Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارت۔۔ جمہوری لبادے میں وحشت!

ڈاکٹر لال خان

عالمی کارپوریٹ میڈیا میں بھارت کے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا بہت پرچار ہوتا ہے۔ لیکن بھارت سمیت اِس خطے میں جمہوریتوں کے پیچھے کتنی ذلت اور غربت پکتی ہے اس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران اور دائیں بازو کے رجحانات سرحد کے اْس پار موجود اپنی پرچھائیوں کی پاکستان دشمن لفاظی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں یہاں کے اصلاح پسندوں میں بھارت کے نام نہاد سیکولرازم اور ’’مضبوط جمہوریت‘‘ میں ترقی پسندی تلاش کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن اس جمہوریت کے پس پردہ جو بھارتی کارپوریٹ دھنوانوں، کرپٹ ریاستی افسر شاہی خصوصاً جرنیلوں اور ججوں کی مطلق العنانیت اور جبر وحشت جاری ہے وہ ظاہری طور پر سامنے نہیں آتے تاہم ان کے لگائے ہوئے زخم اور وارداتیں ضرور بے نقاب ہوتی ہیں۔ جواہر لال نہرو نے جو سیکولرازم، جمہوریت اور سوشل ازم کے نعرے دیئے تھے وہ اْس منفی کردار کی محض پردہ پوشی تھی جو اْس نے 1947ء کی تقسیم کروانے میں گاندھی کے ساتھ مل کر ادا کیا تھا۔ 1946ء میں جناح صاحب نے شاید اسی خونریزی کے خدشے کے پیش نظر ’’کیبنٹ مشن‘‘ کی تجویز مان کر تقسیم کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ لیکن پھر برطانوی سامراج کے گھاگ پالیسی سازوں نے ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کے ذریعے نہرو کو اشتعال دلوا کر وہ پریس کانفرنس کروائی جس نے واقعات کی سمت ہی بدل دی۔ نہرو کا یہ کردار ہی سیکولرازم کی نفی تھی۔ اسی طرح ’’نہرووین سوشلزم‘‘ بھی محض ریاستی سرمایہ داری تھی جس میں قدرتی وسائل اور معیشت کے بڑے حصے کو ریاستی تحویل میں لے کر سرمایہ داروں کو ہر طرح کی سہولت دی گئی، سستی لیبر اور خام مال فراہم کیا گیا۔ آج 71 سال بعد اِس سیکولر ازم، جمہوریت اور سوشل ازم کی حقیقت پوری طرح عیاں ہوچکی ہے۔ اسی طرح بھارت کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کی جانب سے بنیاد پرستی اور مذہبی جنون کو ایک داخلی پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی واردات بھی اب بے نقاب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے واقعات نے دیوہیکل بھارتی ریاست کی نام نہاد غیرجانبداری کی قلعی کھول دی ہے۔
یکم جنوری 1818ء کو آج کی بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہونے والی ایک خونیں لڑائی میں مرہٹہ سلطنت کے جنونی جنگجوؤں کو نچلی ذات کے دلت ہندوؤں نے شکست دی تھی۔ ہر سال یکم جنوری کو دلت اپنی اس فتح کا جشن مناتے ہیں۔ اس مرتبہ مہاراشٹرا کے اس مقام (بھیما کورے گاؤں) پر دلتوں کا زیادہ بڑا مجمع دیکھنے میں آیا۔ اس جشن پر بنیاد پرست مرہٹوں نے حملہ کردیا جس میں کچھ اموات بھی ہوئیں۔ یہ تنازعہ اب تک چل رہا ہے اور خصوصاً مہاراشٹرا کے سیاسی منظر سے زائل نہیں ہورہا۔ المیہ یہ ہے کہ شیوسینا کے اِن غنڈوں کو مودی سرکار اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔ سب سے پہلے مہاراشٹرا کے شہر پونا میں قائم ایک تھنک ٹینک، جس میں ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران شامل ہیں، نے اس فساد کو حکومت کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیتے ہوئے سارا الزام بائیں بازو کے سرگرم کارکنان پر لگا دیا۔ فوج کے اشارے پر مہاراشٹرا، جہاں بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت ہے، کی پولیس نے سارے معاملے کو نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش کا حصہ قرار دے دیا۔ پولیس نے چشم دید گواہوں کے تمام بیانات اور ثبوت مسترد کر دیئے ہیں۔ یوں ذات پات کے تعصبات اب ایک مسلسل تناؤ اور تصادم کی کیفیت میں ابھر آنے سے یہ مسئلہ طوالت اور شدت اختیار کر گیا ہے۔ حکومت اور ریاستی مشینری کی جانب سے مذہبی انتہاپسندوں کی کھلی طرف داری نے سرکار کی ساکھ کو بُری طرح ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس لئے اب کھلا جبر بھی کیا جا رہا ہے۔ کمیونسٹ کارکنان اور ترقی پسند ادیبوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان ترقی پسند سیاسی کارکنان اور ادیبوں کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار بھی کیا جا رہا ہے اور سنگین مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلوں پر سرکاری پروپیگنڈا کو ابھار کر کمیونسٹوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے شاعر واراوارا راؤ ان دس اصحاب قلم میں شامل ہیں جن کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کوئی بھی اْس دن بھیما کورے گاؤں کے قریب بھی موجود نہیں تھا۔ لیکن ایسی بیہودہ حرکات بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ کی غمازی کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے ہیں جو پورے ہندوستان میں کوئی مسلح کارروائی کرنے والے آخری افراد ہوں گے۔
