Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغانستان اور پاکستان کے درمیان نئے عہدوپیماں

ضیاالحق سرحدی

گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سمیت اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں میں باہمی تعلقات، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی روابط بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا۔ ملاقات میں افغان امن مذاکرات، افغان مہاجرین کی واپسی، ریل روڈ منصوبوں اور دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز اور ویزا پالیسی آسان بنانے پر اتفاق ہوا۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے پلان سے بھی آگاہ کیا ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں، مسئلہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے افغان صدر کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کا خیرمقدم بھی کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورے کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ دورہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے ذریعے بہت سے اقدامات کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے بھی بعض اقدامات کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے امید ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ امید کرنی چاہئے کہ پاکستان اور افغانستان ماضی کی تلخیوں کو فراموش کر کے آگے بڑھیں گے اور بار بار الزام تراشیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا، جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت بڑی وسیع ہے لیکن بہت سی اشیا یہاں سے اسمگل ہو کر افغانستان جاتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت معروف تجارتی راستوں اور بین الاقوامی طور پر مروجہ طریقوں سے ہو۔ سال ہا سال تک گندم پاکستان سے اسمگل ہو کر افغانستان جاتی رہی ہے۔ اب تو کئی سال سے پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہے لیکن جب پاکستان کو گندم باہر سے درآمد کرنا پڑتی تھی۔ اس وقت بھی افغانستان کی گندم کی ضروریات پاکستان سے ہی پوری ہوتی تھیں، اب اگر پاکستان کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں اور نئی بمپر فصل آنے کی بھی امید ہے تو افغانستان کو گندم برآمد کرنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کرنا چاہئے تاکہ افغان عوام کی غذائی ضروریات پوری ہوں اور اس تجارت کا پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے، افغان برآمدات پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کر کے بھی پاکستان نے خیرسگالی کے جذبے کا مظاہرہ کیا اور گندم کا جو عطیہ دیا اس سے بھی افغان عوام کی تالیف قلب میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
افغان حکومتوں کا یہ مسئلہ ہمیشہ سے ہے کہ وہ بھارت کے سحر سے نکل کر آزادانہ فیصلے نہیں کر پاتیں کیونکہ بھارتی رہنماؤں نے کمال مکاری سے کام لے کر افغان عوام کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کر رکھا ہے کہ پاکستان افغانستان کا دشمن ہے، وہ افغان حکومتوں کو پاکستان کے خلاف گمراہ کن تصورات میں الجھا کر اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے بھارت میں تربیت یافتہ دہشت گرد بھی افغانستان کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس لئے تعلقات کے نئے عہد کا آغاز کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ افغان حکام بھارتی جال سے نکلیں اور گمراہ ہو کر ایسے فیصلے نہ کریں جن سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن نہ ہوسکیں، بھارتی حکام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دونوں ملک آپس میں کسی نہ کسی تنازعے میں الجھے رہیں اور جب کبھی تعلقات کی بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے بھارتی حکام فوراً متحرک ہوجاتے ہیں اب تو بھارت کو امریکا کی آشیرباد بھی حاصل ہوچکی ہے اور وہ اسے ’’افغانستان میں وسیع تر کردار‘‘ بھی سونپ چکا ہے، اگر یہ بھارتی کردار خطے کے امن کے لئے سازگار ثابت ہو تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا لیکن اگر یہ مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں مزید گمبھیر بنادے تو ایسے کردار کا کیا فائدہ؟
دونوں ممالک نے ان امور پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے گریز کیا جائے گا۔ ویزہ پالیسی آسان بنائی جائے گی، دونوں ممالک سلامتی کے لئے خطرہ اور مفاہمت پر آمادہ نہ ہونے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین ملاقات میں باہمی تجارت اور علاقائی رابطے سمیت پاک افغان تعلقات پر تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ اسی طرح کاروباری لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے اور خطے میں اقتصادی حوالے سے دونوں ممالک کے سربراہوں نے ریلوے اور روڈ رستوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔ اسی طرح پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو آپس میں ملانے کے حوالے سے ریل، روڈ، گیس پائپ لائن اور توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اقتصادی معاملات کو آگے بڑھاتے ہوئے چمن، قندھار، ہرات ریلوے لائن، دوسری جانب پشاور کابل موٹروے رابطے کے منصوبوں کو آگے لے جانے پر اتفاق آنے والے وقتوں میں مزید بہتر تعلقات کی جانب گامزن ہوسکیں گے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ ریلوے لائن کوئٹہ سے افغانستان اور پھر وہاں سے سینٹرل ایشیا تک جا سکتی ہے اور اسی طرح پشاور اور کابل تک موٹر وے جیسے منصوبوں کے پایہ تکمیل ہونے سے بھی علاقائی طور پر نزدیکی مزید تیز ہوجائے گی۔ آپس میں جڑت سے فاصلے مٹیں گے اور اسی طرح دلوں کے فاصلے بھی قریب قریب ہوں گے۔ کچھ عرصہ قبل دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات میں دوری رہی اور بات چیت نہ ہونے کی بنا پر غلط فہمیوں نے جگہ لی۔ جس سے ایسی فضا قائم ہوئی جو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا باعث بنی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاک افغان تعلقات خطے کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح دونوں ممالک کے مذاکرات ازحد ضروری ہیں کہ پاک افغان بہتر تعلقات سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سے پہلے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاک افغان تعلقات کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے۔ پاکستان سے زیادہ کوئی ملک افغانستان میں امن کا خواہش مند نہیں۔ پاکستان نے پہلی بار افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانی شروع کی ہے۔ قندوز میں مدد سے پر حملے جیسے واقعات وزیراعظم نے شدت پسندی اور بنیادی پرستی کا سبب قرار دیا۔ پاکستان نے ہمیشہ انتہاپسندی کا مقابلہ کیا اور اب تک کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں قربان ہوئیں۔ ضرب عضب، ردالفساد اور دیگر آپریشن شہروں، سرحدی اور قبائلی علاقوں میں کیے گئے۔ پاکستان نے بے مثال ترقی حاصل کی ہے۔ افغانستان میں جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان مصالحت کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ جنگ افغانستان میں امن نہیں لاسکتی، پاکستان میں بدامنی کی وجہ افغانستان میں عدم استحکام ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات سے یہاں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا۔ سرحدی مینجمنٹ میں بہتری، دفاعی وسفارتی وسیاسی تعلقات کے توسط دونوں ممالک کی آپس کی دوریاں ختم ہوسکتی ہیں۔ دونوں ممالک کے آپس میں شکوک وشہبات اور الزام تراشیوں سے دْشمن قوتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں جو کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں۔ پاک افغان سربراہان کی ملاقات سے دونوں ممالک کی دوریاں ختم ہوں گی، ان ملاقاتوں کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔ خطے میں کچھ طاقتیں پاک افغان تعلقات کو بہتری کی جانب بڑھتے نہیں دیکھنا چاہتی، تاہم اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دونوں ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے اور ایک خوشحال دور کی شروعات ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کی امن وامان کی صورتِ حال اور خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر مسائل سے نمٹنا چاہئے جبکہ پاکستانی حکام نے گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی اہلکاروں کو باور کرایا ہے کہ اگر اس کی سلامتی کو لاحق خطرات کو امریکا نے اہمیت نہ دی تو امریکہ سے تعاون محدود کیا جا سکتا ہے۔

مطلقہ خبریں