نصرت مرزا
پاکستان تیل سعودی عرب، ایران اور دیگر ممالک سے برآمد کرتا ہے جس سے کئی بلین ڈالرز کا زرمبادلہ صرف ہوتا ہے، خوشی کی بات ہے کہ یہ خوش آئند خبر سننے کو ملی ہے کہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں پاکستانی سرزمین سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر مگر پاکستان کی سمندری حدود میں ایک بڑی مقدار میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں، جس کا اندازہ کویت کے تیل کے ذخائر کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تیل سمندر کے اندر موجود ہے۔ واضح رہے کہ کویت کے دنیا کے کل ذخائر کے 8 فیصد ہیں، یہ بات کوئی افسانہ نہیں یا نہ ہی یہ امکانات کی بات ہے بلکہ یہ یقینی اور حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ذخیرہ دریافت کیا جا چکا ہے اور جس پر امریکی تیل کمپنی ایکسن نے اٹلی کی کمپنی ای این آئی سے مل کر دریافت کیا ہے تاہم یہ تیل سمندر کے 5 ہزار میٹر کی گہرائی میں واقع ہے جس کو نکالنا انتہائی مہارت کا کام ہے، یہ مہارت امریکی، اطالوی اور دیگر دو کمپنیوں کے ساتھ مل کر پوری کرسکتے ہیں، اس خوش کن خبر کی اطلاع پاکستان کے عبوری وزیرخارجہ حسین عبداللہ ہارون نے دی اور اس کی تصدیق کی کہ ایکسن کمپنی نے پیشگی پاکستانی حکومت کو ادا کردی ہے، اس کے ساتھ وہ بن قاسم کی بندرگاہ پر پہلے مرحلے میں ایک جیٹی اور دوسرے مرحلے میں ایک اور جیٹی کے طلبگار ہیں جو اُن کو دیدی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان کھنچاؤ ہے یہ کام کیسے آگے بڑے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تجارت ہے اور اس طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اگر امریکہ اپنے کاؤبوائے ازم سے باہر نکل گیا۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ امریکی و اطالوی کمپنی سے اس تیل کو سمندر کے اندر سے ہی جہازوں کے ذریعے اپنے ملک روانہ کردیں، اس کے سلسلے میں تیل اور گیس کی پاکستانی کمپنی او جی ڈی سی اس کی نگرانی کرے گی، دوسرے پاک بحریہ نے بحر عرب اور خلیج فارس میں آزادانہ گشت شروع کردیا ہے، پہلے وہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر یہ کام کرتی تھی مگر بحریہ کی صلاحیت کافی بڑھ گئی ہے اور وہ اس میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مقام شکر ہے کہ جب عربوں کے تیل کے ذخائر گھٹ رہے ہیں تو پاکستان میں تیل کے ذخائر دریافت ہورہے ہیں اور تیل کی ضرورت میں خودکفیل ہونے جانے رہے ہیں، اگرچہ کہا جاسکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است مگر قوموں کی زندگیوں میں امکانات اور خطرات گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں، پاکستان تیل کو ایران و افغانستان کے قریب صحراؤں میں تلاش کرتا رہا، وہاں یقیناً ہوں گے مگر تاحل اُن کا سراغ نہیں ملا، جب سوویت یونین ٹوٹنے لگا تو سوویت یونین پاکستان سے علیحدہ معاہدہ کرنا چاہتا تھا کہ اگر پاکستان روس سے خفیہ طور پر دوستی کرلے تو وہ قدرتی وسائل کا پتہ اپنے سیارچوں کی مدد سے بتا سکتا ہے اور نکال کر بھی دے سکتا ہے، اس طرح پاکستان اور روس اٹوٹ رشتوں میں جڑ جاتے مگر اس خیال کو کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا اور روس کی پیشکش کو شک و شبہ کی بنیاد پر ٹھکرا دیا۔ حکومت کے اداروں میں یہ خیال تھا کہ روس کسی ملک میں آجاتا ہے تو جاتا نہیں، دوسرے پاکستان کو روس کی نیت پر شبہ تھا کہ وہ اس طرح گرم پانی تک رسائی چاہتا ہے اور تیسرے پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو گہری دوستی ہے اُس میں دراڑ ڈالنا چاہتا ہے، ممکن ہے کہ وقت کے لحاظ سے یہ بات درست ہو مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ زرین موقع تھا اور راستہ بہت کٹھن تھا، تاہم اس کے باوجود امریکہ ہمیں افغانستان کی تباہی میں تنہا چھوڑ کر چلتا بنا، ملک کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کی، ضیاء الحق کی پُراسرار موت میں امریکہ کی طرف شک اب بھی جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو کہ پاکستان امریکہ سے ٹکراؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ پاکستان اسی دورانیہ میں ایٹمی طاقت بنا تھا اور ایٹمی طاقت کے لوازمات کی ہمیں سخت ضرورت تھی، جیسے ہمارے پاس ایٹم بم کو ہدف پر داغنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی، جو بعد میں حاصل ہوگئی، اسی طرح یہ خطرہ تھا کہ امریکہ سے زیادہ دور ہوئے تو امریکہ ہم پر سخت قدغن لگا دے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ 9/11 کے بعد پاکستان اور امریکہ پھر جڑ گئے اور 2005ء میں امریکہ نے ہم سے دوری اختیار کی اور 2008ء میں اس نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کرلیا اور اس کے بعد پاکستان نے امریکہ سے الگ اپنی دنیا بنانے پر کام شروع کیا۔ 2010ء میں ہم اس پر تیار ہوئے اور 2011ء میں امریکہ نے ہمیں سزا کا مرحلہ شروع کیا، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ پر حملہ، بہرحال وقت نے ثابت کیا کہ ہم نے امریکہ کے بغیر اپنی دنیا بنائی ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری اس کی روشن مثال ہے۔ روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات اب زیادہ سلیقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ایسے میں اگر ایکسن کمپنی تیل نکالنے کا کام شروع کررہی ہے تو امریکہ کے کچھ مفادات پاکستان سے جڑ جائیں گے، اگر ہم اپنی سمندری حدود میں تیل کی حفاظت کرسکے اور کسی ریکوڈک جیسی الجھن میں نہ پڑے۔ کیونکہ ریکوڈک میں کہا جاتا ہے کہ 1400 بلین ڈالرز کا سونا ہے تو 80 یا 90 بلین کا قرض کیا معنی رکھتا ہے، اس میں سے اگر آدھے بھی ملے تو 700 بلین ڈالرز ہوں گے اور اخراجات وغیرہ نکال کر بھی 600 بلین نیٹ کا فائدہ پاکستان کو ملے گا۔ اس طرح سے تیل کی پاکستان کو سخت ضرورت ہے، ہم اب اپنی توانائی کی ضرورت پر تقریباً 2022ء تک قابو پالیں گے، ایٹمی ذرائع سے ہمیں 2500 میگاواٹ بجلی بن جائے گی، اگر ہ م اپنی پی آئی ڈی سی (ی آئی ڈی سی) کے ادارہ کو فعال بنا لیں، پلاننگ کمیشن کو مضبوط کرلیں اور کرپشن کو روک لیں تو سارے ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ کرپشن کے اس دور کا خاتمہ بہت مشکل ہے اس لئے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور گھروں کو بھرا اور پاکستان کو کھوکھلا کیا گیا تاکہ بعد میں دشمن اپنے عزائم پورے کرے مگر پاکستانی قوم میں جو قوت مزاحمت ہے اور جو حب الوطنی کا جذبہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے وہ اُن کے راستے میں حائل ہوگیا ہے، اس لئے انشاء اللہ 2022ء تک پاکستان لوڈشیڈنگ پر قابو پا لے گا اور توانائی کے اور ذرائع جیسے بھاشا مہمند جیسے ہائیڈرل ڈیم بنائے گا جو پاکستان کی 2022ء کی بعد توانائی کی بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے میں کام آئے گا۔ اس وقت تک یا اس سے پہلے یا بعد میں ہمیں سمندر سے تیل دستیاب ہوجانے کے قومی امکان ہیں، اس طرح پاکستان نہ صرف اپنی تیل و گیس کی ضرورت پوری کی صلاحیت حاصل کرلے گا بلکہ وہ اُسے برآمد بھی کرسکے گا۔ یوں پاکستان ایک شاندار مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