رپورٹ: سید زین العابدین
کسی ملک کی سلامتی صرف دفاعی قوت کو مضبوط کرنے سے مستحکم نہیں ہوتی دیگر عوامل کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، پاکستان دفاعی اعتبار سے ایک مضبوط ملک ہے، ہم ایٹمی قوت ہیں اور اپنے روایتی حریف سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، دفاعی قوت کے ساتھ ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہوگا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر
پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکورٹی خدشات شروع ہوگئے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، امریکا نے جارحیت کی تو ہم بھرپور جواب دیں گے، نصرت مرزا
امریکا اور پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ تعلقات کو قائم رکھیں، امریکا ایف-16 طیاروں اوردیگر دفاعی آلات پر پاکستان سے تعاون نہیں کررہا، سفیر نجم الدین شیخ
سی پیک کی وجہ سے بحر ہند کی اہمیت بڑھ گئی ہے، پاک بحریہ اپنے سمندری حدود اور بحری اڈوں کی حفاظت کے لئے تیار ہے، ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
جب سے پاکستان قائم ہوا اس وقت سے دشمن اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، سیاسی لیڈر شب کو سنگین صورت حال کا ادراک کرنا ہوگا،پروفیسر ڈاکٹر سیما ناز صدیقی
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے تحت ’’پاکستان کی سلامتی کے خدشات اور تحفظاتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر کراچی کے مقامی ہوٹل میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ کسی ملک کی سلامتی صرف دفاعی قوت کو مضبوط کرنے سے مستحکم نہیں ہوتی دیگر عوامل کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، پاکستان دفاعی اعتبار سے ایک مضبوط ملک ہے، ہم ایٹمی قوت ہیں اور اپنے روایتی حریف سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، دفاعی قوت کے ساتھ ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہوگا، بیرونی قرضوں سے جان چھڑانی ہوگی، خودانحصاری کی طرف بڑھانا ہوگا، اس کے ساتھ ہمیں سیاسی استحکام حاصل کرنا ہوگا، بدعنوان سیاسی ٹولے کا احتساب ہوجائے گا تو معاشی حالات بہتر ہونے لگیں گے، بدعنوانی سے بھی سلامتی کو خطرہ ہے، اس کے علاوہ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانا ہوگا، اگرچہ اس حکومت نے توانائی کے حوالے سے کچھ اقدامات کئے ہیں لیکن اب بھی ہماری انڈسٹری کو توانائی کی کمی کا سامنا ہے، انڈسٹری بند ہوگی تو بے روزگاری بڑھے گی جس سے معاشرے میں بے چینی اور کرائم بڑھے گا، اسی طرح ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے ہم زرعی ملک ہیں، زراعت کا انحصار پانی پر ہے، ہم نے دو بڑے ڈیم بنانے کے بعد اس طرف توجہ نہیں دی، آج ہمیں پانی کی ہر حوالے سے کمی کا سامنا ہے، قومی سلامتی کے لئے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی بھی ضروری ہے، ہمیں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ، مہاجر اور دیگر قومی سوچ سے بلند ہو کر پاکستانی بننا پڑے گا تب مسائل کا حل بھی نکلے گا اور دشمن کو کرارا جواب بھی دے سکیں گے۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکورٹی خدشات شروع ہوگئے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مختلف مواقعوں پر ہم نے اس کا توڑ کیا، موجودہ دور میں سی پیک کی وجہ سے ہمیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ایک تقریب میں ایک امریکی سے میری بحث ہوئی تو اُس نے کہا کہ افغان جنگ سے امریکا اور پاکستان دونوں کو فائدہ ہوا ہم سپر پاور بن گئے تو آپ نے ایٹمی قوت حاصل کرلی امریکی صدر نے گزشتہ دنوں دھمکی آمیز بیان دیا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سرجیکل اسٹرائیک کرسکتے ہیں، نئی امریکی انتظامیہ نے انتخابات سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ قوت کو تو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن نظریے کو ختم کرنا مشکل ہوتا ہے، اب ہم نظریے کے خلاف اقدامات کریں گے، پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک روبوٹ فورسز اور فوجی اڈوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے، افغانستان میں امریکا نے 9 فوجی اڈے بنائے ہوئے ہیں، ٹرمپ نے امریکی سینیٹ میں کہا کہ پاکستان تعاون نہیں کرے گا تو خمیازہ بھگتے گا، یہ دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے، ہم امریکی اقدام کا بھرپور جواب دیں گے۔ ہم نے سیکنڈ اسٹرائیک کیبیلٹی حاصل کی ہوئی ہے، امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے 12 دسمبر کو کابل میں کہا کہ دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنائیں گے، اس کے بعد سانحہ کوئٹہ ہوا دشمن ہمارے خلاف تیاری کررہا ہے، ہمیں ہر طرح سے تیار رہنا ہوگا، سیاسی استحکام بہت ضروری ہے بدعنوان ٹولہ بھی ہماری سلامتی کے لئے خطرہ ہے، کرپشن ہوگی تو طبقاتی فرق بڑھے گا جس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہوگی، ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں جو اچھی علامت ہے، دشمن جتنی سازشیں کرلے ہم اُس کا توڑ نکالتے رہیں گے۔
