Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بھارتی آبی جارحیت اور پانی کا مقدمہ

میر معید

انڈس ریور سسٹم میں 6 بڑے دریا ہیں جن میں سے 3 مغربی دریا جہلم، چناب اور سندھ ہیں، جبکہ مشرقی حصے میں ستلج، راوی اور بیاز ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے جبکہ مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان بھارت کی جانب سے ہائیڈرو پاور اور پانی ذخیرہ کرنے کے دو متنازع منصوبوں پر مذاکرات شروع ہورہے ہیں مگر اس لازمی لایعنی عمل کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک بھارت اپنی ہٹ دھرمی نہ چھوڑ دے کیونکہ ایک طرف مذاکرات کا عمل سست روی سے کبھی جاری ہوتا ہے اور کبھی ڈیڈ لاک کا شکار ہوتا ہے تو دوسری جانب بھارت پاکستان کے پانیوں پر غیرقانونی پراجیکٹ تیزی سے تعمیر کررہا ہے اور ماضی میں بھی کرتا رہا ہے۔
پاکستانی دریاؤں پر بھارت کے پہلے اسٹوریج ڈیم اور سب سے بڑے بجلی گھر پاکل دول کا متنازع ڈیزائن نیا آبی تنازع ہے، بھارت اس ڈیم کی تعمیر کے بعد پاکستان کے دریائے چناب کا ایک لاکھ 8 ہزار ایکڑ فٹ پانی روک سکے گا۔ 1500 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے باعث مقبوضہ وادی میں پاکستانی دریاؤں پر بھارت کا سب سے بڑا بجلی گھر ہوگا۔ پاکستان نے 2012ء میں پاکل دول کے ڈیزائن کو معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے۔ 6 سال سے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے اور اس کے آپریشن سے متعلق ڈیٹا فراہم نہ کرنے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے مطالبات اور اعتراضات کو پس پشت ڈال کر رواں برس مئی میں وزیرِاعظم نریندر مودی کے ہاتھوں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا تھا۔ ایک اور متنازعہ منصوبہ دریائے چناب پر ہی ضلع ڈوڈا میں بھارت کی جانب سے 48 میگاواٹ کا متنازع بجلی گھر کی تعمیر ہے جو کہ پاکستان کا پانی روک کر تعمیر کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو بھارت کی جانب سے ہر نوعیت کی جار حیت کا سامنا رہا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان کے پانیوں پر لاتعداد بھارتی منصوبوں کے حوالے سے کئی مرتبہ جنونیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ گویا کہ پاکستان بھارت میں خون بہا رہا ہے اور بھارت پاکستان کا پانی روک رہا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بھارت نہتے کشمیریوں کا خون بھی بہا رہا ہے اور پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ بھی کررہا ہے اور پاکستان کا پانی روکنے کا بندوبست بھی کر رہا ہے۔
عالمی بینک جو پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء سے سندھ طاس معاہدہ میں ثالث ہے، پر بھارت کی جانب سے اس قدر دباؤ ہے کہ وہ بھارت کا نقطۂ نظر ماننے کو تیار ہے جبکہ پاکستان کی شکایات نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند دب رہی ہے۔ اس میں کافی حد تک قصور پاکستان کی گزشتہ حکومتوں اور ان کی اس ضمن میں کمزور پالیسی کا بھی رہا ہے جو کہ نہ بروقت اعتراض کرتی رہی ہیں نہ ہی عالمی بینک کے سامنے اپنا مقدمہ مدلّل انداز سے پیش کرتی رہی ہیں اور نہ ہی عالمی اداروں کے روبر سماعت سے قبل پاکستانی حکام کوئی تیاری کرکے جاتے ہیں۔ پاکستان بھارت کے مقابل بگلیہار ڈیم کا تنازعہ عالمی عدالت میں لے گیا لیکن بُری طرح شکست کھائی کیونکہ اس کے حکام نہ اپنے اعتراضات منطقی انداز میں پیش کرسکے نہ ہی اپنی قوم اور اپنے اتحادی دوست ممالک کو باور کروا سکے کہ پاکستان کو خشک سالیوں کی طرف دھکیلنے کا کیسا گھناؤنا منصوبہ عمل پذیر ہو رہا ہے۔ اپنی آبی جار حیت کا شکنجہ پاکستان کے گرد تنگ کرتے ہوئے بھارت نے کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں پر تندہی سے کام کیا تاکہ پاکستان کے حصے کے پانی کو روک کر بھارت پاکستان میں خشک سالی پیدا کردے۔ پاکستان نے ان منصوبوں پر اعتراض کیا تو بھارت کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ بھارت ویسے بھی خوش ہے کہ اس کا ایک وار تو کارگر ثابت ہورہا ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا کہ بھارت چونکہ پاکستان کے اعتراضات سننے کو بھی تیار نہیں لہٰذا بطور ثالث عالمی بینک کو اپنا منصفانہ کردار نبھانا پڑے گا۔ 5 جنوری 2017ء کو پاکستان کی درخواست پر جب عالمی بینک کا نمائندہ نئی دہلی پہنچا تو بھارت نے اسے دوٹوک جواب دے دیا کہ عالمی بینک کو کشن گنگا اور رٹلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق پاکستان کے ساتھ تنازعہ حل کرنے کی خاطر جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے اعتراضات ٹیکنیکل نوعیت کے ہیں جو باہمی مشاورت یا غیرجانبدار ٹیکنیکل ماہرین کے ذریعے حل ہوجائیں گے۔ ورلڈ بینک کے کمیشن نے منصوبوں کے ڈیزائن سے متعلق یا پاکستان کے اعتراضات پر کوئی خاطرخواہ گفتگو تک نہ کی۔ پاکستان کو جب ورلڈ بینک کے مایوس کن رویے کا سامنا کرنا پڑا جوکہ خود بھارتی اور امریکی دباؤ کی وجہ سے تھا تو بجائے اس کے کہ گزشتہ حکومت اس پر دنیا کو یہ ظلم باور کروانے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرتی بلکہ الٹا وقت ’’گزارو پالیسی‘‘ کے مطابق امریکا کو ہی ثالثی کے لئے درخواست کردی گئی جبکہ دوسری طرف دیامیر بھاشا آبی بند تعمیر کرنے کے منصوبے کی غرض سے عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمینٹ بینک سے قرضے کے لئے رجوع کیا گیا تو بھارت اور امر یکی دباؤ کے تحت دونوں نے پاکستان کی درخواست کو مسترد کردیا۔ گزشتہ ادوار میں پاکستان کے پانیوں پر آبی جارحیت کے حوالے سے امریکا اور بھارت کا یہ گھناؤنا کردار پاک چین دوستی اور پاکستان کے چین سے اقتصادی تعلقات کے حوالے سے حسد و عناد کی وجہ سے ہے۔
یہ چین کی بڑائی ہے اور پاکستان کے ساتھ خلوص اور بھائی چارے کا اظہار ہے کہ اس نے پاکستان کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں نہ صرف مدد فراہم کی ہے بلکہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت کے علاوہ پن بجلی کی پیداوار اور انڈس بیسن میں ممکنہ سرمایہ کاری کرکے پاکستان کی پانی کی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔ چینی ماہرین انڈس بیسن کے مختلف اطراف کا دورہ کرنے کے علاوہ واپڈا کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ واپڈا کے 2025ء ویژن کا بھی مطالعہ کریں گے، اس کے بعد وہ اپنی حکومت کو جامع رپورٹ اور منصوبہ پیش کریں گے کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے اور پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں کیسے اضافہ کریں گے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ چین اور پاکستان دونوں اس پر رضامند ہیں کہ پاکستان کی آبی سلامتی کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے کا جز بنایا جائے، اس کے علاوہ موجودہ حکومت اگر چین کو پاک بھارت آبی تنازعات میں ثالثی کی پیشکش کرے تو پاکستان بھارت پر دباؤ ڈال سکتا ہے، پاکستان کے پانیوں سے چھیڑ چھاڑ کا جواب چین بھارت کے پانیوں یعنی برہم پترا دریا کے پانی کو بند کرکے اور سیلابی صورتِ حال پیدا کرکے دے چکا ہے۔ پاک چین تعلقات پاک بھارت پانی تنازعات کا پُرامن حل نکالنے میں کلیدی عنصر ہوسکتے ہیں۔

مطلقہ خبریں