میر افسر امان
پناما لیکس میں آف شور کمپنیوں میں دنیا کے کئی ملکوں کے سیاست دانوں کے نام کے ساتھ نواز شریف کی فیملی کا بھی نام تھا۔ باقی ملکوں نے اپنے اپنے قانون کے مطابق کیس نپٹا دیے۔ کسی ملک کے سیاسی لیڈر نے اپنی پارلیمنٹ میں صفائی پیش۔کسی لیڈر نے اخلاقی طور پر اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔جمہوری حکومتوں کے طریقے کے مطابق پاکستان کی اپوزیشن نے بھی اس پر اپنا حق اپوزیشن استعمال کرتے ہوئے نواز شریف سے پوچھ کچھ کی۔نواز شریف نے اس پر برملا دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا پر اپنی اور اپنے خاندان کی صفائی پیش کی۔پھر پارلیمنٹ کے اجلاس میں بتایا کہ میرے پاس ایک ایک پائی کا حساب ہے۔اس حساب کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھا اور پار لیمنٹ سے کہا کہ جناب یہ ہے میری کمائی کے ذرائع!۔اپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ سپریم کورٹ یوڈیشل کمیشن بنا کر اس کی تحقیق کرے۔سپریم کورٹ نے اس خط کے جواب میں کہا کہ پارلیمنٹ نے جو پرانا قانوں بنایا ہوا ہے اگر اس کے تحت انکوائری کی گئی تو اس میں سالوں لگ سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ قانون بنانے کامجاز اداراہ ہے، وہ نیا قانون بنائے، سپریم کورٹ کو اختیارات دے تو اس کے تحت تحقیقات کر کے حقائق پارلیمنٹ اورقوم کے سامنے پیش کر دے گی۔نو ن لیگ،پیپلز پارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، شیخ رشید کی پارٹی نے ٹی او آر بنانے کی کوشش کی مگر سب بے سود ہوا حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر ٹی او آر بنانے میں دیر کرنے کی الزام تراشی کی۔جبکہ پار لیمنٹ میں ٹوتھرڈ اکثریت رکھنے والی نو ن لیگ تھی۔جس پر زیادہ ذمہ داری آتی تھی جو وہ پورا نہ کر سکی مختصر یہ کہ حکومت اور اپوزیشن مل کرٹی او آر نہ بنا سکے۔ نا امید ہو کر ملک کی سیاسی پارٹیوں، جن میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کی قیادت نے نواز شریف کی کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دیں۔سپریم کورٹ نے دیکھا کہ سیاستدان ایک دوسرے پر الزام لگا رہے۔ تحقیق کرنے کے لیے ہمارے پاس درخواستیں بھی دی ہوئی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا تو اس کو ماننے کے بجائے ملک میں افترا تفری پھیلائیں گے۔لہٰذا سپریم کورٹ نے کیس سننے کے پہلے ہی متعلقہ تینوں فریقوں کو کہا کہ ٹھیک ہے ہم کیس سن کر فیصلہ سناتے ہیں۔ مگر آپ سب لوگ پہلے لکھ کرد یں کہ آپ لوگوں کو سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ سب نے فریقوں نے اپنی اپنی طرف سے لکھ کر دیا کہ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ سیاست دان کھل ملک کی حفاظت کرنے والی فوج اور عوام کو انصاف فراہم کرنے والی اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے نواز شریف کے انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ٹیکس کے خورد برد کاالزام لگایا۔ عوام کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ نواز شریف فیملی جب سیاست میں آئی تو اس نے ملک کے خزانے میں کرپشن کی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ بنایا۔بینچ نے کیس سنا یا۔دوججوں نے اپنے فیصلہ میں نواز شریف کو صادق و امین نہ رہنے پر نا اہل قرار دیا۔ تین ججوں نے فیصلہ دیا کہ ایک تحقیقی کمیشن بنا کر اس کی مذید تحقیق کر لی جائے۔اس فیصلہ پر نون لیگ نے مٹھائیاں تقسیم کیں اورکہا کہ تین ججوں نے تو نواز شرف کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ جبکہ تین ججوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ نواز شریف صادق و امین ہیں بلکہ یہ کہا کہ مزید تحقیق کر لی جائے۔اس وقت ہی نون لیگ والوں کو پتہ تھا کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف ہے۔