Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عدل کا جبر

جنرل مرزا اسلم بیگ

عدل و انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کی وجہ سے دہشت گردی ہماری روزمرہ زندگی کا جزو بن چکی ہے

عدل رحمت بھی ہے اور زحمت بھی، بروقت عدل کی فراہمی معاشرتی نظام کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہے جبکہ انصاف کی فراہمی میں غفلت اور رکاوٹیں نظام کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں جس سے انتظامی و سلامتی کے معاملات کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور آج کچھ ایسے ہی خطرات کا پاکستان کو سامنا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس وقت 38000 سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں جبکہ نچلی عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے جو کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں جس سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے اور انہیں اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی حل بھی نظر نہیں آتا۔ اسی وجہ سے جہاں کئی خطرناک مسائل نے جنم لیا ہے، وہاں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس نے عوام کا امن و سکون چھین لیا ہے اور آئے دن قوم دہشت گردی کے عذاب کی ایک نئی اذیت سے گزرتی ہے۔
عدل و انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کی وجہ سے دہشت گردی ہماری روزمرہ زندگی کا جزو بن چکی ہے۔ انتظامی و نظام عدل کی خامیاں، دہشت گردی کا سب سے اہم سبب ہیں۔ اس امر کی تاریخی اعتبار سے تشریح اس طرح ہے کہ 1969ء میں سوات اور دیر کی ریاستوں کے قوانین کو پاکستانی قوانین سے بدل دیا گیا تھا۔ وہاں کے عوام نے دو دہائیوں تک عدل و انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں سے تنگ آکر ہمارے قانون کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کے پہلے قوانین کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔ ان کے مطالبات مظاہروں میں تبدیل ہوگئے اور 1990ء میں پرتشدد راہ اختیار کرلی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں ریاستوں کے لئے شرعی قوانین پر مبنی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی۔ یہ عمل سست روی سے چلتا رہا اور بلآخر مشرف نے اسے مکمل طور پر بند کردیا اور اس تحریک کو عسکری قوت سے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ صوفی محمد اور ان کے داماد فضل اللہ کی زیرقیادت اس تحریک کا دائرہ باجوڑ اور خیبرایجنسیوں کے ملحقہ علاقوں تک پھیل گیا۔ فوج نے بھرپور کارروائی شروع کی جس سے باغی عناصر کو افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا جہاں فضل اللہ نے اپنی سربراہی میں باغیوں پر مشتمل اپنا ایک گروپ بنا لیا جہاں سے وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مشرف نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے 2005ء میں وزیرستان پر فوج کشی کی اور 2007ء میں جامعہ حفضہ کی احتجاجی بچیوں کو کمانڈو آپریشن کے ذریعے کچل دیا جس سے باغی عناصر دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئے۔ یہ امر تحریک طالبان پاکستان کے قیام کا سبب بنا جنہوں نے افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحدوں اور پاکستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کردیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسی دوران دہشت گردوں نے فاٹا کے علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں قائم کرلیں جنہیں فوج نے دہشت گردوں سے پاک تو کردیا ہے لیکن دہشت گردی کا جن ابھی تک قابو میں نہیں آرہا ہے۔ حکومت کی انتظامی خامیاں عدل و انصاف کے جبر کی ایک اور شکل میں ابھری ہیں کیونکہ حکومت نے فوجی قوت کے نشے میں مختلف تنظیموں کو گفت و شنید سے قومی دھارے میں واپس لانے کی بجائے ان پر پابندیاں لگا کر انہیں کالعدم قرار دے دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دو درجن سے زائد کالعدم تنظیمیں ملک کے طول و عرض میں ہماری سیکورٹی قوت کی زد میں ہیں۔
کیا یہی کافی نہ تھا کہ اب حکومت فاٹا میں دہشت گردی کا ایک اور مرکز بنانے میں لگی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں شامل کر کے پاکستانی آئین کے تابع کردیا جائے۔ اس فیصلے کی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی سیاسی طور پر مخالفت کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور فاٹا کو پختونخوا میں ضم کردیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ سوات اور دیر کی طرح فاٹا کے عوام بھی اس فیصلے کو مسترد کردیں گے۔ ان کی ثقافت ’’علاقہ غیر‘‘ کی ثقافت ہے جو پاکستانی ثقافت سے یکسر مختلف ہے۔ انہیں اپنی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لئے الگ صوبے کی صورت میں آزاد ماحول چاہئے اور پاکستان کو چاہئے کہ اس سلسلے میں انہیں تمام سہولیات فراہم کرے کیونکہ مستحکم جمہوری نظام کی خاطر پاکستان کو سیاسی توازن قائم رکھنے کے لئے ملک میں نئے صوبے قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کو شدت سے احساس ہے کہ عدل و انصاف کی جلد فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے پرانے نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔ آئینی ماہرین کے لئے یہ کڑی آزمائش ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو پالیسی مرتب کرنے کے لئے مدد فراہم کریں۔ حکومت وقت کے لئے لازم ہے کہ 2018ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی محتاط طریقے سے عدالتی اصلاحات کا عمل مکمل کرے تاکہ عدل و انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
عدل و انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کمزور عوام جو ریاستی کمزوریوں کے پیچھے چھپنے کے فن سے ناآشنا ہیں ان کا دم گھٹ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بقول شاہین صہبائی ’’غم و غصے سے بھری ہوئی قوم ہر وقت پھٹنے کو تیار ہے۔ عوام کا مزاج اب ناراضگی سے بڑھ کر باغیانہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ قصور میں زینب کے واقعہ پر عوام کا غم و غصہ، ریاستی قانون کے سائے میں پھیلتی ہوئی کرپشن کے خلاف چار سال سے جاری عوامی احتجاج اور دہشت گردی کی وجہ سے ہماری سرزمین سے امن و امان کے اٹھتے ہوئے جنازے کسی بڑھتے ہوئے طوفان کی خبر دے رہے ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔

مطلقہ خبریں