Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کی شہ رگ۔۔ معاشی ترقی کی نوید دیامر بھاشا ڈیم

چوہدری فرخ شہزاد
منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہمیں قومی یکجہتی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہم کشمیر پر دعوے کی سچائی کی مناسبت سے ان کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں مگر کبھی غور نہیں کرتے کہ قائداعظم نے اپنی تقریر میں یہ کیوں کہا تھا۔ اس کا تاریخی اور جغرافیائی پس منظر یہ ہے کہ پاکستان میں بہنے والے سارے کے سارے دریا کشمیر سے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اس وجہ سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ شروع دن سے ہی متنازعہ رہا ہے، البتہ 1960ء میں ورلڈ بینک کی ضمانت سے دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ وجود میں آیا جس کی رْو سے پانی کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہوگیا لیکن بھارت جیسے جارح ہمسائے کی وجہ سے ہمیں اس میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت چونکہ پوری دْنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کے عالمی ذخائر میں کمی آئی ہے اس لئے یہ خطہ جو پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے، ایک بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔1991ء میں پاکستان نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن صوبوں کے درمیان عدم اتفاق رائے کی وجہ سے اس منصوبے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ کالاباغ کے مقام میں اختلافات کے بعد فوری طور پر متبادل جگہ کا انتظام کیا جاتا مگر بدقسمتی سے سیاسی اور جمہوری قیادت کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اس معاملے پر مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا گیا جسے نہ تو تاریخ کبھی اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلیں معاف کریں گی۔
عمران خان کی موجودہ حکومت نے 2006ء سے التواء کا شکار دیامر بھاشا ڈیم کے مردہ گھوڑے کو نئی زندگی عطا کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم بھارت سے اپنے حصے کے پانی پر جھگڑا کرتے ہیں لیکن ہمارے حصے کا 80 فیصد پانی دریائے سندھ کے راستے سمندر میں بہہ جاتا ہے، محض اس وجہ سے کیونکہ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں آنے والے پانی کا 90 فیصد حصہ برسات کے تین ماہ میں آتا ہے جسے اسٹور کرنے کی استعداد ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ دیگر ممالک کے پاس ذخیرہ کی شکل میں بہت زیادہ پانی موجود ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس پانی کا ذخیرہ انتہائی کم ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پیٹرول ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی 30 دن کی ہے مگر پیٹرول تو ایک مہنگی امپورٹ ہے جبکہ پانی قدرت کا مفت عطیہ ہے مگر پھر بھی ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔
ماہرین کے مطابق اگر پاکستان نے نئے ڈیم پرکام کا آغاز نہ کیا تو 2025ء تک پاکستان میں تاریخ کی شدید ترین خشک سالی ہمارا مقدر ہوگی۔ ہماری زراعت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف نے ڈیم کو اوّلیت دیتے ہوئے اس پرکام کا آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ بہت بڑی انصاف ہے کہ اس پراجیکٹ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔
صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ڈیم کے خلاف ایک نام نہاد دانشورانہ مہم شروع کررکھی ہے حالانکہ اس ڈیم کی سب سے زیادہ ضرورت سندھ کو ہے جہاں تھر کے علاقے میں لاکھوں مربع میل کا علاقہ ویران ہے اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے شرح اموات بڑھ رہی ہے۔ سندھ والے ڈیم پر سیاست کرکے سندھ اور پاکستان کے کازکو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستانی دریاؤں میں وافر پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کے خطرات میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر ہمارے پاس ڈیم ہوتا تو یہ وافر پانی ہم پورے سال کے لئے اس میں اسٹور کرسکتے تھے۔ پانی کے معاملے میں ہمیں بھارت کو موردِالزام ٹھہرانے کی بجائے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور دیانتداری سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم خود اپنے مسائل کے ذمہ دار ہیں یا نہیں۔
