عثمان یوسف قصوری
موجودہ دور میں لڑی جانے والی ففتھ جنریشن وار میں پروپیگنڈا اور ڈِس انفارمیشن سب سے بڑے ہتھیار ہیں
دُنیا کی مختلف اقوام میں ایک دوسرے متصادم نظریات پائے جاتے ہیں اور یہی چیز ان کے درمیان ماضی میں بھی جنگ و جدل کا باعث بنتی رہی ہے اور آج کی بدامنی کے پیچھے بھی یہی وجہ کارفرما ہے۔ آج دنیا میں ففتھ جنریشن وار پورے عروج پر ہے، یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ فرسٹ جنریشن وار کا دور وہ تھا جب جنگیں پیدل فوج اور بنیادی ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جاتی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ ہتھیار تلوار، تیر، نیزے اور دیگر ایسے ہی لوازمات پر مشتمل ہوتے تھے۔ سیکنڈ جنریشن وار جنگوں کا وہ دور تھا جب زمانہ تھوڑا جدید ہوا تو بارود بنایا گیا اور پستول اور بم سے جنگیں لڑی جانا شروع ہوئیں۔ تھرڈ جنریشن وار میں جنگی حکمت عملی تبدیل کی گئی اور عیاری کے ساتھ ایسی حکمت عملی اپنائی گئی جس میں دشمن کو گھیر کر اس پر اٹیک کیا جانے لگا۔ اس کی بہترین مثال مشینی انفنٹری اور ایئرفورس ہے۔ فورتھ جنریشن وار میں صورتِ حال مزید گھمبیر ہوگئی۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا جب ایک جنریشن وار متعارف کروائی گئی جو تاریخ کی سب سے خوفناک وار فیئر جنریشن تھی۔ ان جنگوں میں دشمن کے مقابلے میں براہ راست فوج نہیں اتاری جاتی بلکہ سیاست اور جنگ کے ذریعے دشمن کو اندرونی طور پر کمزور کیا جاتا ہے۔ اس کی بدترین مثال سرد جنگ کے زمانے میں دیکھنے میں آئی جب امریکہ نے پراکسی کے ذریعے روس کو شکستی اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ ففتھ جنریشن وار کا دور ہمارا دور ہے، اس دور میں جنگیں زمینوں پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جارہی ہیں۔ یہ تاریخ کا سب سے خوفناک ترین دور ہے جب ٹیکنالوجی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے اور سپرپاورز کا دنیا پر قبضے کا خواب اب ایک خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے مسلسل جنگیں لڑ رہا ہے، یہ واحد ملک ہے جس نے اب تک کی تمام قسم کی جنگیں لڑی ہیں یا یوں سمجھ لیجئے کہ تیسری، چوتھی اور پانچویں جنریشن وار کا بانی ہی امریکہ ہے۔ ففتھ جنریشن دور میں آج تک کی تمام جنریشن وارز شامل ہیں۔ اس جنریشن وار فیئر میں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ففتھ جنریشن وار میں پروپیگنڈا اور ڈس انفارمیشن سب سے بڑے ہتھیار ہیں، فیک نیوز کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، اخبارات، ٹی وی چینلز، نیوز پروگرام، صحافی، ادیب، مدبر اور ایکٹیوسٹس کرائے پر دستیاب ہیں اور یہی ففتھ جنریشن وار کے سپاہی ہیں۔ اس دور کی جنگ میں ہم سب سپاہی ہیں، یہاں ہم ان وار جنریشنز کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
ففتھ جنریشن وار
ففتھ جنریشن وار جیسا کہ ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں، ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا ہتھیار زہریلا پروپیگنڈا ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے جنگیں زمینوں پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جارہی ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے خوفناک ترین طریقہ کار ہے، ٹیکنالوجی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے اور سپر پاورز کا دنیا پر قبضے کا خواب ایک خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ففتھ جنریشن وار میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی، پروپیگنڈا اور ڈس انفارمیشن سب سے بڑے ہتھیار ہیں، جعلی خبروں کی فیکٹریاں اس جنگ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اخبارا، ٹی وی چینلز، نیوز پروگرا، صحافی، ادیب، مدبر اور ایکٹیوسٹس کرائے پر دستیاب ہیں اور یہی ففتھ جنریشن وار کے سپاہی ہیں۔ ہم سب اس جنگ کے سپاہی ہیں۔ یہاں ہم ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے پاکستان کے تناظر میں اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے امریکہ اپنی سائبر فورس تیار کرچکا ہے۔ وہ پہلے دنیا کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے ڈراتا رہا ہے لیکن اس میں ناکام ہونے کے بعد اب ہماری نئی نسل کو وہ اس جنگ میں اس طرح شامل کرنے میں کوشاں ہے کہ وہ پروپیگنڈے کے زیراثر نادانی میں اپنے ہی ملک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ففتھ جنریشن وار میں امریکہ نے سب سے زیادہ فوکس فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت پر رکھا ہوا ہے۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عوام ان معاملات پر بہت جلد جذباتی ہوجاتے ہیں، اس لئے پاکستانی نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ملکی سلامتی کو اپنا سب سے بڑا مشن بنائیں تاکہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آپس میں لڑا نہ سکے۔ ہمیں چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس پروپیگنڈے کا توڑ کریں کیونکہ یہی اس جنگ کا جواب ہے۔ یہی جنگ ہے جو آپ نے، میں نے، ہم سب نے لڑنی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ففتھ جنریشن وار میں استعمال ہونے والے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
فورتھ جنریشن وار
فورتھ جنریشن وار کے حوالے سے ہمارے سامنے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاری رہنے والی سرد جنگ اور کشمکش کی مثال موجود ہے۔ 1940ء سے 1990ء کی دہائی تک ان میں جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثیر اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ عسکری تیاری اور دُنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لئے سیاسی جنگ پر مشتمل نصف صدی تھی۔ حالانکہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن بعد از جنگ تعمیرنو کے حوالے سے ان کے نظریات بالکل جدا تھے۔ چند دہائیوں میں سرد جنگ یورپ اور دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی۔ امریکہ نے اشتراکی نظریات کی روک تھام کے لئے خصوصاً مغربی یورپ، مشرقی وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کئی ممالک سے اتحاد قائم کئے۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسے تنازعات پیدا ہوئے جو دنیا کو عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئے جن میں 1948ء سے 1949ء تک برلن کی ناکہ بندی، جنگ کوریا 1950ء سے 1953ء، جنگ جنگ ویتنام 1959ء سے 1975ء، 1962ء کا کیوبا میزائل بحران اور 1979ء تا 1989ء تک سوویت افغان جنگ قابل ذکر ہیں۔ اسے روس کی بدقسمتی اور امریکہ کی خوش قسمتی قرار دیا جاسکتا ہے کہ روس نے گرم پانیوں پر قبضہ کرنے کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ امریکہ نے اس جنگ کو اسلام اور کمیونزم کی لڑائی قرار دیا۔ اس نے افغانستان میں اپنے بندے جمع کئے اور اس وقت انہیں مجاہد قرار دیا گیا اور ان کے ذریعے افغانستان میں روس کو شکست دی۔ یہ ایسی لڑائی تھی جو ماضی کی سپر پاور اور موجودہ سپر پاور کے درمیان نہیں لڑی گئی تھی بلکہ امریکہ نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے افغانستان میں مجاہدین کی بھرپور سپورٹ کرکے اپنے مقاصد حاصل کئے۔
تھرڈ جنریشن وار
