طارق اسماعیل ساگر
جلال آباد میں ہونے والے خودکش حملے میں 17 سکھوں کی ہلاکت اور ’’داعش‘‘ کا ذمہ داری قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’را‘‘ کی مداخلت افغانستان میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اجیت دوول نے سی آئی اے کو چکمہ دے کر عراق میں ابوبکر البغدادی سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد اس نے امریکیوں کو ان کے اور داعش کے درمیان ’’ڈیل‘‘ بتایا تھا لیکن مکار براہمن نے امریکیوں کو چکمہ دے کر آر ایس ایس کے شیطانی مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ’’داعش‘‘ سے خفیہ معاہدہ کیا اور انہیں افغانستان میں دھکیل دیا۔ مقصد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ اور مقبوضہ کشمیر میں اکثریت سنی مسلمانوں کو ’’داعش‘‘ کے ہاتھوں سزا دلانا تھا، اس طرح اجیت دوول ایک تیر سے دو شکار کرنے جا رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں وہ ’’داعش‘‘ کے نام پر خونریز اور درندگی پر مبنی دو چار وارداتیں کرا کر انہیں ’’پاکستانی جہادی‘‘ بنا کر پیش کرتا اور دوسری طرف اس نے طالبان کی صفوں میں دراڑ ڈال دی، ٹی ٹی پی سے ایک گروپ توڑ کر اسے ’’داعش‘‘ بنا دیا جس کے بعد سے افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ’’داعش‘‘ کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ قندھار میں جب امریکا نے ’’داعش‘‘ کے کیمپ پر بمباری کی تھی تو وہاں سے ’’را‘‘ کے چھ ایجنٹ گرفتار ہوئے تھے اور اس بات کے ثبوت بھی ملے تھے کہ افغانستان میں موجود ’’داعش‘‘ کو بھارتی شہر مدراس (چنائی) سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ امریکی دباؤ پر وہاں سے کچھ مسلمانوں کی گرفتاری کا ڈرامہ بھی رچایا گیا تھا۔
سکھوں پر حالیہ حملے میں ’’داعش‘‘ کا نام اس لئے استعمال ہوا کہ سکھ خصوصاً افغانی، پاکستانی، امریکن، کینڈین اور یورپی سکھ بھارتی کنٹرول سے نکل کر ’’ریفرنڈم 2020‘‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس تحریک کا مطالبہ ہے کہ 2020ء میں بھارتی پنجاب میں ریفرنڈم کے ذریعے سکھوں سے پوچھا جائے کہ وہ اپنا آزاد ملک خالصتان چاہتے ہیں یا نہیں۔ امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک میں تو بھارتی حکومت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی سوائے اس کے کہ یہاں سے بھارت آنے والے سکھ نوجوانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ بتا کر گرفتار کر لے جو وہ کر رہی ہے البتہ افغانستانی سکھوں کو جو کبھی بھارتی حکومت کے بندہ بے دام تھے اب اپنے مذہب کی طرف لوٹنے کی سزا ضرور دینا چاہتی ہے۔ رمضان المبارک میں پشاور میں سکھ رہنما چرن جیت سنگھ کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی اس کی ذمہ داری بھی ’’داعش‘‘ نے قبول کی تھی لیکن پاکستانی کاؤنٹر انٹیلی جنس نے اس بھارتی سازش کو ناکام بنا دیا اور اس دس پندرہ روز کے اندر ہی حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا۔ مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ دونوں حملہ آوروں کا تعلق گو کہ ٹی ٹی پی سے ہے لیکن انہیں ہدایات، رہنمائی، وسائل اور احکامات کابل سے ملے تھے، ان سے متعلق تفصیلات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ یہ گھناؤنا کھیل بھارتی ایجنسیوں نے پاکستانی اور افغانی سکھوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کھیلا تھا جس کا انجام رسوائی اور ناکامی کی صورت میں ملا جس کے بعد جلال آباد میں دوسری کارروائی کی گئی۔ حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ ان حقائق سے امریکی بخوبی آگاہ ہیں لیکن وہ ابھی تک خصوصاً افغانستان کے مسئلے پر بھارتی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔
امریکا نے ایک بار پھر اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ افغانستان میں 17 سال سے جاری بحران ختم کرنے کے لئے طالبان کا مذاکرات میں پیش رفت نہ کرنا قابل قبول نہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز نے اپنے دورہ کابل میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ کابل سے اسلام آباد پہنچنے پر اگلے روز انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ جس میں دوطرفہ امور اور افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایلس ویلز نے ملا فضل اللہ کے افغانستان میں امریکی ڈرون حملے کے دوران مارے جانے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں ان کا کابل کے بعد پاکستان کا دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں انہوں نے اعلیٰ سول اور ملٹری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ سیکریٹریٹ خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے خصوصی طور پر ملیں۔ امریکی سفارت خانے کے اعلان کے مطابق ایلس ویلز نے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسی اور علاقائی امن و استحکام کی کوششوں پر گفت و شنید کی۔ اس سے قبل اپنے پہلے دورے میں بھی جو مارچ کے اواخر اور اپریل کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا انہوں نے پاکستانی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر دو قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ (جو اب اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں) اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی خاص طور پر ملی تھیں۔ امریکی سفارتی اعلان کے مطابق ایلس ویلز نے اپنے گزشتہ دورے میں جنوبی ایشیا کی دفاعی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کے علاوہ پاکستان کو یاد دلایا کہ اس نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کے خاتمے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرے۔ انہوں نے پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ افغان امن عمل میں امریکا کے ساتھ مل کر موثر کردار ادا کرے۔ کراچی میں ایلس ویلز نے امریکا کی جانب سے سندھ اور کراچی میں معاشی استحکام اور دونوں ممالک کے لوگوں میں رابطے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اپنے حالیہ دورے میں بھی امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز نے کم و بیش یہی باتیں دوہرائیں۔
پاکستان کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے ٹھوس اور فیصلہ کن اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ پاکستان نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہمیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکا کی جانب سے افغان امن عمل میں پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بعد ایک ہی بات بار بار دوہرانا کہ پاکستان نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو پوری طرح تباہ نہیں کیا جس کی وجہ سے افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے انتہائی غلط اور افسوسناک ہے۔
اول تو افغانستان میں جنگ کا ذمے دار پاکستان نہیں امریکا ہے۔ اس نے اپنی تمام تر عسکری قوت اور عالمی طاقتوں کی مدد سے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ جس میں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ لیکن 17 سال میں امریکا کو وہاں ذلت و رسوائی اور بدترین شکست سے کچھ نہ ملا تو وہ اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دینا چاہتا ہے۔ یہ رویہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والے امریکا کے شایان شان ہے نہ اسے اس طرح اوچھی باتیں زیب دیتی ہیں۔ امریکا سمیت ساری عالمی برادری تسلیم کرتی ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے شمالی علاقوں میں تمام دہشت گردوں کا خاتمہ اور ان کے ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں۔ اب افغانستان میں جتنی اور جیسی بھی بدامنی ہے اس پر قابو پانا امریکا اور افغان حکومت کی ذمے داری ہے۔ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ امریکا کو افغانستان میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ الٹا یہ پْرامن ملک تباہ، برباد ہوگیا تو اسے شرافت کے ساتھ بے دخل ہو کر افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو وہ برادر پڑوسی مسلم ملک میں امن وخوشحالی کے لئے پہلے بھی اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔ افغانستان میں امن واستحکام خود پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے بھی ضروری ہے۔ لہٰذا امریکا کو اس سلسلے میں پاکستان کو ہدایات دینے یا اس پر دباؤ ڈالنے کی کوئی ضرورت ہے نہ اس کی کوئی اہمیت امریکا اپنے اہداف خود ہی حاصل کرے۔ تاہم وہ خطے سے اپنا بوریا بستر گول کر لے تو یہ 17 سال قبل والا پْرامن خطہ بن جائے۔
افغانستان کی سب سے بڑی قوت وہاں کے طالبان ہیں جو 70 فیصد ملک پر اثرورسوخ کے حامل ہیں۔ ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ امریکا اور افغان حکومت پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اب یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ کیا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ ایلس ویلز نے ایک اور بڑی عجیب اور مضحکہ خیز بات کی ہے کہ طالبان کے جو رہنما افغانستان میں موجود نہیں ہیں، مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالنے کی کوششوں میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ان رہنماؤں کو پناہ دے رکھی ہے اور اسی وجہ سے افغانستان کے اندر قیام امن میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ یہ سوچ جتنی غلط ہے اتنی ہی گھٹیا بھی ہے۔ اس نوعیت کی پالیسیاں اور بیانات امریکا کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی کریں گے، جب تک امریکی افغانستان میں ’’را‘‘ کی اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ اور ان کی طرف سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا نوٹس نہیں لیتا ممکنہ نتائج کا حصول ممکن نہیں۔