سید سمیع اللہ
کہاجاتا ہے کہ ڈارک ایج میں یورپ کے حکمران دو دہائی تک اپنے سرہانوں ایک کتاب اہتمام سے رکھا کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ یہ کتاب ان کی حکمرانی کو دوام بخشنے کا ہرگر اپنے دامن میں سموئے رکھتا ہے۔ یہ کتاب میکا ولی کی ’’دی پرنس‘‘ تھی۔ جس میں صرف اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حکمران کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی حکومت کو قائم رکھے، پھر چاہے وہ ظلم و جبر سے ہو یاکہ چالاکی وعیاری سے۔ یورپ نے تو ڈارک ایج سے نکل کر اس کتاب کو صحیفہ نجات سمجھنا ترک کردیا مگر امریکہ، جو بزعم خود دنیا کا بلاشرکت غیرے حکمران ہے، اب بھی میکاولی کے مشہورقول ’’حکمران کو شیر کی طرح خونخوار اور لومڑی کی طرح عیار ہونا چاہئے‘‘ کو مشعل راہ بنا کر اپنی پالیسیاں تشکیل دے رہا ہے۔ یوں تو ظلم و جبر اور ابن الوقتی کے سیاہی سے امریکہ کا دامن داغدار ہی نہیں بلکہ مکمل سیاہ ہے لیکن پاکستان کے حوالے سے دوغلے پن نے ان کی اسٹیبلشمنٹ کے چہرے پر بھی کالک مل دی ہے۔ 60ء کی دہائی میں سیٹو انڈ سینتو کے ذریعے پاکستان کو اپنے گروپ میں شامل کرنے کے باوجود 65ء کی جنگ میں پاکستان کو بیٹرے کی انتظار پر ٹرخایا گیا، روس کے خلاف افغان جنگ میں اپنا الو سیدھا دیکھ کر پاکستان کو گرداب میں چھوڑ دیا، 11/9 کے بعد اپنی جنگ پاکستان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی اور اب جبکہ وہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کی امیدیں لے کر خطے میں آیا تھا اس لئے شرمندگی سے بچنے کے لئے تمام تر ذمہ داری پاکستان پر تھو پنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ ایک طرف دنیا کی نظروں میں پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ ظاہر کرکے اپنی شکست کو دبا سکے اور دوسری طرف اپنے عوام کو یہ اطمینان دلا سکے کہ اس کی جتنی بھی کامیابیاں ہیں وہ امریکہ کی قابل ترین قیادت اور ایجنسیوں کی دین ہے اور جن ناکامیوں کا سامنا امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کرنا پڑا ہے وہ پاکستان جیسے ممالک اور آئی ایس آئی جیسی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔
موجودہ دور میں امریکہ جس ماسٹر پلان پر عمل پیرا ہے اس میں کوالیشن سپورٹ فنڈ کی بندش، امریکی ڈیفنس یونیورسٹی میں ملٹری ٹریننگ کے لئے موجود 66 اعلیٰ پاکستانی فوجی افسران کے لئے فنڈ کی بندش وغیرہ جیسے ظاہری اقدامات سے کئی زیادہ خطرناک وہ پس پردہ ریشہ دوانیاں ہیں جو وہ بھارت کی آشیرباد سے خطے کا امن تباہ کرنے کے لئے کررہا ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو گلے لگا کر اسے خطے کی چوہدراہٹ سونپ رہا ہے تو دوسری طرف اس کا مقصد چین کے اثرورسوخ کو محدود رکھنا ہے۔
سی پیک جس طرح سے روزِ اول سے ہی بھارت کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے اتنا ہی یہ معاہدہ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اس لئے خیال یہ کیا جاتا ہے کہ خطے میں داعش کی موجودگی یا دیگر جو شورشیں برپا ہیں اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں بھارت اور امریکہ کا ہاتھ ہے، 13 جولائی کو چین میں پاکستان، ایران، روس اور چین کے انٹیلی جنس ایجنسیز کے اعلیٰ حکام کے درمیان ایک بہت ہی اہم میٹنگ ہوئی جس میں روسی نمائندے سرگئی نارشان نے انکشاف کیا کہ اس وقت افغانستان کے 9 صوبوں میں داعش کے تقریباً دس ہزار دہشتگرد سرگرم ہیں اسی طرح دو ہزار کے قریب دہشتگرد روس کے مختلف علاقوں میں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں پاک افغان سرحد پر سرگرم عمل ہیں۔ ایران اور چین کے نمائندوں نے بھی اس بات کی تائید کی اور مزید بتایا کہ پاک افغان سرحد پر موجود داعش دہشتگردوں کا بنیادی مقصد پاکستان میں خودکش دھماکے کرنا اور سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستانی نمائندے نے مئی 2017ء میں داعش کے پکڑے گئے دہشتگردوں کی تفصیلات بھی میٹنگ کے اراکین تک بہم پہنچائی۔ بادی النظر میں مذکورہ چار ممالک کی اس میٹنگ کو ایک نئی صف بندی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان، چین اور روس کے قومی مقاصد میں کہیں بھی ٹکراؤ نظر نہیں آرہا بلکہ کئی حوالوں سے ان ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں البتہ ایران جو اپنے لئے درپردہ گوادر کو خطرہ سمجھ رہا تھا اور بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر مصر تھا، وہ بھی ایک طرف بھارت کی بے وفائی اور دوسری طرف عرب ممالک کے امریکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے ڈر سے سمجھوتہ کرنے پر رضامند دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح خطے میں طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حالیہ دور میں ٹرمپ کا سیخ پا ہونا اور بھارت کے ساتھ حد سے زیادہ قربت جہاں ایک طرف امریکی اسٹیبلشمنٹ کی خطے کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں کی ناکامی کا اظہار ہے تو دوسری طرف پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش بھی ہے کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان دباؤ ڈال کر افغان طالبان کو امریکی شرائط پر مذاکرات کرنے کے لئے آمادہ کرے۔ امریکہ کی شرط یہ ہے کہ وہ انخلاء کے بعد بھی اپنے آٹھ ہزار کے لگ بھگ فوجی افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ افغانستان میں موجود اپنے جدید فوجی اڈوں کی حفاظت کرسکے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان، چین اور دیگر ممالک پر نظر بھی رکھ سکے۔ پاکستان، چین اور سب سے بڑھ کر طالبا ن کسی طرح بھی اس مطالبے کو ماننے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے امریکہ ایسی ریشہ دوانیوں میں دیر نہیں لگاتا جس سے اسے یہ امید ہو کہ وہ پاکستان کو مذکورہ شرط ماننے پر مجبور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پوری طرح اس صورتِ حال کا ادراک رکھتے ہوئے روس، ایران اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ مستقبل قریب میں اس نئی صف بندی کی جو صورت نظر آرہی ہے وہ پاکستان کے حق میں ثمر آور دکھائی دیتا ہے اس لئے پاکستانی حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو سنجیدگی سے ان کوششوں کو آگے لے جانا چاہئے۔