نصرت مرزا
امریکہ اپنے ڈومور کے مطالبے پر قائم ہے مگر دھیمے لہجے کے ساتھ، مائیک پومپیو یہ کہہ کر گئے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے جبکہ پاکستان اپنے فیصلے پر قائم ہے کہ وہ امریکہ کی جنگ نہیں لڑے گا اور اپنے مفادات کو مقدم رکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے اور پاکستان کا مفاد کیا ہے، اس کا سیدھا سادا سا جواب تو یہ ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ طالبان کو اِس بات پر راضی کرے کہ وہ امریکہ کی 6 ہزار سے 10 ہزار مسلح افواج افغانستان کے 9 اڈوں پر رہنے دے اور اس کے بدلے میں امریکہ طالبان کے کمانڈرز رہا کردے گا اور افغان حکومت میں اس کو حصہ دے دے گا، اس پر پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ طالبان کو مجبور نہیں کرسکتا البتہ وہ یہ کرسکتا ہے کہ دونوں فریقین میں مذاکرات کرا دے مگر وہ طالبان سے تصادم مول نہیں لے سکتا جبکہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، البتہ ان کو مذاکرات پر راضی کرسکتا ہے، چنانچہ پاکستان نے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرا دیا اور مائیک پومپیو اور امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ نے 5 ستمبر 2018ء کو پاکستان کا دورہ کیا۔ اس میں بھی یہ بات واضح کردی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم آپ کی ہر بات نہیں مان سکتے، البتہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاسکتے ہیں اور آپ خود مذاکرات کریں جس پر امریکہ نے دوبارہ طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے، پاکستان اصرار سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ طالبان ہمارے زیراثر صرف اتنے ہیں کہ وہ مذاکرات پر راضی ہوجائیں، سو وہ ہوگئے، البتہ طالبان نے امریکہ کی اس بات کو رد کردیا ہے کہ وہ امریکی اڈوں کو افغانستان میں قائم رکھنے کے لئے حمایت کریں، وہ اپنے ملک کی سرزمین پرکوئی غیرملکی دیکھنا نہیں چاہتے، اس کے باوجود بھی وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں جبکہ پہلے امریکی اْن سے مذاکرات کرنے سے صرفِ نظر کرتے رہے ہیں۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان میں مکمل شکست کھا چکا ہے اور افغانستان پر طالبان کے حملوں میں امریکی اموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں، وہ افغانستان پر حملہ کی بات کرچکے ہیں اور انہوں نے اپنے وزیرخارجہ کے دورے سے پہلے پاکستان کے 300 ملین ڈالرز کابل امداد کہہ کر ادا کرنے سے انکار کردیا اور مائیک پومپیو نے پاکستان آنے سے پہلے روزویلٹ اسٹرائیک کیریئر کا دورہ کیا تاکہ پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی جائے، کیونکہ اس ایئرکرافٹ کیریئر میں 5 سے 6 ہزار فوجی، میرین اور دیگرشعبوں کی مسلح فوج موجود ہے، اس میں دو گریگیٹ، 50 سے 60 ایئرکرافٹ موجود ہیں، یہ اسٹرانکنگ فورس اس لئے بنائی گئی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کی تحت جہاں بھی حملہ کرنا ہو وہاں یہ جہاز چلا جاتا ہے اور حملہ کرکے واپس آجاتا ہے، وہ عراق، شام اور افغانستان میں 1200حملے کرکے آ چکا ہے، اس نے بہت خون بہایا ہے، امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا اِس جہاز کے دورے کا مقصد کچھ بھی ہو مگر وہاں سے سیدھا پاکستان آنے سے یہ پیغام وصول ہوا کہ وہ پاکستان کو کھلی دھمکی دینا چاہتے ہیں۔ اب اس سلسلے میں پاکستان کیا کرے، کیونکہ امریکی مسلح افواج کے سربراہان اور وزارت خارجہ کے حکام ڈونلڈ ٹرمپ کو پاگل قرار دے چکے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں کے خلاف انتظامی بغاوت ہوچکی ہے، اْن کے کئی فیصلوں کو چھپا دیا جاتا ہے۔ امریکی صحافی باب وڈ ورڈ نے اپنی نئی کتاب فیئر میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا کی امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا، اس کو غائب کردیا، اس نے شمالی کوریا پر حملہ کی بات کی وہ نظرانداز کردی گئی، بشارالاسد کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا، اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ پینٹاگون اور امریکی انتظامیہ یہ بات جانتی ہے کہ پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے، ہماری امریکیوں سے دشمنی نہیں مگر وہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے تو پاکستان بھی کچھ کرے گا، پاکستان امریکہ کے مقابلے میں شمالی کوریا کے صدر کی طرح ’’چھوٹا بچہ‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایٹمی اسلحہ اور میزائلوں سے لیس ایک ملک ہے اور اپنے محل وقوع کے لحاظ سے امریکہ کا ناطقہ بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، امریکہ سے جو کچھ ہوا وہ اس نے کرکے دیکھ لیا، ہمارا ردعمل ابھی ادھار ہے، البتہ ہمارے امریکہ سے پرانے تعلقات ہیں اْن کے پیش نظر ہم بھی امریکہ کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں کہ وہاں کی انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھائے، امریکہ بھارت سے جو اْمیدیں باندھے بیٹھا ہے وہ پوری ہونے کی نہیں، بھارت میں اس وقت سخت واویلا مچا ہوا ہے کہ بھارت نے 2008ء سے امریکہ کی غلامی قبول کرلی، بھارت میں اب امریکہ کا قانون چلتا ہے، وہ بھارت کو زبردستی اپنا اتحادی بنانا چاہتا ہے اور روس سے اْس کو بالکل الگ کرنا چاہتا ہے، وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے جبکہ بھارت کے پاس 90 فیصد اسلحہ روسی ہے، اس کے پرزہ جات اور اس کا اسلحہ و جہازوں کی مرمت کا کام بھی روسی کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بھارت میں روس کی ایک بہت بڑی لابی ہے جو متحرک ہوگئی ہے اور نریندر مودی کی حکومت کو لے لالے پڑ جائیں گے، مظاہروں کا سلسلہ ایک اشارے کا منتظر ہے، امریکی وزیرخارجہ کا دوسرا پڑاؤ بھارت رہا وہاں انہیںیہ پیغام دینا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو 6 بلین ڈالرز سے زیادہ کی امداد دی ہے اور اْس کو اعلیٰ صلاحیت کی حامل ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا معاہدہ ایس ٹی اے-1 اسٹرٹیجک ٹیکنالوجی کااجازت نامہ دے دیا ہے تو اب روس کی کیا ضرورت ہے، اس کو مکمل طور پر امریکہ سے جڑ جانا چاہئے۔ اس نے اپنی کمانڈ کا نام بھی انڈو پیسیفک کمانڈ رکھ دیا ہے۔ اس طرح وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا چاہتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر بھارت نے امریکہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اس تو اس پر پابندیاں لگا دی جائیں گی، بھارت کو اس کا بھی پابند بنایا جارہا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدے۔ اب بھارت کی خودمختاری اور آزاد پالیسی امریکہ کے نرغے میں آگئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت امریکہ کے اس دباؤ کو برداشت کرے گا اور اس کے عوام اس کو قبول کریں گے، چینی و روسی اور دیگر ملکوں کی سوئی ہوئی لابیاں بیدار ہوں گی یا بھارتی حکومت کو کچھ موقع دیں گی کہ وہ آخری حد تک چلی جائیں تو حرکت میں آئیں، اس کا مختلف ملکوں کے ردعمل پر انحصار ہوگا، جس کے یہی معنی ہوں گے کہ تھک ہار کر امریکہ کو ایک دفعہ پھر پاکستان کی طرف دیکھنا پڑے گا مگر شاید اب پاکستان امریکہ کے لئے کسی قیمت پر دستیاب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ امریکہ سے لڑنا نہیں چاہتا اور اْس کے ساتھ کام چلاؤ تعلقات رکھنا چاہتا ہے، امریکہ کو بھی چاہئے کہ دھونس، دھمکی اور ڈرانے کی پالیسی کو خیرباد کہے اور اچھے تعلقات کے لئے نئے مواقع ڈھونڈیں جیسا کہ پاکستان امریکہ کو بار بار سمجھاتا رہا ہے۔