Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نواز شریف کی واپسی

 نواز شریف کی جدوجہد نہ وزارت عظمیٰ کے لئے ہے، نہ طاقت اور شان و شوکت کے لئے کیونکہ وہ کئی بار ان سے لطف اندوز ہوچکے ہیں، ان کی جدوجہد جمہوریت کے لئے ہے۔۔۔

جنرل مرزا اسلم بیگ

ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد ٹرائل کورٹ نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلہ جاری کیا ہے۔ ان کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ فیصلہ ایک ہفتہ بعد سنایا جائے تاکہ وہ خود موجود ہو کر فیصلہ سن سکیں لیکن ان کی یہ اپیل مسترد کردی گئی۔ یقیناً یہ ایک سخت فیصلہ ہے جس میں نواز شریف کو دس سال قید اور آٹھ ملین پونڈ جرمانہ کیا گیا، ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید اور دو ملین پونڈ جرمانہ اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ ایک نازک وقت میں سنایا گیا ہے جب عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند ہفتے رہ گئے ہیں اور ملک کی مجموعی صورتِ حال پہلے ہی الجھی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے انتخابی نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ آئیے ان زمینی حقائق کا جائزہ لیں جو نواز شریف کی سیاسی پوزیشن اور ان کے نعرے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو مستحکم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اقامہ اور ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق دونوں عدالتی فیصلوں میں بیان کی گئی وجوہات کمزور نظر آتی ہیں جس سے نواز شریف کے لئے پہلے اقامہ کے فیصلے کے خلاف کامیاب عوامی مظاہرے کرنے میں آسانی ہوئی ہے اور اب 13 جولائی کو جب وہ لندن سے واپس آرہے ہیں تو ایک اور عوامی مظاہرے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ اقامہ والے فیصلے پر عوامی مظاہرے کے وقت نواز شریف کی اپنی حکومت تھی اور انہیں ہر قسم کی ضروری مدد حاصل رہی اور اب 13 جولائی کے مظاہروں کے لئے بھی انہیں نگران حکومت کی جانب سے ایک حد تک غیرجانبداری کا قائدہ ہوگا اور کسی قسم کی پکڑ دھکڑ نہیں ہوگی اور نہ ہی 1999ء کی طرح مظاہروں پر کوئی پابندی ہوگی۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے تمام راہیں کھلی ہیں کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرسکیں۔
نواز شریف عدلیہ اور فوج کو للکار رہے ہیں جو ماضی میں منتخب حکومتیں گرانے کے عمل میں شریک رہے ہیں۔ اس للکار کو انہوں نے جدوجہد کا ایک مقصد بنایا ہے جو ایک غیردانشمندانہ فیصلہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مقصدیت کسی بھی تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔
بظاہر نواز شریف کی جدوجہد نہ وزارت عظمیٰ کے لئے ہے، نہ طاقت اور شان و شوکت کے لئے کیونکہ وہ کئی بار ان سے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔ ان کی جدوجہد جمہوریت کے لئے ہے، باوجود اس کے کہ ان پر سرمایے کی غیرقانونی بیرون ملک منتقلی اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ ان عدالتی فیصلوں کے باوجود ان کے ووٹروں کو ان کے مقصد کی سچائی نظر آتی ہے اور وہ ان کے شانہ بشانہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے ان کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور وہ بھی جنہوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ملک کے مجموعی 10 کروڑ 60 لاکھ ووٹروں میں سے پنجاب کا حصہ 60 فیصد ہے، اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) ان میں سے صرف 40 فیصد ووٹ حاصل کرلیتی ہے تو ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ پنجاب میں حکومت بنائے گی اور دیگر اتحادیوں سے مل کر وفاق میں بھی اپنی حکومت بنانے کے قابل ہوگی۔
پنجاب کے دیہی علاقے اس جماعت کی اہم سیاسی اساس ہیں جہاں شہباز شریف نے بہت کام کیا ہے جس سے ان کی جماعت ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرسکے گی۔ پنجاب میں گھوم پھر کر دیکھئے تو یہ حقیقت واضح نظر آئے گی۔