تھرڈ جنریشن وار میں تباہ کن ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں، درست نشانہ بنانے والی توپوں، میکانائزڈ انفنری، فضائیہ کی مدد بروئے کار لائی جانے لگی۔ دفاع کے لئے بڑے پیمانے پر خندقیں استعمال کی گئیں۔ اس طرز جنگ میں تیز حریف سے دوبدو ٹکراؤ سے بچ کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی دنیا میں چھائی رہی۔ حریف کی تباہی کا زیادہ تر سہرا فضائیہ کے سر رہا۔ اس طریقہ کار کی جنگ میں صفوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر جنگ کا حصہ بن گیا۔ جدید میزائل ٹیکنالوجی استعمال میں لائی گئی۔ دشمن کو بہت زیادہ فاصلے سے تباہ کیا جانے گا۔ اگلے مورچوں کے یونٹوں کی آزادی بڑھ گئی اور چھوٹے درجے کے آفیسرز پر انحصار بڑھ گیا اور وہ خود انتظامی امور دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے جنگ کی جزئیات کا زیادہ تر انحصار بڑے افیسرز پر ہوتا تھا۔ زیادہ دور کے فاصلے سے وائرلیس اور وائر کمیونیکیشن میں اضافے کے ساتھ پیچیدہ کوڈ بنائے گئے۔ کمیونیکیشن انٹر اسپشن اور کوڈنگ، ڈی کوڈنگ پر بہت زور دیا گیا اور ہیومن انٹیلی جنس اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جنگوں میں تباہ کن جہازوں کا استعمال بہت بڑھ گیا اور دنیا کی پہلی فضائی جنگ 1915 میں جنگ عظیم کے دوران لڑی گئی۔ جب جرمنی نے پہلے غبارہ نما جہاز ڑیپلن میں برطانوی شہر لندن پر بمباری کی اور لندن نے پہلے زمین سے گنز اور بعدازاں ہیلی کاپٹرز سے اس کا مقابلہ کیا۔ ڑیپلن جہاز آٹھ ہزار فٹ بلندی پر اڑتے تھے اور لندن پر بم برسا کر واپس برلن آجاتے تھے۔ اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے لندن نے جلد ہی ڑیپلن کو گرانے کے لئے خاص قسم کی گنز تیار کیں جو گاڑیوں پر نصب کی گئیں۔ یہ رات کے وقت سرچ لائٹس کے ذریعے ڑیپلن کو تلاش کرتیں اور انہیں مار گراتی تھیں۔ دو ماہ میں ان گنز کے ذریعے پانچ ڑیپلن مار گرائے گئے۔ یہ جرمنی کے ایک بہت بڑا نقصان تھا۔ اس لئے 1961ء میں جرمنی نے ڑیپلن آپریشن بند کردیا۔ لیکن اس دوران 20 ماہ میں جرمنی نے 40 حملے کئے جس میں 500 افراد ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ کچھ دیر بعد لندن نے اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے ہیلی کاپٹروں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ جہازوں پر مشین گنیں نصب کردی جاتی تھیں۔ جن کا فائر بلندی پر تیرتے ڑیپلن کا غبارہ پھاڑ دیتا تھا، جس سے غبارے میں موجود ہائیڈروجن گیس کو آگ لگ جاتی اور ڑیپلن اپنے پائلٹ سمیت ختم ہوجاتا۔ اس طرح جرمنی اپنے بہترین فضائی لڑاکا کپتان کھو بیٹھا۔ بیزک میٹی ایسا ہی جرمن ہیرو تھا، وہ پندرویں حملے کے لئے جب لندن شہر کی فضا میں رات کے ساڑھے گیارہ بجے داخل ہوا تو ایک سرچ لائٹ نے اسے کھوج لیا۔ ایک نائٹ فائٹر اس کے تعاقب میں بھاگا اور بیزک کو جا لیا۔ ڑیپلن فائر کا نشانہ بن کر زمین پر گرا تو جھلسی ہوئی گھا پر بیزک میٹی کا نقشہ بن گیا۔ اس کی جلی ہوئی لاش زمین پر یوں گری کہ جلتی ہائیڈروجن کی حدت سے پگھل کر ایک یادگار نشان چھوڑ گئی۔ ڑیپلن آپریشن بند کرنے کے بعد جرمنی نے گوتھ جہاز تیار کئے۔ یہ جہاز بھی لندن پر بمباری کیا کرتے تھے۔ لندن کے شہریوں نے ایک الارم سسٹم بنایا جو فضائی حملے کے وقت سارے شہر کو چوکس کر دیتا اور شہری زمین دوز پناہ گاہوں میں چھپ جاتے۔ یہ حملے دو سال جاری رہے، لندن نے ان حملوں کا بھی جواں مردی سے مقابلہ کیا اور کچھ دیر بعد انہیں بھی ناکام بنا دیا۔ جرمن طیارے زیادہ تر رات کو بمباری کرتے اور حملے کرکے رات میں ہی واپس چلے جاتے، لندن کے نائٹ فائٹر جنگی جہاز کو سادہ ترین ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ ایک سادہ جہاز تھا جس پر ایک مشین گن نصب کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں جرمنی نے گوتھا جنگی جہاز تیار کئے، جو زیادہ بلندی پر اڑتے تھے۔ ان جہازوں کے ذریعے دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاتی تھی۔ یہ دنیا کا پہلا بمبار جہاز تھا، اس کی رفتار بھی لندن کے نائٹ فائٹر سے کچھ زیادہ تھی لیکن یہ جہاز بھی جنگ میں جرمنی کو فیصلہ کن فتح نہ دلا سکا۔ جنگ عظیم اول میں گوتھا طیاروں نے لندن پر 42 حملے کئے جن میں 800 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن یہ سارے حملے جرمنی کو فیصلہ کن فتح دلانے میں ناکام رہے، 1918ء تک جرمنی ان حملوں کی مدد سے بھی اپنے گرد قائم اتحادیوں کا محاصرہ بھی نہ توڑ سکا۔
