Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تبدیلی آگئی

نصرت مرزا

اقتدار بڑا بے رحم کھیل ہے، اس میں کسی رشتے ناطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا جو کوئی اس آرے کے نیچے آجاتا ہے کٹ جاتا ہے، مٹ جاتا ہے، مر جاتا ہے۔ تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں، اقتدار کا کھیل مسلسل چلتا رہتا ہے، حتمی فیصلہ طاقتور و سیاسی ہنرمند کے حق میں جاتا ہے، میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اُگے جس کی گواہی جنرل ضیاء الحق کے دور کے وزیر تجارت زاہد سرفراز نے دی کہ اُن کو ایک دفعہ پنجاب کے جنرل نے ناشتہ پر بلایا اور اُن کو ناشتہ میں انار کا جوس پینے پر اصرار کیا کہ وہ بہت لحن دار تھا، پہلے تو انہوں نے منع کیا مزید اصرار پر راضی ہوگئے تو انہوں نے ایک لڑکا جو اُن کے سرکاری گھر کے لان میں جنرل صاحب کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کو آواز دی کہ نواز، زاہد سرفراز صاحب کے لئے انار کا جوس لاؤ، وہ لڑکا بعد کے میاں محمد نواز شریف بنے اور فوج کے جرنیلوں کے کندھوں پر چڑھتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے پھر دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ، مگر پھر جنرل ضیاء الحق کے بعد اپنے ہی محسنوں سے لڑے کوئی ایک نہیں بچا۔ ایک کا میں نے ایک محفل میں نام نہیں لیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے بھول گئے سب سے پہلے تو وہ مجھ سے لڑے۔ میں نے اپنی پہلی کتاب ’’سیاستدانوں اور جرنیلوں میں اقتدار کی کشمکش‘‘ جو 1990ء میں شائع ہوئی میں لکھا کہ سیاستدان اس وقت تک مکمل اقتدار حاصل نہیں کرسکتے جب تک وہ اخلاقی اور عوامی طاقت کے مرکب کے ساتھ منتخب ہوں اور پھر اُن میں سے خاکی و سفید بیورو کریسی پر سواری کرنے کا فن آتا ہو، کیونکہ بیوروکریسی اصیل میں گھوڑے کی مانند ہوتی ہے جیسے ہی سوار اس پر بیٹھتا ہے اُس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اُس کی ٹانگوں میں کتنی طاقت ہے، کمزور ہوا تو اٹھا کر پھینک دیتی ہے اور مضبوط ہوا تو کمزوری کا وقت تلاش کرتی ہے اور جب پاؤں کمزور پڑے تو الٹے منہ گرا دیتی ہے۔ سیاستدان یا حکمران جو لکھنے پڑھنے میں کمزور ہوتا ہے اور اقتدار کے بعد لوگوں سے ملنے جلنے میں بخیل ہوجاتا ہے تو اس کے پاس نئے خیالات اور حکمرانی کے تنگ اور پُرخطر راستے سے گزرنا مشکل ہوتا ہے، اسی لئے ارسطو نے کہا ہے کہ جس حکمران کے پیچھے کوئی فلسفی نہ ہو اس حکمران کے دن گن لینے چاہئے، یہاں فلسفی وسیع معنوں میں آتا ہے کہ ایسا صاحبِ فہم و فکر جو عوام کی نبض سے واقف ہو اور عالمی پیچیدگیوں کو سمجھ کر اس کا حل نکال سکتا ہو۔ اب فلسفی کی جگہ تھینک ٹینکس نے لے لی ہے اور جو ملک اب تک دُنیا پر حکمرانی یا اپنی بالادستی قائم کیا ہوا تھا اُس ملک میں دانشوروں کی ایک سو ادارے ہیں جو ہر وقت دُنیا کے ہر خطے کے معاملات پر تحقیق جاری رکھتے ہیں، وہ اخلاقیات اور انسانیت سے ماورا فیصلے کرتے ہیں، سوائے اس کے کہ امریکہ کی بالادستی برقرار رہے، چاہے اُن کے دیئے ہوئے حل سے ہزاروں اور لاکھوں افراد کا خون ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو، امریکہ کے اس بے رحم کھیل کی وجہ سے انسانیت سخت تکلیف میں مبتلا ہے اس لئے اللہ نے امریکہ کو اپنے ملک کے اندر دیکھنے کو مجبور کردیا ہے تاہم وہ ایران و ترکی و پاکستان کے پیچھے پڑ گیا ہے، کیونکہ ایران نے روس کے ساتھ مل کر امریکہ کا یینون پلان یا کرنل پیٹر راف منصوبہ یا جوبائیڈن منصوبہ فیل کردیا۔ امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار داعش کو شام میں بلا کی شکست ہوئی ہے اس لئے اب وہ ایران کے خلاف ایک ایکشن پلان تیار کررہا ہے، ترکی پر بندش لگا دی ہے، پاکستان اس کی زد میں جلد ہی آجائے گا، ایسے وقت میں پاکستان میں تبدیلی آئی ہے جب پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی صورت میں جو تبدیلی آئی ہے وہ کیا اِن چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے گی، کراچی میں تو یہ دیکھنے میں آیا کہ لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کے ہاتھوں سے اقتدار نکل کر اپر مڈل کلاس کے اکڑی ہوئی گردن کے ہاتھ میں آگیا ہے، جس کا اظہار کئی واقعات سے ہوگیا ہے، ایک تو ایک مغلوب الغضب برطانوی شہری اور سندھ اسمبلی کے ایم پی اے نے ایک غریب شخص پر اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اُس کے خلاف نہ ایف آئی آر کٹی اور نہ ہی اُس کے خلاف کوئی ادارہ حرکت میں آیا، دوسرے ایک اور ایم پی اے نے ایک شو روم کے مالک کو مارا پیٹا، اگر یہ انداز رہے تو کراچی کی ایک پارٹی کا نام بدل کر پی ٹی آئی ہوگیا ہے، ان دونوں کا اتحاد بھی ہوگیا ہے، خدا خیر کرے، کراچی کے لوگوں کے ساتھ کیا کیا حالات گزرنے والے ہیں، یہ اچھی تبدیلی تو نہیں۔ اگر اس میں کوئی شخص کوئی اصول رکھتا ہے تو وہ فردوس نقوی ہے مگر اس سے ایم کیو ایم ناراض ہے، پھر ہم نے دیکھا کہ نامزد گورنر صاحب پروٹوکول کے بغیر مگر پروٹوکول کے خواہاں 14 اگست 2018ء کو قائداعظم کے مزار جا پہنچے کہ پروٹوکول بغیر گورنری کے مل جائے، تبدیلی صرف میاں محمد نواز شریف کی حد تک آئی ہے جو پانامہ لیکس کے چکر میں پھنس گئے اور پھر کئی اور لیکس کے مسائل سے دوچار ہوئے، شنید ہے جب ایک سابق آرمی چیف نے کسی وزیر سے کہا کہ اُن کو کوئی صاحبہ اچھے نام سے نہیں یاد کرتی تو اُس کو میاں صاحب نے اپنی فتح سے تعبیر کیا۔ مبارکباد اور زندہ باد کے نعروں سے ہال گونج اٹھا، بھلا کہاں طیب اردگان اور کہاں میاں صاحب۔ بہرحال پاکستان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، کئی چیلنجز بہت خطرناک ہیں 12 بلین ڈالرز کی فوری ضرورت ہے جس میں سے 6 بلین ڈالرز کا انتظام ہوگیا ہے اور قطر نے ترکی کو 15 بلین ڈالر کی رقم دے کر ترکی کی مشکلات دور کردی ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں کون بیل آؤٹ پیکیج دے گا۔ عمران خان کی خارجی بصیرت کا بھی امتحان ہوگا، پاکستان کے عبوری وزیرخارجہ حسین عبداللہ ہارون کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف جال بن رہا ہے، آنے والے دن بہت مشکل ہوں گے، ہمارا خیال ہے کہ جو کھچڑی پاکستان کے خلاف عالمی طاقتیں پکا رہی ہیں وہ 2019ء کی شروعات یا 2018ء کے آخر تک پک جائے گی، اس کا مقابلہ کرنے کی کیا تیاری ہمارے اداروں نے کی ہوئی ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یعنی ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے پی ٹی آئی کے لوگوں کا عوام سے اچھا رویہ رکھنے کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس کے علاوہ مخالفین کے دباؤ، اثرات اور تحریکوں کو ناکام بنانے کی حکمتِ عملی کو زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے، پھر غیرملکی سازشوں سے نمٹنے کے لئے اتحادیوں کی مدد درکار ہے جو پاکستان کے ہر مشکل گھڑی اور ہر مسئلے پر ساتھ دیں، عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانا، فرقہ واریت کو فروغ دینے کو پاکستانی ناکام بنا چکے ہیں، لسانیت کو بھی پاکستانیوں نے شکست دی ہے مگر یہ ایک وار کا کام نہیں ہے اُس کے لئے مسلسل مستعد رہنا ہوگا، اس کے علاوہ اچھی حکمرانی کے لئے پھل دار شجر کو جھکنے کی ضرورت ہے اور ایسے کاموں سے گریز کی ضرورت ہے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں، تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ پچھلے حکومت آپے سے باہر ہوگئی تھی اگر ابھی سے پی ٹی آئی جارحانہ انداز اختیار کرتی ہے تو تبدیلی آئی تو مگر اُسے تاحال اچھی تبدیلی نہیں کہا جاسکتا ہے۔

مطلقہ خبریں