مگرعوام کے سامنے جھوٹ بولاگیا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر تحقیقی کمیٹی بنی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس میں فوج، اسٹیٹ بنک،ایف بی آراور نیب وغیرہ کے نمایندے تعینات کیے گئے۔ اس کمیٹی کے سامنے نواز شریف، مریم نواز،کیپٹن صفدر، نواز شریف کے دونوں بیٹے اوراسحاق ڈار سب پیش ہوئے۔ نواز شریف نے قطر کے شہزادے کا ایک خط سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔ نواز شریف کاگواہ، قطری شہزادہ کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوا۔کمیٹی نے کہا ہم قطر آ جاتے ہیں۔ آپ پاکستان کے سفارت خانے میں آ کر اپنا بیان ریکارڈ کریں مگر قطری شہزادے نے تعاون نہیں کیا۔ تحقیقی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے دیے ہوئے وقت کے مطابق رات دن کام کر کے اپنی تحقیق مکمل کی اور سپریم کورٹ کے سامنے رکھی۔ جس پر سپریم کورٹ کے ججوں نے کمیٹی کی رپورٹ کو سامنے رکھا اور سپریم کورٹ کے پانچ کے پانچ ججوں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کو تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ دیا کہ نیب سپریم کورٹ کے دیے گئے مقررہ وقت کے اندر اندر نوازشریف فیملی کی کرپشن کی تحقیق کرے۔ اس تحقیق کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کا تقرر بھی کیا۔اب نواز حکومت نیب کے پراسکیوٹر کے تعین کرنے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب میں جاری تحقیق کے خلاف نواز شریف، مریم نواز اور نون لیگ کے وزیروں نے عدلیہ اور فوج کے خلاف باقاہدہ مہم شروع کی ہوئی ہے۔ فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کو کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جاتا۔کہا جاتاکہ بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو پانچ(۵) لوگوں نے برخاست کر دیا۔ جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی۔ ملک میں مارش لا لگنے والا ہے۔مجیب کو بھی عوام نے منتخب کیا تھامگر اسے حکومت نہیں دی گئی جس سے ملک توٹا۔ مجیب محب وطن تھا۔اب پھر ایسے ہی کیا گیا ہے۔
اگر نواز شریف کے اس ناجائزواویلے کا جائزا لیا جائے۔ تونمبر ۱۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو مختلف الزامات برخاست کیا ہے۔اکیلا نوازشریف کو کرپشن کے الزام پر برخاست نہیں کیا۔نمبر ۲۔جمہوریت کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوا۔ ملک کے آئین کے مطابق نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے۔ ملک کا انتظام چلا رہے ہیں۔نمبر ۳۔ فوج نے کئی بار ،اب تازہ بیان بھی دیا ہے کہ فوج ملک کے جمہوری نظام کی محافظ ہے۔ ملک میں کوئی بھی مارشل لا نہیں لگے گا۔فوج جمہوری حکومت کے ماتحت اپنی آئینی فرائض انجام دیتی رہے گی۔ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ سپہ سالار سینیٹ میں پیش ہوئے۔نمبر۴۔غدار وطن شیخ مجیب سے اپنا موازنہ کرکے کس کو پیغام دیا جارہا ہے کہ نواز شریف کی مدد کو پہنچو؟نمبر۵۔سپریم کورٹ کے جج جب نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیں تو اچھے ورنہ جانب دار۔ نمبر۶۔سپریم کورٹ کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے ہی اختیارات دیے ہیں کہ وہ ملک میں چاہے کوئی کرپشن کرے تو اس کو قانون کے مطابق قرار واقعی ہی سزادی جائے۔اس لیے ہم نون لیگ کے کارکنوں کومشورہ دیتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ملک دشمن ایجنڈے کا آنکھیں بند کر کے ساتھ نہ دیں۔نواز شریف نے کیا ساری عمر ملک کا وزیر اعظم رہنے کے لیے اللہ میاں سے سندھ لی ہوئی ہے کہ چاہے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اسے کرپشن میں نا اہل کرے تووہ فوج، عدلیہ اور ملک کے خلاف ہو جائیں۔ نون لیگ کے کارکنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ نواز شریف کے ساتھ کوئی بھی انہونی نہیں ہوئی ہے۔