ہمایوں سلیم
سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک میں بھونچال آئے تو اس کے اثرات دوسری پر بھی پڑتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں اپنوں کو نوازنے اور کرپشن کے رواج نے ملکی معیشت کو جس نہج پر لاکھڑا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائز خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں اور قرض ادا کرنے کے لئے حکومت کے پاس پیسہ نہیں جس کی وجہ سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا جو غریب عوام کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ ان حالات میں مدد کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے، گو کہ موجودہ حکومت اس سے پہلے اس بات پر بضد تھی کہ کسی صورت بھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جایا جائے گا، مگر اب بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے سونے کی زبردست قلت کی بنا پر دوران جنگ دنیا کے بیشتر ممالک کو باہمی کرنسیوں کے تبادلے کی شرح کو متعین کرنے والے 1880ء سے جاری گولڈ اسٹینڈرڈ کے نظام کو خیرآباد کہنا پڑا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ ایسا نظام وضع کیا جائے کہ جس سے بین الاقوامی تجارت سے صنعتی ترقی یافتہ ممالک کو مساوی فائدہ حاصل ہو اور وہ ترقی پذیر ممالک میں اپنی اشیاء بیچنے کے لئے قبضے کی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ الجھیں بلکہ مسابقت کی بنیاد پر ان ممالک کی منڈیوں میں اشیاء بیچیں اور اس مقصد کے لئے وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے وجود میں لائے تاکہ قرضے فراہم کرکے ان ممالک کی معیشتوں میں قوت خرید بحال رکھی جائے۔ دنیا کے 44 ممالک کے نمائندوں کی منظوری سے آئی ایم ایف کا ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ایک خودمختار ادارے کے طور پر عمل میں لایا گیا اور اس کا الحاق اقوام متحدہ سے ہے۔ وہ تمام ممالک جو فنڈز آرٹیکل آف ایگریمنٹ کے تحت اس کے لئے رقم فراہم کرتے ہیں انہیں اس کی ممبر شپ آفر کی جاتی ہے۔ آج اس کے ممبرز ممالک کی تعداد 44 سے بڑھ کر 183 ہوچکی ہے۔
پاکستان 1952ء سے لے کر اب تک آئی ایم ایف سے 18 پروگرام لے چکا ہے جن میں سے محض 70 فیصد فنڈز استعمال ہوئے۔ 1988ء سے لے کر اب تک پاکستان نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت قرضے کے 12 پروگرام حاصل کئے جن میں 11 درمیان میں ہی چھوڑ دیئے گئے اور اب ایک بار پھر نہ چاہتے ہوئے بھی موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان ایسا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک محض سانس لینے اور دیوالیہ پن سے بچنے کی خاطر چند ارب کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کر رہا ہے۔ چند ایک دوست احباب اس پر بہت تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اسد عمر اور اْن کی ٹیم کی جانب سے پہلے شور مچایا جارہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر اب انہوں نے یوٹرن لیا ہے اور انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے ناچاہنے کے باوجود اْسے جانا کیوں پڑرہا ہے؟ کیا کوئی دوسرا ملک پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ راقم نے گزشتہ سال انہی دنوں میں کہا تھا کہ ن لیگ کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ 2018ء میں پاکستان کو 12 سے 15 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور پھر قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ امور مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے خدشات درست ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان پر قرض بڑھ جائے یا مزید قرض لینا پڑے۔ یعنی مفتاح اسماعیل نے اس بات کی نشاندہی رواں سال مارچ ہی میں کردی تھی کہ آنے والی حکومت کے لئے ادائیگیاں کرنے میں مسئلہ ہوگا۔ اس لئے انہیں اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔
حقیقت میں تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق حکومت کے خزانے میں 8.4 ارب ڈالرز موجود ہیں جوکہ 2 ماہ کی درآمدات کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی مختلف مالی آپشنز پر غورکر رہی ہے، ان آپشنز میں چین اور سعودی عرب سے مالی امداد حاصل کرنا بھی شامل ہے، تاہم ہم اب بھی مالی سال کے لئے مطلوبہ ڈالرز پورا کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ (ایک مالی سال کے لئے حکومت کو 12 ارب ڈالرز درکار ہوتے ہیں)۔ اس معاشی چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لئے حکومت نے مختلف اقدامات کئے ہیں جن میں درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی، گھریلو گیس کی قیمتوں اور مرکزی بینک کے شرح سود میں اضافہ شامل ہیں۔
حکومت بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سوچ رہی ہے، تاہم اب تک اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے صورتِ حال میں ذرہ برابر بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ اگر ہم آئی ایم ایف کے حوالے سے ماضی کی بات کریں تو نواز شریف کے دوسرے دورِاقتدار میں 20 اکتوبر 1997ء کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریٹ کی مد میں 1.13 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے تیسرے دورِ اقتدار میں 4 ستمبر 2014ء کو ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 4.3 ملین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ جو تمام کا تمام استعمال کیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 11 اگست 1973ء کو 75 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ 11 نومبر 1974ء کو 75 ملین ڈالرکا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسی دور حکومت میں 9 مارچ 1977ء کو 80 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے دوسرے دورِ اقتدار میں جب ملک پر بے نظیر بھٹو حکمران تھیں، کو اسٹینڈ بائی کی مد میں 28 دسمبر 1988ء کو 273.1 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِِ اقتدار میں 22 فروری 1994ء کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریٹ کی مد میں 985.7 ملین ڈالرکا قرضہ حاصل کیا گیا۔ پرویز مشرف کی آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئی تو 24 نومبر 2008ء کو آئی ایم ایف نے ایک بار پھر 7.2 بلین ڈالر قرض کی صورت میں دیئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں 29 نومبر 2000ء کو پاکستان نے اسٹینڈ بائی کی مد میں 465 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ اگلے ہی سال یعنی 6 دسمبر 2001ء میں ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کے تحت پاکستان نے ایک بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ ملک اس وقت جس شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس پر حکومت سمیت ہر شخص متفکر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں جن سے بھاری غیرملکی قرضوں کی اقساط ادا کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ تجارتی اور مالیاتی خسارے نے معیشت کو بُری طرح زیر بار کر رکھا ہے۔ پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کھربوں روپے تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے حکومت سے اس مسئلے کے حل کے لئے چار کھرب روپے دینے کی سفارش کی ہے۔ ترقیاتی اسکیموں کے لئے خزانے میں پیسہ نہیں، اسٹارک مارکیٹ زوال پذیر ہے، حکومت اس صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کررہی ہے، اس نے پیٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ دوست ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں اکاؤنٹس کھولیں تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر بنائے جا سکیں۔ بیرونی ملکوں میں منتقل کی جانے والی کھربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں اور ریکوری کے لئے ایک خصوصی یونٹ بھی بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 7اکتوبر 2018ء کو ایک پریس کانفرنس میں عوام کو خبردار کیا کہ معاشی ابتری کا یہ دور ایک سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ انہوں نے کرپشن کو ملکی معیشت کی ابتری کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ لٹیروں سے لوٹی ہوئی 9 ارب ڈالر دولت کی پائی پائی وصول کی جائے گی۔ کسی سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور کوئی این آر او نہیں کیا جائے گا۔ معاشی مشکلات پر قابو پانے کیلئے حکومت جو اقدامات کر رہی ہے ان میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے رابطے بھی شامل ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
بہرکیف اگر آپ بیمار ہوں تو آپ کے پاس ڈاکٹر کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف سے جو پیسہ حاصل ہوگا وہ پاکستان کو غیرملکی قرضوں کی مد میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لئے استعمال کیا جائے گا لیکن اس سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا کیونکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں سْست روی کا شکار ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں حکومت کے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ تھے، جس کی وجہ سے 2.2 کھرب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، اس خسارے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، سیکیورٹی اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں سمیت دوسرے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو بینکوں سے پیسے ادھار لینا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف ماہانہ درآمدات ملکی برآمدات سے 2.7 ارب ڈالرز زیادہ ہیں جس کے باعث تیل، خام مال اور مشینری کی ضروری درآمدات کے لئے حکومت کے خزانے میں خاطر خواہ سرمایہ نہیں بچ پاتا، خزانے میں اتنے بھی پیسے نہیں بچتے کہ معیشت کے ضروری کام کیے جا سکیں اور غیرملکی قرضوں (90 ارب ڈالرز سے زائد) کی ادائیگی کی جا سکے۔ اب ان ادائیگیوں کے بعد ملک کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ ایکسپورٹ بل کو بڑھانا اور امپورٹ بل کوکم کرنا ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب بہترین مینجمنٹ سسٹم کام کر رہا ہو۔ اس لئے اْمید کی جا سکتی ہے کہ نئی حکومت جس کے پاس خزانے خالی تھے، انہیں مستقبل میں ایسے اقدامات کرنے ہیں جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ آئی ایم ایف کا چوائس پہلی اور آخری مرتبہ ہی لیا گیا ہے۔