جنرل مرزا اسلم بیگ
*…. ایران، پاکستان تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بند پڑا ہے اور تجارت اور بینکنگ کے حوالے سے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں، امریکا کی سازشوں کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی جو پاکستان کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔
*…. یمن کی جنگ میں ثالثی کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان یمن کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے اور سعودی عرب کو اس خونی جنگ سے نکلنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے، یمن میں کوئی پاکستانی تربیت کار نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے فوج وہاں پر کسی قسم کی کارروائی میں شامل ہے، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، اس سلسلے میں، میں ہمیشہ سے مسائل کے عسکری حل کا مخالف رہا ہوں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کو کرکٹ کے بارے ایک کتاب پیش کرنے کا پس پردہ مقصد لندن کی مڈل ایسٹ آئی (ایم ای ای) نامی ویب سائٹ کے لئے ان کا انٹرویو لینا تھا۔ عمران خان نہیں جانتے تھے کہ وہ جرنلسٹ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان کے سوالوں کے آزادانہ ماحول میں جواب دیئے جو ان کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے انہیں ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر یا جلسے جلوسوں اور بحیثیت وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے اور نوازشریف کی حکومت کی بدعنوانیوں اور ملکی اقتصادی حالت زار پر بات کرتے سنا، لیکن نئے پاکستان کے بارے میں بہت کم سنا ہے۔ جس طرح انہوں نے بنی گالہ میں ان صحافیوں کے سوالوں کے مدلل اور منطق پر مبنی جواب دیئے، ان سے ان کی شخصیت صحیح روپ میں نظر آتی ہے۔ جو قومی سلامتی اور علاقائی معاملات کے بارے ان کی بالغ النظری کی عکاس ہے۔
پاکستان سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے سعودی عرب پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود ریاض کے ساتھ بہترین تعلقات کو ہماری خارجہ پالیسی میں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے صحافی کے قتل پر ناقابل بیان افسوس کا اظہار کیا اور سعودی حکومت کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا سعودی عرب کو تسلی بخش جواب دینا چاہئے۔ ہمیں امید ہے کہ ان کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کے لئے مناسب جواز موجود ہے اور اس قتل میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دینا بھی لازم ہے۔ میرے لئے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی بلائی گئی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری تھا کیونکہ میرا ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ 210 ملین آبادی والا ملک اس وقت بدترین قرضوں جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ جب تک ہم آئندہ دو تین ماہ کے دوران دوست ممالک سے قرضہ نہیں لیتے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ درآمدات کی ادائیگی کرسکیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ضرورت کے وقت ہر مرتبہ سعودی عرب نے ہماری مدد کی ہے۔ ہمارے دو ملین لوگ سعودی عرب میں کام کررہے ہیں جن کی ترسیلات ہمارے لئے بہت اہم ہیں لہٰذا ہم سعودی عرب سے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
یمن کی جنگ میں ثالثی کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’پاکستان یمن کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے اور سعودی عرب کو اس خونی جنگ سے نکلنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ یمن میں کوئی پاکستانی تربیت کار نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے فوج وہاں پر کسی قسم کی کارروائی میں شامل ہے۔‘‘ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے مسائل کے عسکری حل کا مخالف رہا ہوں۔ جب میں پہلی دفعہ سعودی عرب گیا تو میں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو فوج کہے کہ یہ چند ہفتوں یا مہینوں کی بات ہے تم جنگ جیت جاؤ گے اور آپ جنگ شروع کرتے ہیں تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ جنگوں کے نتائج منصوبہ سازوں کی خواہشات کے مطابق نہیں نکلا کرتے۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے عراق اور افغانستان پر فوجی لشکر کشی کی مثال دیتے ہوئے کہا ’’امریکا کو توقع تھی انہیں جلد کامیابی ملے گی، لیکن یہ ان کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی ہے اور اب یہی کچھ یمن میں بھی ہورہا ہے۔‘‘
