صبا ممتاز بانو
ء2013میں شروع ہونے والے سی پیک کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے کراچی اور سندھ کی علیحدگی کی تحریکوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد ملے گی۔ گوادر سے کاشغر تک قریباً 2442 کلومیٹر طویل اس شاہراہ پر 46 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ دراصل اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل 2030ء تک متوقع ہے۔
لاہور تا کراچی موٹروے کے علاوہ ہزارہ موٹروے بھی اس کے اہداف کا حصہ ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر بھی کام جاری ہے۔ ایران اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا۔ بن قاسم بندرگاہ کی تعمیر بھی اس منصوبے کی کاوش ہے۔ علاوہ ازیں گوادر ہوائی اڈا، گوادر نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل پائپ لائن پروجیکٹ وغیرہ پر بھی کام جاری ہے۔
2009ء میں اس منصوبے پر کام کرنے کے لئے آنے والے چینیوں کی تعداد دس ہزار تھی، جو بڑھ کر 2015 میں پندرہ ہزار ہوگئی، اس میں مزید اضافہ متوقع ہے، لیکن یہ صورتِ حال اس وقت انتہائی مخدوش ہوجاتی ہے جب ہمارے چینی دوستوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، تاکہ انہیں کام کرنے سے روکا جاسکے۔ ہمیشہ وہی منصوبے کامیاب ہوتے ہیں جن کی بنیاد دوطرفہ مفادات پر رکھی جاتی ہے۔
چین کی بالادستی کا خوف کچھ اذہان پر سوار ہے۔ بحری بیڑے کا انتظار کرنے والی اور راکٹ کے حصول میں ناکام ہوجانے والی قوم کی فرسٹریشن کو بھی ہم کسی طور ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ یہاں ہمیں اس منصوبے کو ذرا ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔ یہ مشترکہ منصوبہ دونوں ممالک کی فلاح کا ضامن ہے۔ چین تو ہمارا ایسا دوست ہے کہ جس کی ہمارے ساتھ ہمیشہ بنی رہی ہے۔ بات اندر کی ہو یا باہر کی، اس نے ہر محاذ پر ڈٹ کر ہمارا ساتھ دیا۔ اس نے ہمارے دشمنوں کو بھی ہمیشہ واشگاف پیغام بھیجا کہ وہ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہے۔
چین کی دوسرے ممالک تک رسائی میں پاکستان کی مدد اسے تجارتی دنیا میں اور بھی آگے لاسکتی ہے، کیونکہ بنیادی طور پر یہ معاشیات کو استحکام بخشنے والا منصوبہ ہے۔ ہمارے میڈیا کو فعال اور مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اس منصوبے کی شفافیت کو عوام کے سامنے لانا ہوگا۔
اس سلسلے میں حال ہی میں اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں سی پی این ای اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پی ایف سی کے اشتراک سے ایک سیمینار کا انعقاد ہوا، جس میں اس پروجیکٹ کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دْور کرنے کی کوشش کی گئی۔ بتایا گیا کہ یہ کرپشن سے پاک منصوبہ ہے جس کی شفافیت پوری طرح عیاں ہے۔ اسے کسی صورت متنازع نہ ہونے دیا جائے۔ اس کی تکمیل میں درپیش رکاوٹیں دراصل ہماری بدقسمتی پر مہر لگائیں گی۔ اس لئے ہمیں ناصرف خود اس کی معروضیت پر یقین ہونا چاہئے بلکہ ہر سطح پر اس عظیم اور کثیرالمقاصد منصوبے کو داد و تحسین پیش کرنا چاہئے۔
یہ منصوبہ بھارت کے لئے بھی کسی خطرے کا باعث نہیں۔ اگر وہ اس کا حصہ بنتا ہے تو ناصرف اسے بھی گوادر پورٹ کے ذریعے استفادے کا موقع ملے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ناخوشگواریت کی دھند بھی چھٹنے میں مدد ملے گی۔ اس میں شامل ہونے والے ممالک کے لئے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اس منصوبے کے چار اہم اہداف ہیں۔ انرجی پروجیکٹس، گوادر پورٹ، سڑکیں اور صنعتی زونز۔ 46 بلین ڈالر میں سے زیادہ تر رقم سرمایہ کاری کی مد میں ہے۔ جس سے پاکستان کو اس کا معاشی بجٹ زیادہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔
