائے اور امن قائم ہونے پر کشمیریوں کو حق خودارادیت دے دیا جائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن کہ وہ اپنے سیاسی رہبر چانکیہ کوٹلیہ کے سیاسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے، کہ دشمن سے پہلے دوستی کا دم بھرو، پھر اسے قتل کرو اور پھر اس کے قتل پر آنسو بھی بہاؤ والا فارمولا لاگو کرکے کشمیریوں کو ذبح کر رہا ہے۔ بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں لگائی ہوئی ہے، پورا کشمیر فوجی چھاؤنی کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کو ہلاک کرنے ان کی نسل کو ختم کرنے اور ہمیشہ غلام رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اور اب کشمیر میں کیمیائی ہتھیار استعمال کررہا ہے، قید خانوں میں سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو زہر آلود کھانا کھلا کر اپاہج کررہا ہے پھر ان ڈھانچوں کو آزاد کررہا ہے تاکہ دوسرے کشمیری عبرت پکڑیں اور آزادی کی جدوجہد چھوڑ دیں۔ ہزاروں کشمیری خواتین کی آبروریزی کی تاکہ ان کے خاندان یہ رویہ دیکھ کر آزادی سے باز آ جائیں۔ برسوں سے ہزاروں کشمیری نوجوان بھارت کی قید میں بند ہیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ بھارت کے زیرسایہ عدلیہ ان بے قصور کشمیریوں کو رہا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جعلی ان کاوئنٹر کا بہانہ بنا کر نوجوانوں کو شہید کردیا جاتا ہے۔ ان کی لاشوں کو جنگلات اور ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا اجتماعی قبروں میں دفن کردیا جاتا ہے۔ کئی کشمیریوں کو غائب کردیا گیا ہے جن کے انتظار میں ان کی ماؤں، بہنوں اور بیویوں کے آنسو، رو رو کر ختم ہوگئے ہیں۔ کشمیریوں کی درجنوں اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں۔ دہشت گردی کا بہانا بنا کر نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ سرحد پار سے آئے ہیں۔ مسلمانوں کے کھیتوں میں لہلہاتی فصلوں کو گن پاؤڈر چھڑک کر خاکستر کردیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کی دکانوں، گھروں، پھلوں کے باغوں کو جلایا جارہا ہے۔ ان کے بزرگوں کے مزاروں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ ان کو مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیئے جاتے۔ نماز جمعہ پر اکثر پابندی لگائی جاتی ہے۔ حریت لیڈر شپ کو قید کردیا جاتا ہے۔ اخبارات پر پابندی ہے۔ سچ لکھنے والے صحافیوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور اب تو اسکالرز حضرات کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ آئے دن انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی جاتی ہے تاکہ مظالم کی خبریں باہر نہ جا سکیں۔ نہتے مظاہرین پر پیلٹ گنیں چلا کر سیکڑوں کو اندھا کردیا ہے، کشمیریوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو زنجیر سے باندھ کر بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے، مظاہرین ان مظالم کے خلاف احتجاج کرتے اور قابض فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں تو فوجی گاڑیو ں کے بونٹ پر کشمیری نوجوان کو باندھ دیا جاتا ہے تاکہ پتھر بھارتی فوجی کے بجائے اس کو لگیں۔ بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرہ کرنے والی کشمیری اسکول کی بچیوں کی چوٹیاں قینچی سے کاٹی جاتی ہیں تاکہ وہ گھبرا کر گھروں میں بیٹھ جائیں۔ دنیا کا بدنام ترین گھروں کے محاصرے کا طریقہ اپنا کر عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ محاصرے کے دوران گھروں کو گن پاؤڈر سے اْڑا دیا جاتا ہے۔ لوگ احتجاج کرتے ہیں تو ان پر گولیاں چلائی جاتیں ہیں۔ کون سا ظلم کا حربہ رہ گیا ہے جو بھارت کی سفاک فوجیوں نے کشمیریوں پر استعمال نہ کیا ہو۔ کشمیر اب بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کی قتل گاہ بن چکی ہے۔ اگر دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کے حالات کا مشاہدہ کرنے کی اجازت مانگیں تو بھارت ان کو بھی اجازت نہیں دیتا۔ صحافیوں اور اخباروں کے نمائندوں کا کشمیر میں داخلہ بند ہے۔ اب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر رپورٹ تیار کی ہے جو دل ہلا دینے والے مظالم پر مبنی ہے۔ بوڑھوں، بچوں، لڑکوں، لڑکیوں، مرد، عورتوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے۔ کشمیریوں کی آبادی کو محفوظ رکھنے کے لئے بھارتی آئین کی خصوصی دفعہ جس میں لکھا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی غیرکشمیری جائیداد نہیں خرید سکتا۔ اس شق کو ختم کرنے اور کشمیریوں کی آبادی کو گھٹانے کے لئے دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے کارندوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے اندر رٹ داخل کی ہوئی ہے جس کی تاریخیں بڑھ رہی ہیں، کسی بھی وقت بھارت کی متعصب عدلیہ یہ خصوصی شق بھی ختم کردی گی۔ ان حالات میں مسلمانوں کا اقوام متحدہ سے یہ کہنا ہے کہ جب اسلامی ملک انڈونیشیا اور سوڈان میں عیسائی اقلیتوں نے علیحدہ وطن اور آزادی مطالبہ کیا تو انہیں فوراً آزادی دلا دی گئی۔ پھر جب اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق وزیراعظم کے لکھے ہوئے وعدے، کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی۔ اس کے حوالے سے منظور شدہ کئی قراردادیں بھی اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں، تو بھارت کو اپنا وعدہ پورا کرانے کے لئے اقوام متحدہ کیوں نہیں زور دیتی؟ اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں سے جانبداری برتی جا رہی ہے۔

مطلقہ خبریں