امریکا، ایران تعلقات کے حوالے سے انہوں نے امریکا سے کہا ’’ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لیں تو بہتر ہو گا‘‘ کیونکہ ان کے بْرے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر پر زور دیا کہ ایران کے خلاف تصادم کی دھمکیاں دینے سے پرہیز کریں اور تجویز پیش کی کہ ان کی حکومت تہران اور ریاض کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے کیونکہ اسرائیل اور امریکا کی شہ پر مسلمان ممالک کے درمیان تصادم کو ابھارا جا رہا ہے جو عالم اسلام کیلئے خاصی پریشانی کا باعث ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارے ایک دوسرے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ پہلے ہی مسائل چل رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کے حوالے سے ایران کا کردار مثبت رہا ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس معاہدے انحراف کرنے اور ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کے فیصلے سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے۔ عمران خان کے الفاظ کی بازگشت ہمیں سابق روسی سربراہ گوربا چوف کے حالیہ بیان میں سنائی دیتی ہے: ’’دراصل امریکا کے ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی امن و تحفظ کے مقصد سے کئے جانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں کے نظام کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ امن کو درپیش اس طرح کے واضح خطرے کے مقابلے میں ہم مجبور نہیں ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ہمیں نہ تو نظریں چرانی ہیں اور نہ ہی ہتھیار ڈالنے ہیں۔‘‘
ایران، پاکستان تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بند پڑا ہے اور تجارت اور بینکنگ کے حوالے سے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ امریکا کی سازشوں کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی جو پاکستان کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں اور ہم ان دونوں ممالک کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ ایران کو ظالمانہ امریکی پابندیوں سے نجات دلانے کے حوالے سے عمران خان کے ان الفاظ نے انہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے برابر لا کھڑا کیا ہے جس کے سبب ایک نئی جیو پولیٹیکل حقیقت کا سامنا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ علاقائی سلامتی کا تحفظ مشترکہ طور پر ہی ممکن ہے۔
افغانستان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا ’’امریکا کو اب احساس ہوگیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا لازم ہے اور تجویز دی کہ ملک کے مسائل کا حل مشترکہ حکومت کا قیام ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انٹرا افغان ڈائیلاگ بہت ضروری ہیں۔ امریکا کی جانب سے نائن الیون حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’جنرل مشرف نے امریکا کے دباؤ میں آکر ایسی فاش غلطی کی جو اب تک کسی پاکستانی سربراہ سے سرزد نہیں ہوئی۔ اس غلطی کے خطرناک نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔‘‘
قبائلیوں کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا ’’جو کچھ ہمارے قبائلی علاقوں میں ہوا وہ ایک خانہ جنگی کی صورت حال تھی جہاں ہمارے اپنے لوگ اپنے ہی ملک کے فوجیوں کے مد مقابل تھے۔ یہ صورت حال ایک بھرپور فوجی آپریشن کا پیش خیمہ بنی جس میں ان علاقوں کی نصف آبادی کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا اور چھ ملین آبادی میں سے تقریباً تین ملین لوگوں کو اپنے ملک میں مہاجر بننا پڑا۔ اس جنگ میں ہمارے اسی ہزار لوگوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے اور یہ سب کچھ امریکا کے دباؤ کی وجہ سے ہوا۔ اب ہم کبھی امریکیوں کو اپنے عوام کے خلاف فوج بھیجنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
طالبان کے ساتھ مذاکرات: ’’قبل ازیں میں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی تجویز دی تھی جس کی وجہ سے مجھے ’’طالبان خان‘‘ قرار دیا گیا تھا اور اب امریکا کو حتمی طور پر احساس ہوچکا ہے کہ مسئلہ افغانستان کا حل طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مضمر ہے۔ امریکا میں اب شدت سے احساس پایا جاتا ہے کہ طالبان ناقابل شکست ہیں۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ ان کی سوچ کو امریکا مخالف سمجھا گیا تھا لیکن اب جبکہ امریکا نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ مسئلہ افغانستان عسکری طور پر کبھی حل نہیں کیا جا سکتا تو پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری آنے کی امید ہے۔‘‘
اس انٹرویو کی بدولت عمران خان نے اپنے قدو قامت کے حوالے سے اپنی شناخت پاکستان کے ایک عملی قائد کی حیثیت سے کرائی ہے جبکہ ان کی حکومت سیاسی طور پر کمزور ہے جسے گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ عمران ایک بالر (بولر ) ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی جماعت کے لئے ’’بلا‘‘ (بیٹ) انتخابی نشان لیا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا تعجب ہے کیونکہ یہ گیند ہوتی ہے جو وکٹیں اڑاتی ہے اور بلے بازوں کو باؤنسرز کے زور پر ناک آؤٹ کرتی ہے۔ اب وہ کرکٹ اسٹیڈیم سے باہر ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم کی کس طرح قیادت کرتے ہیں، جس میں چند ایسے منجھے ہوئے سیاستدان بھی ہیں، جنہوں نے ایک وردی والے قائد کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ دس مرتبہ بھی وردی میں آئے تو ان کے لئے قابل قبول ہوگا۔