جاوید ملک
مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو اس کا فرماں روا نیرو اپنے محل کی بالکونی میں کھڑا بانسری کی دھنیں بکھیر رہا تھا تاریخ میں نیرو کا کردار تاریخ کے مکروہ ترین کرداروں میں سے ایک ہے اور اسے ایک غلیظ ترین گالی اور بدترین بھبھتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیرو کی مثال ہمیشہ ایسے حکمرانوں، اداروں کے سربراہان اور اربابِ اختیار کے لئے استعمال ہوتی ہے جو اپنی ذمہ داریوں کی درست ادائیگی کے بجائے شعلوں کو نیرو کی طرح بانسری کی دھنوں سے سرد کرنے کے درپے ہو، ویسے تو تاریخ نے اتنے سارے نیرو کسی ایک وقت میں ایک ہی ملک میں کبھی اکٹھے جمع نہیں کئے ہوں گے کیونکہ شاید ہی کوئی محکمہ نیرو سے محروم ہو، وطن عزیز اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور ان کھٹن لمحات میں مختلف اداروں کے ذمہ داروں کا رویہ اور حرکتیں نیرو کو بھی شرما رہی ہیں۔
سی پیک صرف پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں اس منصوبے پر مرکوز ہیں، اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین دوستی کا لازوال رشتہ مزید مضبوطی کا پیرہن اوڑھ لے گا بلکہ پاکستان میں تعمیر و ترقی کے نئے دور اور خوشحالی کا حرف آغاز بھی اس منصوبے کو سمجھا جارہا ہے لیکن امریکہ، ہندوستان سمیت بہت سارے ایسے ممالک ہیں جنہیں سی پیک ایک نظر نہیں بھا رہا بالخصوص ہندوستان کا میڈیا ہر روز سی پیک کے حوالے سے نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتا اور درپردہ سازشوں کے ذریعے وہ اس منصوبے کے راستے میں روڑے اٹکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، یقیناً ایسی صورتِ حال میں اس منصوبے کی باگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جو دشمن کے پروپیگنڈے اور دیگر ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں مگر مقام افسوس یہ ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں تو ہر اہم پوسٹ میں ایک نیرو براجمان ہے اور آئے روز ان کے ایسے ایسے کارنامے سنائی دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور جی چاہتا کہ انسان اپنے بال نوچ لے۔
این ایچ اے میں اس وقت کم و بیش 1400 ارب روپے کے منصوبے زیرتکمیل ہیں لیکن اس ادارے نے انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی پیک کے حوالے سے رائے عامہ ہموار نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر بھی اس اہم منصوبے کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور عام آدمی اس کی افادیت سے ناآشنا ہے، سی پیک جن راستوں سے گزر رہا ہے وہاں کی مقامی آبادی کو بُری طرح نظرانداز کیا گیا ہے، متاثرین علیحدہ دہائیاں دے رہے ہیں، نیشنل ہائی وے کے اربابِ اختیار نے کبھی مناسب نہ سمجھا کہ ادارے کی پالیسی، متاثرین کے لئے جاری کردہ مراعات اور ان کے حقوق کو مشتہر کیا جائے اور عوام کو آگاہی دی جائے کہ اگر کہیں ان کے حقوق تلف ہورہے ہیں یا نادانستہ ان سے کوئی زیادتی ہورہی ہے تو اس کا مداوا کون کرے گا اور ان کی فریاد کہاں سنی جائے گی؟ ان منصوبوں کے نتیجے میں مقامی آبادی کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اور ذرائع آمدورفت میں جدت سے ترقی کی کون کون سی نئی جہتیں کھلیں گی؟ عام آدمی کو بتانے، سمجھانے اور تربیت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان بڑے منصوبوں کی آمد کے بعد تشہیر کا حجم بڑھنے کے بجائے ماضی کے مقابلے میں سکڑ گیا ہے جس سے این ایچ اے کے اربابِ اختیار کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس وقت این ایچ اے کے ممبر فنانس شعیب احمد بچت کی اس پالیسی کے خالق سمجھے جاتے ہیں، ان کی اس عقل و دانش کے درپردہ کئی کہانیاں ہیں، بعض ذرائع یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے لئے سفارشی تھے جو بوجوہ پینل پر نہ آسکی اور اب وہ اپنا رنج میڈیا بجٹ کو تڑکا لگا کر نکال رہے ہیں، یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ موصوف ہر طرح کی ادائیگیوں میں انتہائی سْستی کا رویہ اپناتے ہیں اور ٹھیکداروں کی جائز ادائیگیوں میں بھی ہرممکن تاخیر کا رستہ ڈھونڈتے ہیں اور ایسی حرکتیں اکثر ایسے افسران کرتے ہیں جو من پسند بینکوں میں اداروں کے اکاؤنٹ کھلوا کر رقوم زیادہ سے زیادہ عرصہ بینکوں کے کھاتے میں رکھتے ہیں اور بدلے میں بینک سے خفیہ مراعات اور تحائف سمیٹتے ہیں بلکہ بعض بینک مخصوص منافع بھی طے کرلیتے ہیں جو خاموشی سے مذکورہ افسران کے ذاتی کھاتوں میں بھر دیا جاتا ہے، اب این ایچ اے کے فنانس میں کیا کھیل رچایا جارہا ہے ارباب اختیار کو اس کا کھوج لگانا چاہئے کیونکہ اہم قومی منصوبوں کی تشہیر میں غفلت دو ہی صورتوں میں ہوسکتی ہے یا تو فنانس کے شعبہ میں بیٹھے لوگ کسی دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں یا وہ ذاتی مفادات کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں؟
یہ تو تھا فنانس کا معاملہ اب ایک اور نیرو کا ذکر ہوجائے سی پیک جیسے حساس منصوبے کے شروع ہونے کے بعد این ایچ اے کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے اور یقیناً اس وقت یہ ادارہ ملک کے چند بڑے اور حساس اداروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی نیندیں اس منصوبے نے حرام کردی ہیں اور اس سے بعید نہیں کہ وہ اس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کسی بھی حد تک چلا جائے جبکہ ممبر ایڈمن علی شیر محسود نے حیران کن طور پر این ایچ اے کی مرکزی بلڈنگ کہ جہاں غیرملکیوں کی آمدورفت معمول ہے کی سیکورٹی پر آفس بوائے لگا دیئے ہیں جن کے پاس اسلحہ کے نام پر ایک سیٹی ہے اور بعض سیکورٹی پر متعین اہلکار تو اس سیٹی کے بھی ناکارہ ہونے کا شکوہ کرتے سنائی دیتے ہیں، اپنی غیرمہذب حرکات سے شہرت پانے والے ممبر ایڈمن نیب زدہ بھی ہیں اور ان کے خلاف کئی انکوائریاں زیرالتوا ہیں، انہوں نے مرکزی آفس کی سیکورٹی کے لئے جو اقدامات اْٹھائے ہیں اس کے بعد اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ این ایچ اے کے زونل دفاتر کی سیکورٹی کیسی ہوگی؟ این ایچ اے ملک کے بہترین انجینئرز اور عالی دماغوں کا ادارہ ہے، سی پیک کے بعد غیرملکی فرموں کی مختلف منصوبوں میں دلچسپی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایسے میں کوتاہی، عدم دلچسپی اور غلفت کے ریکارڈ بناتے یہ نیرو نہ جانے کیا گل کھلائیں گے اور میں حیرت زدہ ہوں کہ وفاقی وزیر مواصلات ان امور پر بازپرس کیوں نہیں کر پارہے؟ این ایچ اے کے کچھ اور نیروز کے کارناموں کا ذکر آئندہ کسی کالم تک اْٹھا رکھتے ہیں اور ہاتھ باندھ کر اربابِ اختیار سے گزارش کرتے ہیں کہ برسوں بعد سی پیک کی صورت میں مصائب کے گرداب میں الجھے 21 کروڑ بے بس و بے کس عوام کو امید کی ایک کرن دکھائی دی ہے، اس کرن کو نیرو نما افسران کے سپرد کرنا اس قوم کے ارمانوں سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ خدارا کچھ کیجئے اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