پاکستانی قوم کی یہ سیاسی ذہنیت رہی ہے کہ ان کے دلوں میں پسے ہوئے اور محروم طبقات کے لئے ہمدردی کا عنصر ہمیشہ موجود رہا ہے، مثلاً ماضی میں پاکستانی پیپلزپارٹی پر ظلم ڈھائے گئے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور اس جماعت کی سیاسی قیادت کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود 1988ء کے انتخابات میں عوام نے انہیں کو ووٹ دیئے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی بلاشبہ دیگر جماعتوں کی نسبت ہمدردی کے ووٹ حاصل کرے گی۔
کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود شہباز شریف اور مریم نواز کے برعکس نواز شریف ہی جماعت کے ووٹروں کی امیدوں کا مرکز رہیں گے۔ ان پر لگے الزامات اور چند اہم سیاسی شخصیات کے انحراف کے باوجود ووٹر انہی کے گرد جمع ہوں گے اور خصوصاً اس لئے بھی کہ ان کے پاس دوسرا کوئی انتخاب بھی نہیں ہے۔
اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں کو نواز شریف کی بجائے کسی اور کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ آصف علی زرداری اور عمران خان کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنا پسند کریں گے، بالخصوص عمران خان جنہوں نے اپنے گناہوں کی تلافی کے لئے پیروں کی درگاہوں پر ماتھے ٹیک دیئے ہیں اور اپنے ذاتی وقار کو نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) معتدل طبقات کی نمائندہ جماعت ہے جسے لبرل طبقات کا چیلنج درپیش ہے جبکہ دینی جماعتیں قومی سیاست کے مرکزی مقام تک رسائی کی کوشش کررہی ہیں۔ اس طرح جو صورتِ حال ابھر رہی ہے اس میں مختلف سوچ و خیال کے ووٹروں کو خاصی اہمیت حاصل ہوگی کیونکہ ان کا ووٹ جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد نئے ابھرتے ہوئے جمہوری نظام کے خدوخال واضح کرے گا جس کی پہچان مختلف نوعیت کی ہوگی۔
نواز شریف کے بقول ان کی سیاسی جدوجہد کو ’’خلائی مخلوق‘‘ سے خطرہ ہے جو 2008ء کے انتخابات کے وقت رونما ہونے والے مندرجہ ذیل واقعے میں اپنی شناخت خود بیان کرتی ہے:’’2008ء سے پہلے امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کا دورہ کیا اور جنرل پرویز مشرف کو پاکستان میں سیاسی عمل کے ذریعے جمہوری عمل بحال کرنے کے لئے زبردست اقدامات کرنے پر شاباش دی لیکن انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس نکلے جس سے پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی ساز خوفزدہ ہوگئے۔ معروف امریکی اخبار ’’واشنگٹن ٹائمز‘‘ نے اس صورتِ حال کو کم و بیش ان الفاظ میں پیش کیا: ’’واشنگٹن کے پالیسی ساز اس وقت کو یاد کر کے روئیں گے جب انہوں نے پاکستان میں جمہوری عمل کے ذریعے انتقال اقتدار کا فیصلہ کیا کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو برتری حاصل ہوگئی ہے اور نواز شریف طالبان کے قریب ہیں اور امریکا سے نفرت کرنے والوں کے دوست ہیں۔‘‘ یہی وہ کانٹا ہے جو امریکا کے دلوں میں کھٹکتا ہے اور خلائی مخلوق کی پہچان ہے۔
خلائی مخلوق کا تصور نواز شریف کے لئے حقیقت میں بدل چکا ہے لہٰذا ان کے لئے ضروری ہے کہ اصل ’’خلائی مخلوق‘‘ کو پہچانیں اور اس کی ریشہ دوانیوں کو سمجھیں جس کا مرکز ملکی سرحدوں کے باہر ہے نہ کہ اندرون ملک جہاں قومی اداروں کو ترغیب (دیکوی) کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے اور کسی پریشانی کا جواز نہیں ہے جبکہ نیب کی جانب سے بلاامتیاز احتسابی عمل میں غیرمعمولی تیزی آگئی ہے۔ کرپشن ایک متعدی بیماری ہے جو ہماری روزمرہ زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس کے خلاف کارروائی مہینوں اور سالوں تک جاری رہنی چاہئے تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے اور پاکستان کا حقیقی اور روشن چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوسکے۔

مطلقہ خبریں