Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک کا مستقبل

ڈاکٹر رشید احمد خاں

پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ تین برسوں سے تجارتی اور اقتصادی راہداری کے جس منصوبے یعنی ’’سی پیک‘‘ پر عمل ہورہا ہے اس کے بارے میں خدشات کا سلسلہ شروع سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر خدشات بے بنیاد، افواہوں پر مبنی اور ان لوگوں کے اپنے ذہنوں کی اختراع ثابت ہوئے جو پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعاون کے رشتوں کو مزید مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے یہ افواہیں اور من گھڑت کہانیاں جلد دم توڑ گئیں اور سابق حکومت کے آخری دو ڈھائی برسوں میں مشکلات کے باوجود اس کے تحت متعدد منصوبوں کو مکمل کیا گیا، کئی منصوبوں پر کام جاری ہے تاہم چند خدشات ایسے ہیں جو حقیقی ہیں اور ان کی شروع سے ہی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ان میں سرفہرست پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، لاء اینڈ آرڈر، سیکورٹی کا مسئلہ اور پالیسیوں کے تسلسل کے بارے میں بے یقینی جیسے معاملات ہیں۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت ’’سی پیک‘‘ کو ایک ایڈ پیکیج سمجھتی ہے اور ایسا سمجھنا قدرتی ہے کیونکہ پاکستانی عوام کو شروع سے ہی ایڈ پیکیجز کی عادت ڈال دی گئی تھی۔ کبھی یہ سرد جنگ میں کمیونزم کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے کے عوض ایڈ ہوتی تھی۔ کبھی افغانستان کی جنگ کی آگ میں انگلیاں جلانے کے بدلے صدر ریگن کی طرف سے ایڈ پیکیج ملا تھا اور حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں طالبان سے برسرپیکار امریکی اور نیٹو افواج کو رسد پہنچانے والے کنٹینرز کو اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دینے پر ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی شکل میں ایڈ پیکیج ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل 2015ء میں جب پاکستان اور چین کے درمیان کاشغر اور گوادر کے درمیان سڑکوں، ریلوے، آئل اور گیس پائپ لائنوں اور توانائی کے منصوبوں کے قیام کے لئے مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے تو پاکستانی عوام نے اسے بھی ایک ایڈ پیکیج سمجھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ چین کی طرف سے سی پیک پاکستان کو معاشی طور پر فائدہ پہنچانے کے لئے ایک عظیم کوشش ہے مگر یہ ایک ایڈ پیکیج نہیں ہے بلکہ ایک کاروباری معاہدہ ہے جسے کامیاب بنانے کے لئے دونوں ملکوں نے توانائی اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لئے مشترکہ سرمایہ کاری پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں چین کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد یا گرانٹ کا حصہ بہت کم ہے۔ بیشتر حصہ چین کی طرف سے قرضوں اور چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری پر مشتمل ہے۔
چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری زیادہ تر توانائی کے شعبوں میں کی جا رہی ہے اور چونکہ 57 ارب ڈالر میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے، اس لئے ’’سی پیک‘‘ کے مستقبل کا انحصار چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری پر ہے۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو پاکستان میں سیاسی غیریقینی صورتِ حال کا نہ ختم ہونے والا دور، دوسرے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستانی معیشت اور مالی حالات کو در پیش مشکلات اور تیسرے اس قسم کی اطلاعات کہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت، جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ہوگی، سی پیک کو اگر ختم نہیں تو کم از کم اس کی رفتار کم کردے گی۔ یہ خدشات اب اتنے نمایاں ہوگئے ہیں کہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو ایک بیان کے ذریعے یقین دہانی کرانا پڑی کہ ’’پاکستان سی پیک پر پہلے کی طرح کاربند رہے گا۔‘‘ حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر جاری ہونے والے اس بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان سی پیک پر مکمل اتفاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سی پیک کے منصوبوں کو انہی شرائط کے تحت طے شدہ پروگرام کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔‘‘ اس سلسلے میں اگر بعض افراد کی طرف سے غیرذمہ دارانہ بیانات سامنے آئے ہیں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ بیانات سی پیک کے بارے میں مکمل لاعلمی پر مبنی ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے جو کچھ فرمایا وہ حرف بحرف درست ہے اور پوری پاکستانی قوم اس سے متفق ہے۔ لیکن ان کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ بعض حقائق ایسے ہیں جن سے منہ نہیں موڑا جا سکتا اور ان کی روشنی میں فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے والا یہ منصوبہ متاثر نہ ہو۔ مثلاً نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں شرکاء کے نوٹس میں یہ حقیقت لائی جاسکتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے پاکستان کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اگر پاکستان کی معیشت کمزور ہوگی اور بحران کا شکار ہوگی تو اس سے سی پیک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ پچھلے دنوں بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان کے مالی بحران کی وجہ سے سی پیک منصوبے کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کو عام قسم کا نہیں بلکہ شدید مالی بحران درپیش ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جس قدر نیچے گر گئی ہے وہ اس بحران کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کا مسئلہ در پیش ہے۔ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ سی پیک کی مرہون منت ہے۔ اب اگر سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتِ حال سے سی پیک کا منصوبہ بھی متاثر ہونے لگے گا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کا کیا حال ہوگا؟ اس کا اندازہ لگاتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے میں ناکامی پر بین الاقوامی ادارے ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ نے پاکستان کے خلاف جزوی معاشی پابندیاں عائد کر کے ’’گرے لسٹ‘‘ (گرے لسٹ) میں ڈال رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت مزید دباؤ میں آ چکی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کا مینڈیٹ صرف 25 جولائی تک ہے لیکن ملک کو اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان کو حل کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی مہلک ثابت ہوسکتی ہے اور سی پیک کے سلسلے میں تو اقدامات فوری کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق دو ملکوں یعنی پاکستان اور چین کے درمیان سرکاری سطح پر تعلقات سے نہیں بلکہ چین کے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی ہے۔ دنیا کے ہر پرائیویٹ سیکٹر کی طرح چین کا پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنا سرمایہ لگانے سے پہلے سرمایہ کاری کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور اگر سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار نہ ہوا تو چین کا پرائیویٹ سیکٹر، جو اپنے ملک کے بینکوں سے بھاری شرح سود پر قرضہ جات لے کر پاکستان میں توانائی کے اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے، اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔ اس سے سی پیک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ چین کا پرائیویٹ سیکٹر ماضی میں بھی پاکستان میں سیکورٹی کی مخدوش صورتِ حال کے پیش نظر سرمایہ کاری پر تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے معاشی تعلقات کے مقابلے میں پاکستان کے چین کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعلقات زیادہ وسیع رہے ہیں۔ یہ دو سابقہ سیاسی حکومتوں یعنی پاکستان پیپلزپارٹی (2008-2013) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) (2013-2018) کی کوششوں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا نتیجہ ہے کہ چین کا پرائیویٹ سیکٹر پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہوا اور یوں سی پیک کی بنیاد رکھی گئی۔ اب اگر سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کی وجہ سے چین کا پرائیویٹ سیکٹر ایک دفعہ پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے تویہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہوگا۔ اس لئے موجودہ نگران سیٹ اپ کو ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دینی چاہئے جو سیاسی ماحول اور سیکورٹی کی صورتِ حال کو مزید خراب کردیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کی خدمت میں عرض ہے کہ مسائل بے شک معاشی نوعیت کے ہوں لیکن ان کے حل کا راستہ سیاسی فیصلوں کی روشنی میں نکالا جاتا ہے۔

مطلقہ خبریں