فاٹا یعنی قبائلی علاقہ جات کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ انسانی بنیادی حقوق تو دور کی بات، یہاں کے مکین ’’حقوق‘‘ نام کے لفظ سے ہی ناآشنا ہیں۔ قبائلی علاقہ جات یا وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات، پاکستان کے چاروں صوبوں سے علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں اور یہ وفاق کے زیرانتظام ہیں۔ قبائلی علاقہ جات 27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں جو صوبہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہیں۔ مغرب میں قبائلی علاقہ جات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہیں جہاں ڈیورنڈ لائن انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہے۔
قبائلی علاقہ جات کے مشرق میں پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ علاقے پاکستان کا حصہ تو ہیں تاہم ابھی تک صوبے کی حیثیت حاصل نہیں، یہ پاکستان کی دو وفاقی اکائیوں میں سے ایک، دوسری اکائی اسلام آباد ہے۔ قبائلی علاقوں میں لوگ مختلف پشتون قبائل میں تقسیم ہیں۔ علاقائی دارالحکومت پاراچنار ہے۔ یہ علاقے 7 ایجنسیوں/اضلاع پر مشتمل ہیں۔ خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ان کے علاوہ پشاور، ٹانک، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ 6 سرحدی علاقے بھی موجود ہیں۔ سرحدی علاقہ بنوں، سرحدی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان، سرحدی علاقہ کوہاٹ سرحدی علاقہ لکی مروت، سرحدی علاقہ پشاور، سرحدی علاقہ ٹانک۔ قبائلی علاقہ جات کے اہم شہروں میں پارہ چنار، میران شاہ، میر علی، باجوڑ، وانا اور درہ بازار شامل ہیں۔ فاٹا میں انگریز کے دور کا قانون رائج ہے جو آج تک چلا آرہا ہے۔ اسے تبدیل کرنے کی کوشش اور اس علاقے کے مکینوں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لئے کسی حکومت نے کوئی کوشش نیت سے نہیں کی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 247 کے مطابق ایف سی آر نامی ایک قانون ایسا بھی ہے جس کی رُو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات پر کسی بھی صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرۂ اختیار متعین نہیں۔ یہ علاقہ جات براہ راست صدارتی احکامات کے پابند ہوتے ہیں۔
یہاں جو قانون نافذ ہے اسے فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کہتے ہیں جسے پہلی مرتبہ 1848ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ یہ قانون خصوصاً شمالی علاقہ جات میں پختون اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لئے رائج ہوا تھا۔ پھر 1873، 1876 اور 1901ء میں اس میں مزید ترامیم ہوئیں۔ 1947ء میں حکومت پاکستان نے اس قانون کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے ایک ترمیم اور کردی جس کی رُو سے کسی بھی فاٹا کے شہری کو اس کا جرم بتائے بغیر گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس قانون کی رُو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات کے شہری وکیل اور اپیل ایسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ اگست 2011ء تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ 9 مارچ 2008ء کو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پوری پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں اس ’’قانون‘‘ کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر عملدرآمد میں بہت دیر کردی، اگرچہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی۔ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ان علاقوں کے شہری بہت پہلے سے خود کو سیاسی اور معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔
مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمان، قبائلی رہنماؤں اور ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قبائلی علاقوں کے مستقبل کے تعین اور ان کے انتظام میں اصلاحات متعارف کرانے کے لئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس سے قبل پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد ہونے والی ایک کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مرتب کیے جانے والے لائحہ عمل میں بھی قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی نے متفقہ طور پر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، تاہم مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختون قوم پرست سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی کی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس انضمام کی مخالفت کررہی ہیں۔ حکومت کی اتحادی ان دونوں جماعتوں کی مخالفت کے باعث اس بارے میں قانون سازی التوا کا شکار ہے جس پر دیگر جماعتیں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی خاصی برہم ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں قبائلی پٹی کے لوگوں کی رائے کو مقدم سمجھا جائے یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ فاٹا کے لوگ اصل اسٹیک ہولڈر ہیں اور ان کی رائے فیصلہ کن ہونی چاہئے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق اس معاملے پر عوامی رائے جاننے کے لئے ریفرنڈم ایک بڑا ذریعہ ہے۔ فاٹا میں ایک کھلا، منظم اور شفاف انداز میں ریفرنڈم منعقد کیا جاسکتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں انضمام کے لئے ایک دلیل پیش کی جاتی ہے کہ قبائلی پٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی انضمام کے حق میں ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی اور خواتین کی شمولیت بہت ہی کم تھی۔ علاوہ ازیں انتخابات میں فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی کو اس بات کا مینڈیٹ نہیں دیا گیا کہ وہ قبائلی پٹی کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ گرینڈ جرگے کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ تاریخی طور پر جرگہ پختونخوا کلچر کا ایک لازمی حصہ ہے جس کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جاتا ہے۔ جرگے کی معقولیت کا انحصار جرگہ کے ارکان کی ایمانداری اور سچائی پر ہوتا ہے۔ اقدار کے زوال کی وجہ سے جرگہ کے فیصلوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ پْرامن طور پر کیا جانا چاہئے نہ کہ دھرنوں سے۔ اگر لوگوں کا خیال ہے کہ انضمام سے دہشت گردی رک جائے گی تو ان کو سوات کی مثال ذہن میں رکھنی چاہئے جو اگرچہ خیبرپختونخوا کا بندوبستی علاقہ ہے مگر اس میں دہشت گردی نے دوبار سر اٹھایا تھا۔
کچھ سیاسی لوگوں کا خیال ہے کہ انضمام کے لئے پانچ سال کا عبوری وقت غیرضروری ہے اور قبائلی پٹی کا فوری انضمام ہونا چاہئے۔ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں مختلف نظام کام کرتے ہیں۔ یہ اختلافات کا سلسلہ ہوسکتا ہے اس پر مفاہمت میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔ مغربی اور مشرقی جرمنی اور ہانگ کانگ اور مین لینڈ چائنہ کا انضمام اس سلسلے کی کارآمد مثالیں ہیں۔ چین میں ہانگ کانگ کو خصوصی اسٹیٹس دیا جاتا ہے، اگرچہ یہ ایک ایسے جمہوری نظام کے تحت کام کرتا ہے جو موخرالذکر سے مختلف ہے۔ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ بڑے اور بنیادی اسٹیک ہولڈرز کے ذریعے کرنا چاہئے اور بڑے اور بنیادی اسٹیک ہولڈرز وہاں کے عوام ہیں۔ جو بھی فیصلہ کیا جائے پْرامن طور پر کیا جانا چاہئے۔ فاٹا کے عوام کو اپنی قسمت اور وسائل کا فیصلہ خود کرنے دینا چاہئے۔ اس سے ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے تنازع ختم ہوجائے گا۔ فوجی لحاظ سے یہ حساس علاقہ ہے اور اس میں بے چینی ملکی مفاد میں نہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی قبائلی عمائدین کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حمایت اور امن و استحکام کے لئے ان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج قبائلی عوام کی خواہشات کے مطابق فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی حمایت کرتی ہے، فاٹا کے معاملے پر قبائلی عوام کے جذبات کا احترام کیا جانا چاہئے، فاٹا کی قسمت کا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا، فاٹا میں دیرپا امن و استحکام کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، قبائلیوں کے موقف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی بہادر قبائلیوں کی قربانیوں سے ہی ممکن ہوئی۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ وہاں کے عوام کے بہترین مفاد میں فیصلہ وہاں کی مکینوں کی رائے کو سامنے رکھ کر ہی کیا جانا چاہئے اور ایک کروڑ سے زائد آبادی کے بنیادی حقوق کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا انسانی قدروں کے ہی خلاف ہے۔
فاٹا اصلاحات۔۔ مسئلہ کیا ہے؟
ضمیر آفاقی