لیکن اس سارے عمل میں پونا کے فوجی تھنک ٹینک سے لے کر فوج کی خفیہ ایجنسیوں اور ریاست کے اندر موجود ریاست کا کردار پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر بے نقاب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ عالمی جریدے اکانومسٹ نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حالیہ شمارے میں لکھا ہے، ’’ایک زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ عام طور پر انتہائی خاموشی اور خفیہ انداز میں واردات کرنے والی ہندوستان کی ڈیپ اسٹیٹ اب زیادہ سخت گیری پر اتر آئی ہے۔ گرفتار شدگان (دانشور اور لکھاری) بے گناہ ہیں تو بھی قانونی پیچیدگیوں میں سالہا سال الجھے رہیں گے۔ یہ درحقیقت ان (بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے) ناقدین کے لئے ایک سخت انتباہ ہے جو سیکورٹی فورسز کی کشمیر اور نکسل کے علاقوں میں کارروائیوں کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔‘‘
اس سارے ماجرے سے ہٹ کر بھی بھارت میں اب ہندو بنیاد پرستوں اور مذہبی جنونی غنڈوں کی وحشیانہ کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ دوسری طرف ڈیپ اسٹیٹ کی جانب سے میڈیا اور سیاست کی زیادہ جارحانہ انداز میں ’’مائیکرو مینجمنٹ‘‘ کی جا رہی ہے۔ یوں اِن رجعتی عناصر کو اپنے بنیادی حقوق اور قومی و طبقاتی آزادی کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے خلاف بطور پراکسی استعمال کرنے کی کارروائی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
آج کے عہد میں سرمایہ داری کا اقتصادی بحران ایک طرف تحریکوں اور دوسری جانب سماجی خلفشار کو تیز کر رہا ہے۔ ایسے میں خارجی اور داخلی محاذوں پر ریاستیں کسی براہِ راست فوجی تصادم سے گریز کر کے اپنی پراکسیوں کے ذریعے خونیں وارداتیں کروا رہی ہیں۔ بھارت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی نہ صرف ایسی داخلی کارروائیوں میں زیادہ متحرک ہوگئی ہے بلکہ اس نے کاروبار اور معیشت میں بھی اپنی واردات ڈالنی شروع کردی ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کے پانچ سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ان سودوں میں بھی دیوہیکل کک بیکس اور کمیشن شامل ہوتے ہیں جن کو اب ان بھارتی جرنیلوں نے انویسٹ کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ یوں ان کے اپنے مالی مفادات بھی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’امن و امان‘‘ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہی کیفیت ہمیں خطے کے کچھ دوسرے ممالک میں بھی ملتی ہے۔ لیکن بھارت کا ریاستی جبر نہ تو کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچل سکا ہے اور نہ ہی ہندوستان کے دوسرے بے شمار علاقوں میں عوامی بغاوتوں پر قابو پا سکا ہے۔ نریندر مود ی اب مذہبی منافرتوں کو نئی ہولناک انتہاؤں پر لے جانا چاہتے ہیں جس سے وہ ہندو بنیاد پرستی کی وحشت کو ابھار کر 2019ء کا انتخاب جیت سکیں۔ لیکن ان حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے ہارنے کا خوف بھی کھائے جا رہا ہے۔ دوسری طرف کانگریس جیسی پارٹیوں کی اپنی عوام دشمن پالیسیوں، بدعنوانی اور مروجہ نظام کی فرسودہ سیاست تک محدودیت کے پیش نظر وہ بنیاد پرستی کے سامنے حقیقی مزاحمت سے عاری ہیں۔ لیکن اگر ہندوستان کی تین بڑی کمیونسٹ پارٹیاں، خصوصاً کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، سیکولر ازم اور جمہوریت کی فرسودہ اصلاح پسندانہ سیاست کو مسترد کرتے ہوئے انقلابی سوشلزم کے ٹھوس نظریات کے ساتھ طبقاتی سیاست اور جدوجہد کریں تو ہندوستان کے دیوہیکل محنت کش طبقے کی حمایت سے نہ صرف مودی کو شکست دی جا سکتی ہے بلکہ رجعتی ڈیپ اسٹیٹ سمیت ساری ریاست اور نظام کو ہی اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اس سے ڈیڑھ ارب انسانوں پر مشتمل پورے خطے کا مقدر بدل سکتا ہے۔

مطلقہ خبریں