قومی اخراجات میں بچت، سادگی، بدعنوانی کا خاتمہ اور لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے کا سب سے اہم نقطہ جس کا طوفانی انداز میں آغازکیا جاچکا ہے وہ اس وقت دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرکا پروگرام ہے جس کے لئے حکومت نے بیرونی قرضہ لئے بغیر قومی سطح پر بچتوں کو چندے کی مدد سے مکمل کرنے کا پلان دیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بھارت والوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں کیونکہ پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنے کی دھمکی دینے والے نریندر مودی کو خطرہ ہے کہ کہیں سچ مچ ہی عمران خان جو کہہ رہا ہے وہ کر نہ دکھائے۔ اس منصوبے کے لئے مالیاتی فزیبلٹی پر بات کرنے سے پہلے اس کا پس منظر اور کچھ ٹیکنیکل حقائق کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ اس منصوبے کا اعلان سب سے پہلے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا۔ یہ دریائے سندھ کے اْوپر بنایا جائے گا جس کا محل وقوع کچھ یوں ہے کہ یہ تربیلا ڈیم سے 315 کلومیٹر پیچھے (اپسٹریم ) اور گلگت سے 165 کلومیٹر آگے (ساؤتھ اسٹریم) چلاس سے تقریباً 40 کلومیٹر دیامر کے مقام پر ہے۔ اس ڈیم کی مجوزہ اْونچائی 7,500,000 مکعب ایکڑ فٹ ہوگی جس کے 9 اسپل ویز (سپیللوے ) ہوں گے، جس میں ہر ایک کا سائز 16.5 میٹر ہے۔ یہ دْنیا کا سب سے بڑا رولویر کومپیاٹڈ کونکراٹ ڈیم ہوگا جو ساؤتھ ایشیا کا مہنگا ترین ڈیم ہے جس پر لاگت کا خرچہ 1400 ارب روپے ہے۔ اس کا رقبہ 200 مربع کلومیٹر پر پھیلاہوگا جس سے 100 کلومیٹر کے ایریا میں شاہراہ قراقرم بھی متاثر ہوگی اور 35 ہزارکے قریب لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ تقریباً 20 ہزار کی افرادی قوت 8 سال تک کام کر کے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی، سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کو 4500 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس وقت ہمارا بجلی کا شارٹ فال 5000 میگاواٹ ہے اور یہ شارٹ فال گرمی کے موسم کا ہے۔ جب بجلی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام اس وقت 10 روپے یونٹ کے حساب سے بِل دیتے ہیں۔ ڈیم سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت 2 روپے یونٹ ہوگی۔ ہم اس وقت ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے پیٹرول سے بجلی بناتے ہیں جو 5 سے 6 گنا مہنگی ہے اور ہمارے قیمتی زرمبادلہ کا سب سے بڑا حصہ پیٹرول کی درآمدات پر خرچ ہوجاتا ہے۔
ان اعدادوشمار کے بعد شاید ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہوگا جو اس منصوبے کی مخالفت کرے گا کیونکہ اس کے ذریعے ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور سستی بجلی کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ کوئی ملک یا ادارہ اس کے لئے ہمیں قرضہ دینے پر راضی نہیں ہے اور اگر کوئی دے گا بھی تو سود اور دیگر شرائط اس طرح کی ہوں گی کہ ہماری قومی خودمختاری اور وقار گروی رکھنا پڑیں گے۔ پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ اس وقت ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے وسائل چھوڑنے کی بجائے ان کے لئے مزید قرضہ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ گزشتہ کئی سال کی حکومتوں کا تسلسل اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت مزید قرضے لے کر قوم کو پہلے سے زیادہ مقروض کر کے چلی جاتی ہے۔
یہ وہ پس منظر اور حالات ہیں جس کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ کوئی ملک اس کے لئے ہمیں قرضہ نہیں دے گا لہٰذا قومی سطح پر چندا اکٹھا کرکے اس کے لئے فنڈز مہیا کئے جائیں۔ عمران خان نے چیف جسٹس فنڈ اور وزیراعظم فنڈ کو یکجا کر کے اس مہم کا آغاز کردیا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق 2 ارب روپے جمع ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی مکینیکل انجینئر نے ایک ارب ڈالر (یعنی 124 ارب روپے) دینے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں اوورسیز پاکستانیوں کو ایک ہزار ڈالر فی کس بھیجنے کا کہا ہے۔ اگر بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی اتنی رقم بھیج دے تو مزید کسی چندے یا بیرونی قرضے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو قیام پاکستان 20 ویں صدی کا بہت بڑا معجزہ تھا۔ دو قومی نظریے کو مخالفین نے دیوانے کا خواب کہا تھا مگر دْنیا نے دیکھا کہ قائداعظم کی قیادت میں دْنیا کے نقشے پر ایسی تبدیلی آئی جس کی دْنیا میں آج تک مثال نہیں ملتی۔ پاکستان آج اْسی طرح کی نازک صورتِ حال سے دوچار ہے جہاں اسے اپنی بقا کی خاطر ڈیم بنانا پڑے گا۔ پاکستان میں 1960ء سے لے کر آج تک نیا ڈیم نہیں بن سکا جس کی وجہ ہمارے گزشتہ نصف صدی کی سیاسی قیادت کی کوتاہیاں ہیں جو قومی خیانت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود قوموں کی صف میں اس لئے نامعتبر ہیں کیونکہ ہماری معیشت کا سارا نظام ہی قرضے پر چل رہا ہے۔