سیکنڈ جنریشن وار
سیکنڈ جنریشن وار میں بارود کی ایجاد اور استعمال نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے چنگیز خاں نے جنگ میں بارود سے کام لیا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ چنگیز خاں کے زمانے سے بہت پہلے یعنی نویں صدی میں اہل چین بھی بارود بناتے اور اسے آتشیں پٹاخوں میں استعمال کرتے تھے جبکہ یورپ میں بارود کی ایجاد دور تیرہویں صدی ہے، انگریز راجر بیکن یا جرمن برتھولڈشوارٹر بارود ہی کے بل پر یورپی سپاہیوں نے روئے زمین پر حکمرانی کے جال بچھائے۔ بارود کے لئے یہ چیزیں درکار تھیں: اول قلمی شورو، دوم گندھک، سوم کوئلہ۔ بیکن نے شورے کو صاف کرکے قلمی شورو بنانے کا طریقہ دریافت کیا اور بارود کا نسخہ تیار کیا۔ شوارٹر نے اس سے کام لینے کے ل ئے آتشیں ہتھیار بنائے۔ بہرحال بارود سازی کا بندوبست ہوگیا تو یورپ کی فوجیں تلوار نیزے اور تیروں کی جگہ تولیاں استعمال کرنے لگیں۔ بینک برن کی لڑائی میں رابرٹ بروس نے انگریزوں کو مغلوب کرلیا۔ 1314ء میں انگریزوں نے فرانسیسی امیروں کو تباہ کر ڈالا اور 1346ء ان دونوں لڑائیوں میں بارود استعمال ہوا۔ بعدازاں تجربات جاری رہے، یہاں تک کے پندرہویں صدی میں بندوق ایجاد ہوئی اور مدمقابل کو دور ہی سے موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ بارود کی ایجاد کے بعد صدیوں یہ مسئلہ پریشانی کا باعث رہا کہ اس سے کام لینے کے لئے موزوں ہتھیار کون سا ہوسکتا ہے۔ پہلے توڑے والی بندوق ایجاد ہوئی پھر چقماقی بندوق نکلی 1807ء میں الیگزانڈر جان فاستھ نے ایک ایسی بندوق تیار کی جس کے پہالے پر تانبے کی ٹوپی رکھی جاتی تھی۔ تیس سال کے غوروفکر کے بعد فوجی ماہروں نے اسے استعمال کرنا منظور کرلیا۔ آتش بار ہتھیاروں میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رہا مگر ان میں غیرمعمولی ترقی پہلی بار جنگ عظیم کے دوران ہوئی چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار 22 نمبر کا پستول تھا اور بڑے سے بڑا ہتھیار جرمنوں کی توپ جسے ہگ برتھا کہتے تھے، اس کی مار 80 میل تک تھی۔ بارود سرنگیں بنانے اور چٹائیں توڑنے میں بھی استعمال ہوتی تھی۔ اسی طرح برصغیر میں میزائل ٹیکنالوجی کے بانی عظیم مجاہد اسلام ٹیپو سلطان تھے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے جس طرح آج زمانہ مسلمان سائنسدانوں کی علمی و تحقیقی خدمات کا معترف دکھائی دیتا ہے بالکل اسی طرح جدید دور کی جنگوں میں استعمال ہونے والا اہم ترین ہتھیار راکٹ اور میزائل کی ایجاد بھی ایک نامور مسلمان جرنیل نے کی۔ جس کا اب عالمی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کا نام بہادری اور جرأت کی مثال کے طور پر مشہور رہے۔ لیکن ان کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ ان کی فوج نے دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ بارود سے چلنے والا راکٹ استعمال کیا جس نے انگریز فوج کے چھکے چھڑا دیئے۔ ان راکٹوں کی بنیاد ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کے دور اقتدار میں رکھی گئی لیکن ٹیپو سلطان نے انہیں دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار بنا دیا۔ اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج ہندوستان کو روندتی چلی جارہی تھیں لیکن جب ان کا مقابلہ ریاست میسور کی افواج سے ہوا تو ان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ ریاست میسور اور برطانوی افواج میں ہونے والی دوسری جنگ میں کرنل ولیم ہیلی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی فوج آسمان سے کیا قیامت برس رہی ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ میسوری فوج کے راکٹوں نے انگریزی فوج کے اسلحہ خانوں کو اڑا کر رکھ دیا اور جنگ میں ڈھیروں وسائل اور کثیر تعاد کے باوجود ریاست برطانیہ کو شرمناک شکست ہوئی۔ اس کے بعد میسور کی تیسری جنگ میں بھی ان راکٹوں کا شاندار استعمال کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اور یورپ میں ہلکے پھلکے راکٹ بنائے جاتے تھے، جن کا خول گتے یا لکڑی کا ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہ بہت کم طاقت کے حامل تھے۔ اس کے برعکس ٹیپو سلطان کے راکٹوں کا خول لوہے سے بنایا جاتا تھا اور ان میں زیادہ بارود بھرا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ تلواروں جیسے تیز دھار بلیڈ بھی لگائے جاتے تھے اور ان کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ یہ دو کلومیٹر کے فاصلے تک عین نشانے پر جا کر لگتے تھے۔ انہیں چلانے کے لئے فوجیوں کو خصوصی تربیت دی جاتی تھی اور علیحدہ سے راکٹ بریگیڈ قائم کی گئی تھی جس کے پاس پہیوں والے راکٹ لانچر بھی ہوتے تھے۔ یہ لانچر بیک وقت درجن بھر راکٹ چلاتے تھے جو دشمن کی افواج پر گرتے وقت گھومنا شروع کر دیتے تھے اور یوں درجنوں فوجیوں کو لمحوں میں کاٹ کر رکھ دیتے۔ فوجی راکٹ چلانے سے پہلے اس کے وزن اور ٹارگٹ کے فاصلے کی بنیاد پر اسے چھوڑنے کے زاویے کا تعین کرتے تھے اور ان کی تربیت اتنی اعلیٰ تھی کہ راکٹ عین نشانے پر جا کر گرتے تھے۔ ٹیپو سلطان کے راکٹوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کے بعد بھارتی ریاست کرناٹکا میں واقع ان کے سرنگاپٹم قلعہ کو راکٹ میوزیم میں تبدیل کرنے کردیا گیا ہے ج س میں دنیا کے پہلے راکٹوں سے لے کر آج کے جدید میزائل تک کی جنگی ٹیکنالوجی کو رکھا جائے گا تاکہ عظیم مسلمان جرنیل کو ان کے شایانِ شان خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔ جب انگریز فوج نے 4 مئی 1799ء کو میسور پر قبضہ کیا تو وہ ٹیپو سلطان ک فوج کا بارود خانہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیونہ انہوں نے اس طرھ کے راکٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انگریز جرنیل ڈیوک آف ویلنگٹن ولزلی نے فوراً سے پہلے یہ راکٹ برطانیہ پہنچائے جہاں ان پر مزید تحقیق کی گئی اور برطانوی افواج کو جدید راکٹ ملے۔
فرسٹ جنریشن وار
فرسٹ جنریشن وار اور فرسٹ وار فیئر کے حوالے سے ہم اپنے قارئین کو نبی کریمؐ کے دور میں کافروں اور یہودیوں سے لڑی جانے والی ایک جنگ کی مثال پیش کریں گے جب آپؐ نے دنیا کے بہترین سپہ سالار کی حیثیت سے بہترین جنگ حکمت عملی بنائی اور مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ بڑی تعداد میں دشمنوں کو شکست فاش دے کر رکھ دی۔ چشم فلک نے شاید ایسا منظر پہلی بار دیکھا ہوگا جب مشرکین مکہ اور یہود نے خانہ کعبہ کی دیواروں سے چمٹ کر یہ عہد کیا کہ اللہ کے رسول حضرت محمدؐ کی مخالفت کرنے والے ہم میں سے جب تک ایک آدمی بھی زندہ رہے گا وہ اللہ کے رسول محمدؐ کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔ چنانچہ سردارانِ قریش سے قول و قرار کے بعد یہ یہودی عرب کے ایک بڑے جنگجو قبیلہ غلفان کے پاس پہنچے، انہیں رشوت کی پیش کش کی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شرکت کا عہد و پیمان کیا۔ باہمی قرارداد کے مطابق ابو سفیان کی قیادت میں قریشیوں کا لشکر مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا اور مرظہران میں قیام کیا، یہودیوں اور دوسرے قبائل کے لوگ بھی شامل ہوگئے، عرب و یہود کی اس اتحادی طاقت کی تعداد دس سے بارہ ہزار کے قریب تھی۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد کے مقابلے میں اس متحدہ طاقت کا مقابلہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا، نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا، ان سے مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ ایسے موقع پر بلادفارس میں دشمن کے حملے کو روکنے کے لئے خندق کھودا جاتا ہے، رسول اللہؐ نے اس مشورہ کو بے حد قبول فرمایا اور خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔ اسی لئے اس غزوہ کو ’’غزوہ خندق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس خندق کی لمبائی، چوڑائی کی نبی کریمؐ نے حد بندی کردی اور خط بھی کھینچ دیا، انصار و مہاجرین اور خود نبی کریمؐ بھی خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے۔ آج کی دنیا کی حیران ہے کہ سخت سردی ہے، پتھریلی زمین ہے، نہ آج کی طرح مشینیں ہیں نہ آلات و اوزار اور ہتھیار ہیں، مگر ان کا جوش ایمانی اور دل محبت رسولؐ سے اس قدر سرشار ہے کہ صرف چھ دن میں ساڑھے تین میل لمبی خندق کی کھدائی مکمل ہوجاتی ہے۔ ساڑھے تین میل خندق کی کھدائی میں انصار بھی تھے، مہاجرین بھی تھے، فارسی بھی تھے اور دوسرے صحابہ کرامؓ بھی، مگر ان کے باہمی تعلقات نہایت ہی مضبوط و مستحکم اور قابل رشک تھے، اگر اپنا حصہ کھدائی کا پورا ہوجاتا تو وہ خالی نہیں بیٹھے رہتے کہ ان کی ڈیوٹی پوری ہوگئی بلکہ اپنے دوسرے ساتھی کی مدد کرتے۔ لہٰذا اسلام اور مسلمانوں کے مخالف کافروں کے 12 ہزار کے لشکر نے ایک دن طے کیا کہ مسلمانوں پر یکبارگی سے حملہ کرو اور خندق پار کرکے مٹھی بھر مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دو، پھر وہ لوگ بڑی بے جگری کے ساتھ مسلمانوں کے مقابل میں آئے اور ان پر تیروں کی بارش کردی، مسلمانوں پر شدت سے حملہ کی انتہا ہوگئی، ہر طرف تلواروں اور نیزے بازی کے جوہر دکھائے جارہے تھے، ساتھ ہی ساتھ تیروں کی بارش بھی جارتی۔ نبی کریمؐ مسلسل تین روز تک مسلمانوں کی فتح کے لئے دعا اور مخالفین کی شکست کے لئے بددعا کرتے رہے، تیسرے روز آپؐ کی دعا قبول ہوئی اور صحابہ کرامؓ خوشی خوشی رسول اللہؐ کے پاس تشریف لائے اور فتح کی بشارت سنائی۔ فرسٹ جنریشن وار کچھ اس طرح سے تھی، نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی بہترین جنگی حکمت عملی سے مسلمانوں نے بخوبی یہ جنگ لڑی اور فتحیاب ہوئے۔
اس لئے ہم پاکستان کے تمام نوجوانوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ پیارے وطن پاکستان کو درپیش خطرات کو سمجھیں اور اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر باہم دست و گریباں ہونے سے گریز کریں کیونکہ ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ وہ براہ راست ہمارا مقابلہ کرنے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا کر اپنے اپنے مذموم اور گھناؤنے مقاصد حاصل کریں۔ جس طرح امریکہ سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرچکا ہے، اب وہ پاکستان کے صوبوں کو بھی ایک دوسرے سے الگ کرکے ہمارا اتحاد پاراپارا کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کا اصل مقصد ہماری بقا کے ضامن ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ہے، پہلے وہ دنیا کو یہ کہا کرتا تھا کہ یہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے لیکن جب ہمارے عوام نے اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابی حاصل کی تو اب ہمارے دشمن ہمارے نوجوان کو ہی اپنے ملک اور اپنے بھائیوں کا دشمن بنانے کے درپے ہے، وہ پاک فوج اور عوام میں بھی فاصلے اور دوریاں پیدا کرنے پر عمل پیرا ہے، اس لئے ہمیں دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے انہیں موثر حکمت عملی سے ناکام بنانا ہوگا۔ (بشکریہ ’’نئی بات‘‘)