اس موقع پر ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی کا انحصار مختلف شعبوں پر ہوتا ہے میرا تعلق بحریہ سے ہے، میں اُسی حوالے سے بات کروں گا، ہر دور میں میری ٹائم سیکورٹی کی اہمیت رہی ہے اس وقت دنیا کی کل تجارت کا 90 فیصد سمندر سے ہوتا ہے، بحر ہند سے دنیا کی تجارت کا 50 فیصد گزر ہوتا ہے، بحرہند کی اہمیت کے پیش نظر مختلف ممالک اپنی بحریہ کو مضبوط کررہے ہیں، سی پیک کی وجہ سے بھی بحر ہند کی اہمیت بڑھی ہے، امریکہ بحر ہند اور پیسفیک اوش کو ایک ہی سمندر سمجھتا ہے، اس کے علاوہ چائنا ساؤتھ سی کی وجہ سے بھی عالمی طاقتوں میں کیدگی برھ رہی ہے، ہمارا روایتی دشمن بھارت اپنی بحریہ کو مضبوط کررہا ہے، پاکستان نیوی علاقائی اور عالمی تناظر میں ہونے والی تبدیلیوں کے تحت اپنی حربی صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہے، دشمن ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، کلبھوشن یادیو گوادر میں صرف دہشت گردی کروانے کے لئے نہیں بیٹھا تھا بلکہ اس کے اور بھی مذموم مقاصد تھے، موجودہ دور میں بحری قزاقی، اسمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ بھی میری ٹائم سیکورٹی میں آتے ہیں، صومالی قزاقوں کی وجہ سے بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا چلی، برازیل، جاپان، چین، ہندوستان، پاکستان اور عرب ممالک نے مل کر 2013ء میں اسے کنٹرول کیا، تجارتی بحری جہاز غیرمحفوظ ہوچکے تھے، اس کے علاوہ دہشت گردی بھی میری ٹائم سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے، صومالیہ اور یمن سے داعش کے جتھے بحر ہند کا رُخ کرسکتے ہیں، سائبر کرائم بھی ایک مسئلہ ہے، 2012ء میں سعودی عرب کی آرامکو کمپنی کا ڈیٹا ہیک کرلیا، اُن کا سسٹم بند ہوگیا، دنیا کی تیل کی تجارت میں آرامکو کا بڑا حصہ ہوتا ہے، امریکی مرچنٹ نیوی کو حادثہ ہوا، امریکی تحقیق کررہے ہیں کہ یہ سائبر کی وجہ سے تو نہیں ہوا، اس کے علاوہ کلائمنٹ چینج بھی ایک بڑا خطرہ ہے، ہمیں اپنے سمندر کو محفوظ کرنا ہوگا، اس خطے میں دنیا کی کل آبادی کا 35.4 فیصد آباد ہے جبکہ دنیا کی کل جی ڈی پی کا صرف 10 فیصد حصہ ہے، اس میں بھی سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا حصہ زیادہ ہے، 17 ویں صدی کے بعد چین اس میں اہم کردار ادا کررہا ہے، سلک روڈ 60 ممالک سے گزرے گا، ان ممالک کا دنیا کی جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ہے، چین دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے، 17 ویں صدی میں چینی بحریہ کے ایڈمرل مسلمان تھے۔ ایران نے چاہ بہار کا افتتاح کیا تو ہمارے پورٹ اینڈ شپنگ کے وزیر کو بھی بلایا۔ جاپان اور بھارت مل کر براعظم افریقہ میں سلک روٹ بنانا چاہ رہے ہیں، بھارت سی پیک منصوبے سے خائف ہے۔
سفیر نجم الدین شیخ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کا انحصار خارجہ اور داخلی دونوں سطح پر ہے، ہم دوست ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، امریکا سے تعلقات میں کبھی سرد مہری آجاتی ہے لیکن یہ تعلقات ختم نہیں ہوں گے، دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں ہے کہ تعلقات کو قائم رکھیں، کچھ دھمکیاں ملتی رہتی ہیں لیکن ہماری اُن کو ضرورت ہے، امریکا نے ایف-16 طیاروں کے اسپیئر پارٹس اور ہارپون میزائل کے آلات روک لئے، ہم نے اس کا متبادل ڈھونڈ لیا، ہمارا امریکا پر انحصار کم سے کم ہورہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، اس وقت سے دشمن اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، مشرق کی طرف بھارت نے کبھی ہمیں پُرسکون نہیں رہنے دیا، اس طرح مغربی سرحد پر افغانستان کی طویل سرحدی پٹی پر دشوار گزار اور پہاڑی راستوں کی وجہ سے سیکورٹی کا مناسب نظام نہیں بن سکا، اگرچہ اب پاک فوج کی جانب سے اس پر کام ہورہا ہے، ہماری سلامتی کو دہشت گردی سے بھی خطرات ہیں، افغانستان سے طالبان اور داعش کے جتھے آ کر ہمارے ملک میں کارروائی کرتے ہیں، امریکہ بھی ہمیں مختلف طریقوں سے دھمکاتا رہتا ہے، داعش اور شدت پسند گروہ مل کر ہمیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں اس کے علاوہ قدرتی آفات کے خدشات بھی درپیش ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی، ہمیں ان خدشات سے نمٹنے کے لئے سیاسی استحکام، معاشی مضبوطی اور مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی، کسی دوسرے ملک پر مکمل انحصار بھی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، 70 سال ہوگئے مگر ہم خودانحصاری کی طرف قدم نہیں بڑھا سکے ہیں، معاشی خودانحصاری حاصل کرنی ہوگی۔ شرکا کے سیمینار سے خطاب کے بعد سوال و جواب کا مرحلہ شروع ہوا۔ سیمینار میں صحافی، وکلاء جامعہ کراچی، وفاقی اُردو یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبا سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