ساجد علی
وقت اور حالات نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ پیپلزپارٹی کے جھنڈوں کے ساتھ کئی اور جماعتوں کے جھنڈوں نے بھی اپنا مقام بنا لیا ہے
پاکستان اس وقت اپنی 71 سال میں داخل ہوچکا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ پہلی بار ایک ایسا لیڈر ایک ایسی جماعت سامنے آئی ہے جو نہ کسی خاندانی سیاست کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی کی محتاج۔ پاکستان میں تبدیلی کے نعرے تو ہر جگہ سنائی دے رہے تھے پر یہ نعرہ کیا سندھ میں اپنی پہچان بنا پائے گا۔ اس پر بات کرنا تو دور کی بات سوچنا ہی مشکل ہے۔ جہاں پر کہانی صرف ایک ہی جماعت کے درمیان گھومتی رہتی تھی۔
اس الیکشن نے جمہوریت کو ایک اور کامیابی دلا دی اور اس بار صاف اور شفاف الیکشن کے نتائج سامنے آئے، عوام نے اپنے ووٹ سے بڑے سے بڑے پتھر راستے ہٹا دیئے اور بتایا دیا کہ عوام جو چاہے کرسکتی ہے۔
جہاں ملک بھر میں تبدیلی کی ہوا چلی وہیں صوبہ سندھ کے عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، ایک ایسا صوبہ جہاں کئی دہائیوں سے عوام بھٹو کے محبت کی قرض میں ڈوبی ہوئی تھی اور جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ سندھ کے عوام یہ قرض کبھی اتار نہیں پائیں گے۔ جہاں پر وڈیرہ شاہی کے نظام کی جڑیں اس طرح لوگوں کو پکڑے ہوئی تھی جنہیں صرف مضبوط سے مضبوط تو ہوتا دیکھا جارہا تھا، جہاں پر کم پڑھے لکھے عوام کے ہونے کی وجہ سے حکمران چند نوکریوں کے عوض عوام کو خرید لیتے ہیں، جہاں حق بات نہ کی جاسکتی ہو، جہاں بھٹو عوام کی دلوں میں ہر وقت زندہ ہو، جہاں عوام ایک ہی جماعت کو جانتی ہو، وہاں عوام اگر اپنی روایات سے ہٹ کر کسی اور جماعت کو اپنانے کا سوچے تو کسی معجزے سے کم نہیں اور یہ معجزہ اس الیکشن کی صورت میں دیکھنے میں ملا ہے۔
اس کی وجہ وہ حالات ہیں کہ سندھ کے عوام زہر کو پانی سمجھ کر پیتے رہے ہیں۔ ان کے لیڈر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے رہے، زندگی کے ہر مزے لوٹتے رہے اور وہ بھی سندھ کے عوام کے پیسوں سے اور عوام کے لئے نہ کھانے کو اچھا، نہ پہننے کو کچھ نہ ہی علاج کے لئے کچھ۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے تو جیسے عوام کا خون چوس لیا ہو، سندھ پر ایسی حکومت مسلط تھی جس نے کبھی بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی، خواہ وہ صحت ہو، تعلیم ہو، زراعت ہو، آبپاشی نظام ہو یا پانی کا مسئلہ اور ناانصافی کے وہ اصول جس میں صرف اور صرف غریب عوام ہی پستے رہے، یہ سب وجہ تھی کچھ الگ سوچنے کی۔
ایک اور وجہ یہ بھی سامنے آتی ہے کہ صوبہ سندھ سب سے زیادہ ٹیکس اور ریونیو دینے والا صوبہ ہے اور عوام نے جب دوسرے صوبوں سے مشاہدہ کیا تو کہیں میٹرو چل رہی ہے تو کہیں انصاف کے تقاضے پورے کئے جارہے ہیں، پر صوبہ سندھ اور اس کے عوام آج بھی اسی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے جہاں وہ کل تھے، پر لگتا ہے اب حالات کچھ بدل رہے ہیں۔ اس بار کچھ الگ دیکھنے کو ملا ہے۔ سندھ کے وہ عوام جو کبھی ان زنجیروں سے نہیں نکل پا رہے تھے اس بار انہوں نے اپنے حق رائے دہی صحیح استعمال کیا ہے بلکہ ان وزیروں، مشیروں کو دن میں تارے دکھائے ہیں۔
نوابشاہ سے کچھ ہی فاصلے پر میرے ایک جاننے والے رہتے ہیں، ان سے جب میری اس موضوع پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں کبھی کسی بااثر شخص کے خلاف آواز بلند نہیں کی جاتی تھی لیکن اس دفعہ جب ہمارے حلقے کا نمائندہ جب ووٹ مانگنے آیا تو اس علاقے کی عوام نے ان کی گاڑیوں کو آگے نہیں آنے دیا۔ کہنے اور سننے کو تو معمولی بات ہے پر کسی بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کرنا بڑی ہمت کا کام ہے۔
اب حالات بدل رہے ہیں، وہ سوچ بھی بدل رہی ہے وہ سوچ جو کبھی کسی کی غلامی میں رہتی تھی۔ اگر کبھی جامشورو سے لاڑکانہ تک اور کراچی سے جیکب آباد تک آپ کا گزر ہوا ہو تو گھروں کی چھتوں پر صرف ایک ہی جماعت کے جھنڈے نظر آتے تھے۔ وقت اور حالات نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ ان جھنڈوں کے ساتھ کئی اور جماعت کے جھنڈوں نے اپنا مقام بنا لیا ہے حالانکہ اس بار دوبارہ وہی جماعت اچھے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے پر اس کے ساتھ کئی اور جماعتوں کا وجود میں آنا اس بات کی گواہی ہے کہ سندھ کے عوام اب کچھ نیا چاہتے ہیں، وہ جان چکے ہیں کہ ان کے پاس کیا طاقت ہے، اب وقت ہے اپنے ملک، صوبے اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا، اس بار یہ نہ صرف سننے میں بلکہ دیکھنے میں بھی آیا کہ جس جگہ جس گلی میں صرف ایک ہی جماعت کے نغمے سنے جاتے تھے اب وہاں کئی اور جماعتوں کے نغمے بھی سنے جاتے ہیں، بہت سی جگہوں پر تو ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک ہی گھر میں دو جماعتوں کے نغمے چل رہے ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اب یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ سندھ کے عوام اب جاگ چکے ہیں اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ اب ان پر کوئی قرض باقی نہیں رہا ہے اور نہ ہی وہ کسی کے غلام ہیں۔ سندھ کے عوام جسے چاہیں اپنا نمائندہ بنائیں اور جسے چاہیں انکار کردیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ اس ملک اور صوبے کی لگام ان کے ہاتھوں میں ہے خواہ پھر وہ کوئی نوجوان ہو، ہاری ہو یا کوئی بھی شخص ہو، ان سب میں ایک ہی سوچ تھی کہ اب کچھ نیا ہو، اب کچھ الگ ہو، اب سوچ یہ ہے کہ ناانصافی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے، سندھ میں بیداری کی لہر آ چکی ہے اور اس بیداری کی لہر کا تسلسل میں رہنا ہی سندھ کی عوام کے لئے بہتر ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ تب تک نہیں بدلتا جب تک وہاں کے لوگ خود کو نہ بدلیں اور بدلاؤ تبھی آتا ہے جب سوچ بدلتی ہے۔