Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی صدر مواخذہ کی زو پر

نصرت مرزا

دُنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا ملک امریکا اب مشکلات کا شکار ہونے جارہا ہے، وہ ایک کھلے ذہن کے ملک سے بند ذہن کی سفید فام ریاست بننے کے مراحل طے کرتا ہوا نظر آرہا ہے، ایک افریقی ملک کا کالا شخص بارک حسین اوباما جب صدر بنا تو امریکا کی 20 سفید فام ریاستوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی اور اسی وقت اُن کے دانشوروں نے سوچا کہ کیوں نہ امریکا کو سفید فام ملک بنا ڈالا جائے، اپنے کھلے دامن کو سکیڑ لیا جائے اور کسی سفید فام کو حکومت میں لا کر غیرملکی آبادی کو بڑھنے سے روکا جائے، دُنیا بھر کے اذہان کو اپنے ملک میں لا کر امریکا کے لئے خدمت لینے کی بجائے جو کچھ حاصل کرلیا ہے اُسی کو بنیاد بنا کر سفید ملک کی حیثیت سے دُنیا کے افق پر نمودار ہو، جس کا خواب اُن کے بڑوں نے 1666ء میں دیکھا تھا۔ چنانچہ وہ ایک غیرمعمولی طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو اقتدار میں لے آئے، جس نے آتے ہی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ روکنے کی مشین لگا دی۔ اس نے اپنے اندر دیکھنے کے رحجان کو فروغ دیا، اپنے ملک میں سفید فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو محسوس کیا تاکہ ایشیا، یورپ اور افریقہ سے ماہرین، سائنسدان اور دانشور کی آمد کو روکا جاسکے، اس نے یورپ، چین اور روس کے خلاف تجارتی جنگ شروع کری، ہر ملک کو دھمکیاں دینا اپنا معمول بنا لیا، یورپ سے بھی بے رخی کے سلسلے کا آغاز کردیا، اس نے ایران کو ہدف بنا لیا اور ترکی پر سخت پابندیاں عائد کردیں اور پاکستان پرپابندیاں لگانے کی تیاریاں ہیں۔ امریکی صدر نے خلیج سے اپنے جہازوں کی واپسی شروع کردی ہے، خلیج میں اُس کے 30 کے قریب جنگی جہاز اب گھٹا کر کوئی 12 جہاز رہنے دیئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اخراجات کم کررہے ہیں یا پھر وہ اپنی اس پالیسی پر عمل کرنے کی تیاری کررہے ہیں کہ وہ اچانک سرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنا کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اُس سرجیکل اسٹرائیک کی اپنے میڈیا تک کو خبر نہیں دے گا، جب تک کوئی طے شدہ مشن مکمل نہ ہوجائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں کارروائی کی تو اپنی فوج یا جہاز نہیں بھیجیں گے بلکہ خصوصی مشن کے ذریعے اپنے پروگرام کو مکمل کریں گے۔ یہ پالیسی ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی اور اپنے فوجیوں کو دنیا بھر میں تعیناتی اور گھر سے دور رہنے کے عمل کو روکنے کے علاوہ معاشی خرابی سے بچنے کی وجہ سے بتائی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا سے برسرپیکار ہیں اور اس میڈیا سے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا میں حکومت تبدیل کرسکتا ہے یا کسی صدر کو گرا سکتا ہے مگر وہ مسلسل میڈیا سے حالتِ جنگ میں ہے۔ایک سابق نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے کہ امریکا کا میڈیا آزاد ہے جس کسی نے بھی امریکا کی طے شدہ پالیسی سے انحراف کیا وہ یا تو لاپتہ ہوگیا یا کسی انجانے مقدمے میں پھنس گیا، ہمارے پاکستانی اخبار کے ایک صحافی کے ساتھ بھی امریکا نے یہی سلوک کیا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ پینٹاگون سے بھی اچھے تعلقات برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں، اگرچہ ہم نے ایک کالم میں اِس بات کی اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے وزراء میں سے کم از کم چھ کا تعلق مسلح افواج سے ہے، جن کی تعداد اب گھٹ کر چار رہ گئی ہے۔ اسی طرح وہ عدلیہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، وہ اخلاقیات سے تو ماورا ہوگئے ہیں، اُن کی زندگی میں خواتین کی بھرمار اور بے قاعدگیوں کی تعداد کافی زیادہ ہیں جس پر امریکا میں قدرے بے چینی ہے۔ انہوں نے امریکا کے قوانین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، اُن پر سب سے بڑا الزام تو صدارتی انتخابات میں روس سے مدد لینے کا ہے جس پر امریکا کے اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی مدد سے انتخابات جیتے ہیں، اُن کے اپنے ساتھیوں میں سے جس کسی نے اس کا اعتراف کیا اُس کو ڈونلڈ ٹرمپ نے نکال دیا، اس میں وزیرخارجہ تک شامل ہیں، دوسرا الزام بھی سنگین ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ٹیکس چوری، بینک فراڈ، غیرملک میں اکاؤنٹ رکھنا اور دیگر آٹھ الزام ثابت ہوگئے ہیں یہاں تک کہ ایلن ویسل برگ جو ٹرمپ تنظیم کے چیف مالی منیجر تھے وہ سلطانی گواہ بن گئے اور انہوں نے گواہی دی کہ امریکی صدر کے حکم پر جن عورتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا الزام لگایا تھا، اُن کی زبان بندی کے لئے ایک خاتون ڈینیلین گوٹ کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر اور دوسری خاتون میکڈو کورل کو ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالرز دیئے گئے جو پال مینا فورٹ جو ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن مہم کے سربراہ تھے کہ حکم پر دیئے گئے اور پال مینا فورٹ نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے یہ رقم ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر دلوائی، پال پر 18 الزامات لگائے گئے مگر آٹھ تسلیم کر لئے گئے اور دس کو ایک جج نے نہیں مانا تو مسترد کردیئے گئے، الزامات ذکر کئے جا چکے ہیں جو الیکشن کے قوانین کے خلاف ورزی کے جرم کے زمرے میں آئے ہیں، اُن کے ایک وکیل مائیکل کوہن نے اعترافِ جرم بھی کرلیا۔ اِس قسم کے الزامات پہلے بھی لوگوں پر لگ چکے ہیں، اُن میں ایک تو صدارتی امیدوار جان ایڈورڈ تھے مگر وہ اس لئے بچ گئے کہ انہوں نے سیاست سے یہ کہکر کنارہ کشی کرلی کہ اُن کی بیوی کو کینسر ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ صدر نکسن کے دور کے نائب صدر اسپرو اگنیور کو ٹیکس چوری اور رشوت لینے پر نکال دیا گیا تھا۔ نکسن کو پارٹی کو شرم اور حیا یا اخلاقی وجوہات پر اُن کی پارٹی نے نکالا۔ مگر اب ٹرمپ کی پارٹی میں نہ تو کوئی پارٹی ہے اور نہ وہ اُن میں اخلاقیات کا کوئی عنصر باقی بچا ہے، اس لئے پارٹی میں سے آواز نہیں اٹھ رہی ہے، جو کوئی اٹھاتا ہے صدر ٹرمپ اُس کو دبا دیتے ہیں، اُن کی بیوی نے آواز اٹھائی تو اُن کو دھمکا دیا کہ اُن کو ملک سے نکال دیا جائے گا اور اُن کی امریکی شہریت ختم کردی جائے گی، تاہم بالآخر اُن کو اپنے انجام کو پہنچنا ہے اُن کے پاس دو آپشنز ہیں یا تو وہ پلی بارگین کرکے سیاست کو خیرباد کہہ دیں یا پھر پانچ سال کی سزا کاٹیں، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار اس پر واضح ہے، اس انجام کی طرف نہ بڑھتے اگر وہ الیکشن میں نہ آتے، وہ ٹیکس چوری کرتے رہتے۔ امریکی دانشور کا خیال ہے کہ اُن کی مثال کولمبیا کے پاپلو اسکوبار کی طرح ہے جو ڈرگ بیچتے تھے مگر وہ ایک عہدہ کے لئے کھڑے ہوگئے تو اُن کی قانون شکنی سامنے آئی، یہ بھی بچ جاتے اگر سیاست میں نہ آتے، اُن کو دوطرفہ الزامات کا سامنا ہے ایک تو قانون شکنی دوسری امریکا دشمنی کا، جو بالآخر رنگ لائے گی، روس سے تعلقات کے سلسلے میں کافی شواہد اکھٹے ہوئے ہیں کہ ایک ٹرمپ کمپنی نے اپنے پاس 26 روسی ملازم رکھے ہوئے تھے اور تین روسی کمپنیوں سے کاروبار کررہے تھے، اس طرح امریکی صدر کافی مشکل میں تو ہیں مگر دو سوالوں نے الجھا رکھا ہے کہ آخرکار امریکی انتظامیہ نے ٹرمپ کو کیوں جیتنے دیا اور کیوں اُس کے خلاف کارروائی کرنے میں دیر لگا رہے ہیں اور کیوں ری پبلکن خاموش بیٹھے ہیں کہ کیا وہ اخلاقیات سے بالکل عاری ہوچکے ہیں اور کیا اُن کی پارٹی ٹرمپ کے مکمل شکنجے میں آگئی ہے؟۔

مطلقہ خبریں