چین دْنیا کا واحد ملک ہے جس نے کسی اور ملک کا کوئی قرضہ نہیں دینا اور آپ کو سْن کر حیرت ہوگی کہ دْنیا کی سپرپاور کہلانے والا امریکہ چین کا 1.7 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اگر پاکستان نئے قرضے حاصل کئے بغیر ڈیم کے لئے فنڈز کا بندوبست کر لیتا ہے تو آنے والے وقت میں یہ کچھ ہی عرصے میں اپنے باقی قرضے اْتار کر معاشی طور پر ایک آزاد ملک بن سکتا ہے۔ قوموں پر اچھے اور بْرے وقت آتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر قدرت نے پاکستان کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی ہے جس پر آپ جتنی چاہے تنقید کریں لیکن اس کی حب الوطنی اور ایمانداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام الناس خصوصاً سمندرپار پاکستانی اس کے لئے چندہ اکٹھا کرنے اور اس مہم میں اس کے دست و بازو بننے کے لئے تیار ہیں۔ یہ پہلے ہوچکا ہے شوکت خانم کے نام پر سمندرپار پاکستانیوں نے اربوں روپے اس پراجیکٹ میں فنانس کئے ہیں۔ اس طرح نوملیونیورسٹی کے قیام میں بھی عمران خان کی آواز پر محب وطن پاکستانیوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر رقوم جمع کروائیں۔ عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کو ایک ہزار ڈالر فی کس کا مطالبہ کیا ہے، حقیقت میں اگر وہ 500 ڈالر بھی دے دیں تو یہ کام مکمل ہوسکتا ہے جو پونے دو ارب روپے اب تک اکٹھے ہوئے ہیں اس کا 80 فیصد حصہ پاکستان کے اندر سے دیا گیا ہے۔ پاکستان کے اندر مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے البتہ اس منصوبے کی راہ میں اور طرح کی رکاوٹیں آئیں گی۔ خطے کے سیاسی حالات کے پیش نظر بھارت کی طرف سے اس میں مداخلت کا خطرہ موجود ہے۔ منصوبے کی سائٹ پر بھارت اعتراض کرسکتا ہے اور اس معاملہ کو لے کر بین الاقوامی عدالت میں جاسکتا ہے۔ اس سے قبل سی پیک منصوبے میں نریندر مودی نے یہ کہہ کر شمولیت سے انکار اور چین کے ساتھ احتجاج کیا تھا کہ سی پیک کشمیر کے جن علاقوں سے گزر رہا ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ ہیں۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ اس معاملے میں ہوا بھر کر اس کو عالمی سطح پر ایک ہیپ پیدا کرکے اس میں رخنہ اندازی کرسکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بات ہے کہ دیامربھاشا ڈیم کی ابتدائی منصوبہ بندی میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اس منصوبے کی مالیاتی فنانسنگ چین نے کرنی ہے جس کی بنا پر ابتدائی طور پر یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اس کا ٹھیکہ چین کی کمپنیوں کو دیا جائے گا اور اس میں چینی انجینئرز کام کریں گے یہ ایک متھ ہے جس کا حکومت کی طرف سے فوری طور پر ردّ کیا جانا چاہئے تاکہ ہمارے ملک کا پرائیویٹ سیکٹر مضبوط ہو اور پیسے کی گردش پاکستان کے طبقوں کے اندر ہوگی تو معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے۔ اس منصوبے میں لیبر انٹینسو پالیسی اختیار کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔ پورے ملک سے نوجوان انجینئرز، ٹیکنیشنز اور ہنرمند لیبر کو اس منصوبے میں انٹرن شپ دی جائے جو منصوبے اور ملازمین دونوں کے لئے فائدہ مند ہوگی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو دْورکرنے کے لئے اس میں وولنٹیرس بھرتی کئے جائیں جن کی تنخواہ کی بجائے اعزازیہ دیئے جانے کے ساتھ ساتھ انہیں تعریفی اسناد دی جائیں جو ایمپلانٹ مارکیٹ میں ان اسناد کے انٹرویوکے ٹائم مخصوص نمبر دیئے جائیں۔
یہ پاکستان کیلئے وین -سچویشن  وین ہے جس سے ملک میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ جب اس پیمانے پر ملکی خزانے میں زرّمبادلہ جمع ہوگا تو ہماری معاشی ریٹنگ خودبخود اْوپر چلی جائے گی جس سے ملک میں باہر سے سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات روشن ہوں گے، بالفرض اگر حکومت کے فنڈز میں 50 فیصد پیسہ بھی جمع ہوجاتا ہے تو چین جیسا کوئی دوست ملک باقی رقم کیلئے ہمیں قرض دے سکتا ہے۔ یہ کسی طرح سے بھی ہمارے لئے خسارے کا نہیں بلکہ فائدے ہی فائدے کاکام ہے۔
امریکہ کا یہ خیال تھا کہ نئی حکومت برسراقتدار آتے ہی وائٹ ہاؤس کے آگے سجدہ ریز ہوجائے گی کہ آئی ایم ایف کو کہہ کر ہمیں قرضہ لے کر دیں لیکن حکومت نے ابھی تک آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے متبادل ذرائع ڈھونڈنے کا طریقہ استعمال کیا ہے جس کے بعد اب امریکہ وقتی طور پر پاکستان کے معاملے میں سفارتی طور پر بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ اس سے پاکستان کے لئے مستقبل میں مشکلات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے لیکن قومی وقارکے لئے یہ ناگزیر تھا۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے عمران خان کے اس منصوبے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگلے 5 سال میں اگر عمران خان دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے مطلوبہ رقم جمع کروانے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں اور منصوبے کا باقاعدہ آغاز کردیا جاتا ہے تو 2023ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روکنا کسی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوگا اور عمران خان مزید 5 سال کے لئے باآسانی وزیراعظم بن جائیں گے۔

مطلقہ خبریں