چینی سفیر نے ان خدشات کو پوری طرح رد کیا کہ چین پاکستان میں توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ پاکستان میں آنے والے چینی شہریوں کی کثیر تعداد کام ختم ہوجانے کے بعد یہاں رہنے کی بالکل خواہاں نہیں۔ چینی سفیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم یہاں کی معیشت کو نقصان پہنچانے نہیں بلکہ اسے استحکام کی طرف لے جانے آئے ہیں۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان درمدآت اور برآمدات میں متوازن پالیسی کے خواہاں ہیں۔
اس سیمینار میں بہت سے حقائق کو واضح کیا گیا، لیکن اب یہاں ہمارے اربابِ اقتدار کو کچھ امور کو یقینی اور قطعی خطوط پر لے کر چلنا ہوگا، جن میں ایک تو یہ کہ پاکستان کے سامنے ایسٹ انڈیا کا تجربہ ہے۔ چینی عوام کو ان کے پروجیکٹ مکمل کر لینے کے بعد اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ انہیں اپنی بستیاں آباد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں تاریخ کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ چینی سفیر کی طرح برطانوی باشندوں کا بھی یہی دعویٰ تھا کہ وہ صرف تجارت کے لئے آئے ہیں۔ چین برطانیہ سے بھی زیادہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمسائے کا قبضہ کرلینا بہت آسان ہوتا ہے۔ وہ چھت پھلانگ کر بھی آسکتا ہے۔ چین پاکستان کا دوست ہے، لیکن کوئی بھی دوست ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری نہیں کرتا جس میں اس کا اپنا فائدہ نہ ہو۔ اس منصوبے میں چین کا بہت زیادہ فائدہ ہے۔
ہمیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں چینی اشیا کی کھپت ہے۔ جس نے پاکستانی اشیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ان چینی اشیا کی وجہ سے اپنی بہت سی گھریلو اور اسمال انڈسٹریز سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ غیرمعیاری چینی اشیا کی بہتات بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسی کسی بھی پالیسی سے اعتراز کرنا ہوگا جو ہمارے چھوٹے بڑے صنعت کاروں کو نقصان پہنچائے۔ ہماری اشیا کی مارکیٹ کو کم کرے۔ یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ ہم اپنی اشیا کو خسارے میں ڈال کر چین سے منگوائیں۔ چینی اشیا کا سستا ہونا بھی اب لوگوں میں اپنا تاثر کھوتا جارہا ہے کہ مہنگا روئے ایک بار۔ سستا روئے بار بار۔
جن لوگوں کو یہ خدشات ہیں کہ یہ منصوبہ چین کو پاکستان پر تسلط کو موقع فراہم کرے گا، پاکستان چین کی کالونی بن کر رہ جائے گا تو ان کو محب وطن کی حیثیت سے یہ سوچنے کا پورا حق ہے، لیکن ہمیں پاک چین تعلقات کی تاریخ پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی۔ چین پر الزام تراشی کے بجائے حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا، جن کے مطابق ابھی تک چین نے اپنی اشیا اور تجارتی اہداف کو ہماری منڈیوں تک پھیلانے کے علاوہ کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو ہمارے اذہان کو چین کی طرف سے مشکوک کردے۔ چین امن پسند ملک ہے۔ چینی باشندوں کی شریف النفسی پر بھی کوئی شک نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے اس منصوبے کو بدگمانی کی نذر کردیں۔ ہمارے عوام بے روزگاری سے مجبور ہو کر خودکشیاں کررہے ہیں۔ چین کے نہیں۔ ہمارے ہاں انفرااسٹرکچر بھی بدحالی کا شکار ہے جبکہ چین دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ چین کا مضبوط کندھا ہمیں ان مسائل سے نجات دلاسکتا اور خوشحال قوم بنا سکتا ہے۔