Tuesday, July 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گوادر، سی پیک اور پاک نیوی 

ضمیر آفاقی

پاک بحریہ جہاں سمندری حدود کی نگہبان ہے وہیں ملک میں آنے والی قدرتی آفتوں، زلزے ہوں سیلاب یا دہشت گردی سے نقصانات اس کے چاک وچوبند جوان، میڈیکل کور اور پیرا میڈیکل سٹاف بڑی جانفشانی اور مستعدی سے انسانی خدمات میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ پاک بحریہ کے فلاحی مراکز ملک کے طول وعرض میں قائم ہیں، جہاں میڈیکل کی سہولتوں کے ساتھ دیگر غریب نادار اور محروم طبقوں کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے جس کا نظارہ ہم نے گوادر میں کیا، جہاں پاک نیوی عوام کی خدمت میں دن رات مصروف عمل ہے۔ پاکستان نیوی کی جانب سے گوادر میں قائم کئے گئے بحریہ ماڈل اسکول، اسپتال یا دیگر فلاحی ادارے، اعلیٰ کارکردگی اور بہترین میعار کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو یہاں رہنے والے غریب لوگوں کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔ پاک بحریہ کی جانب سے قائم کیے گئے اسپتالوں میں مریضوں کو تمام شعبہ جات میں ماہرانہ علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ بہترین اور معیاری لیب قائم کی گئی ہیں، جن میں چھوٹے درجے کے آپریشنز کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ یہاں لوگوں میں عام بیماریوں کی وجوہات اور ان کی روک تھام کے حوالے سے آگہی بیدار کرنا، صحت عامہ، بچوں کی صحت کی حفاظت، جسمانی صفائی اور اپنے اردگرد کے ماحول کی صفائی کے متعلق شعور بیدار کرنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ ہم نے وہاں پاک بحریہ کی انسانی خدمات کو مقامی لوگوں کو سراہتے ہوئے دیکھا ہے۔
گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع صوبہ بلوچستان کا شہر ہے، جو اپنے شاندار محل وقوع اور زیرتعمیر جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر معروف ہے۔ (نام گوادر اصل بلوچی زبان کے دو الفاظ سے بنا ہے، گوات یعنی ’’کھلی ہوا‘‘ اور در کا مطلب ’’دروازہ‘‘ ہے۔ یعنی (ہوا کا دروازہ) گواتدر سے بگڑ کر گوادر بن گیا ہے، 60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آ رہا ہے اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں ناصرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندرگاہ پر ہوگا۔ کراچی کے مغرب میں تقریباً 460 کلومیٹر (290 میل)۔ پاکستان کی سرحد کے مشرق میں ایران سے 75 کلومیٹر (47 میل) اور اور شمال مشرق میں بحیرہ عرب کے پار عمان سے 380 کلومیٹر (240 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں، جو توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں، کے قریب ترین گرم پانی کی بندرگاہ ہے۔ گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے، وہاں کا پانی گرم ہے جو دنیا کی بہت ہی کم بندرگاہوں خصوصیت ہے۔ گرم پانی والے سمندری حصے پر سارا سال تجارتی جہازوں کی آمدورفت جاری و ساری رہتی ہے، یوں تجارت اور مختلف اشیاء کی براستہ سمندر ترسیل میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس جو بندرگاہیں ٹھنڈے پانی پر واقع ہیں، ان کے ذریعے تجارت کرنا مشکل ہوتا ہے بلکہ مختلف موسموں میں تو ناممکن ہوجاتا ہے۔
پاکستان گوادر بندرگاہ کی وجہ سے خطے میں سب ممالک سے زیادہ اہم جیواسٹرٹیجک پوزیشن کا حامل ہے۔ جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں تجارتی لین دین شروع ہوجائے اور مختلف ممالک اپنی اپنی سکہ رائج الوقت (کرنسیوں) میں لین دین (تجارت) شروع کریں تو پاکستان میں ڈالر کی قیمت کافی حد تک کم ہو جائے گی اور اس کے علاوہ بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، میں بہت سارے مقامی افراد کو روزگار مل جائے گا۔ چین نے اب تک 198 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کی ہے جو گوادر بندرگاہ کو کراچی سے ملاتی ہے۔ چین کے لئے اس بندرگاہ کی زیادہ اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ تاحال موجود نہیں۔ گوادر بندرگاہ کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکا آبنائے ملاکہ کو بند بھی کردے تو پاکستان اور چین کے لئے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے لئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کرسکتا ہے۔
بلوچستان میں ایک طرف پاک بحریہ خدمات کا جال بچھا رہی ہے تو دوسری جانب معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنے کے ساتھ سیکورٹی امور پر بھی اس کی گہری نظر ہے، جس کے شاندار مظاہرے ہم نے گوادر میں بھی دیکھے کہ کس طرح نیوی کے چاک و چوبند جوان مستعد اور متحرک ہیں۔ گوادر بندرگاہ میں اضافہ و بہتری، گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جیسے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے، اس منصوبے سے ناصرف پاکستان کو دنیا بھر میں اعلیٰ مقام ملے گا بلکہ یہاں سے گزرنے والی ٹرانسپورٹ سے حاصل کردہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن پاکستان کی معیشت پر شاندار اثرات بھی ڈالے گی۔ پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ ناصرف ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان اور مختصر بنائے گی، بلکہ اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گی، جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔ سی پیک منصوبے سے تین ارب آبادی کو فائدہ ہوگا جبکہ یہ خطے کو آپس میں منسلک کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اس منصوبے سے ملک کے غیرترقی یافتہ علاقے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے جبکہ اس کے اثرات کوئٹہ سے گوادر تک کے مغربی روٹ پر نظر آنے لگے ہیں جو بڑی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ پاکستان نیوی کی کوششوں سے ناصرف یہاں پر معاشی حوالے سے بہتری آ رہی ہے بلکہ معاشرتی تبدیلی بھی واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہاں کے لوگ خواتین کو کام کاج کے لئے گھر سے نکالنے کو تیار نہیں ہوتے تھے، لیکن اب یہاں کی خواتین اسکول، اسپتال اور دستکاری سینٹروں میں ملازمتیں اور اپنی مستقبل کی نسل کے لئے ایک ایسا سماج تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہیں جو ناصرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ جس طرح پاک بحریہ ملکی سمندری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہر دم چوکس رہتی ہے اسی طرح وہ اقتصادی اور معاشی سرحدوں کی نگہبانی کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی ہے۔ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ساحلی پٹی کا حامل ملک پاکستان ایک مضبوط نیوی کے بغیر دفاعی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان نیوی ملک کے سمندری مفادات اور بحری اثاثہ جات کی حفاظت میں نہایت ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان نیوی ملکی میری ٹائم مفادات کے تحفظ اور پاک چین اقتصادی راہداری کے محور یعنی گوادر کی بندرگاہ کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار اور ثابت قدم ہے۔ سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بندرگاہوں کی حفاظت، علاقائی سمندر کی حدود میں سخت نگرانی بحری جہازوں کی حفاظت اور میری ٹائم سیکورٹی کے دیگر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان نیوی کے وسائل اور استعداد میں اضافہ کیا جائے۔

مطلقہ خبریں