Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بحریہ کے جنگی یونٹس کی آپریشنل صلاحیتیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا پاکستان نیوی کی جنگی تیاریوں کے حوالے سے کئے گئے اقدامات پر اظہارِ اطمینان

محمد اصغر چوہدری

پاک بحریہ کے جنگی یونٹس نے شمالی بحیرۂ عرب میں آپریشنل صلاحیتوں اور فلیٹ ریویو کا شاندار مظاہرہ پیش کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان نیوی کے بحری جہاز پی این ایس نصر سے ان آپریشنل مشقوں کا معائنہ کیا۔ پی این ایس نصر آمد پر چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے مہمان خصوصی کا خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کو پاک بحریہ کے یونٹس کے جانب سے کی جانے والی مشقوں اور آپریشنل مظاہرے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ مہمان خصوصی نے کھلے سمندر میں مختلف آپریشنل مشقوں کا معائنہ کیا۔ ان مشقوں میں افرادی قوت اور سازوسامان کی ایک جہاز سے دوسرے جہاز پر منتقلی، بحری جہازوں اور ایئرکرافٹس کے ذریعے راکٹ ڈیپتھ چارج فائرنگ اور بذریعہ ہیلی کاپٹر سرچ اینڈ سیزر مشقیں شامل تھیں۔ پاک بحریہ کے مختلف ہوائی جہازور اور ہیلی کاپٹرز نے وزیراعظم کے سامنے شاندار فلائی پاسٹ کا مظاہرہ بھی کیا۔ آخر میں مظاہرے میں شریک تمام بحری جہازوں نے کالم فارمیشن سکم پاسٹ کا مظاہرہ کیا اور معزز مہمان کو قومی نعرہ پیش کیا۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کی جانب سے آپریشنل صلاحیتوں کا ایک شاندار مظاہرہ دیکھنے کے بعد وزیراعظم جناح نیول بیس اور ماڑہ پہنچے جہاں انہوں نے ریموٹ ڈیٹا اسٹیشن سمیت بیس پر قائم تنصیبات اور دفاعی سہولیات کا دورہ کیا۔ انہوں نے بیس کی آپریشنل تیاریوں پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور مکران کی ساحلی پٹی پر پاک بحریہ کی جانب سے سماجی بہبود بالخصوص صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کئے جانے والے اقدامات کی تعریف کی جس سے بلوچستان کی مقامی آبادی کی معاشی و سماجی صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ بعدازاں وزیراعظم نے شمالی بحیرۂ عرب میں پاک بحریہ کی آبدوز سعد پر بورڈنگ کی اور سب میرین میں زیرآب سفر کیا۔ چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی بھی سب میرین کے اس پہلے سفر میں وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم کو پاکستان نیوی فورس کی تاریخ اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اس کی کامیابیوں پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے سب میرین ڈائیونگ اور سب میرین پروسیجرز بھی کئے جس کے بعد انہیں روایتی ڈالفن نشان پیش کیا گیا جو سب میرینز کو عطا کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے سمندر میں اپنی مصروفیات کے دوران پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں سے بھی ملاقات کی اور ایک مشکل ماحول میں ملک کی بحری سرحدوں کے دفاع کے لئے ان کے عزم و حوصلے اور لگن کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے پاک بحریہ کی آپریشنل صلاحیتوں پر اپنے بھرپور اطمینان کرتے ہوئے کہا مجھے کامل یقین ہے کہ پاک بحریہ گوادر پورٹ اور پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام منصوبوں سمیت ملک کی بحری سرحدوں کے ہر قسم کے خطرات سے تحفظ کے لئے مکمل طور پر تیار اور پُرعزم ہے۔ ترجمان نیوی کے مطابق شاہد خاقان عباسی آبدوز پر کھلے سمندر میں جانے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ شاہد خاقان عباسی پاک بحریہ کی طرف سے ڈولفن نشان حاصل کرنے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم نے سمندر میں اپنی مصروفیات کے دوران پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں سے بھی ملاقات کی اور ایک مشکل ماحول میں ملک کی بحری سرحدوں کے دفاع کے لئے ان کے عزم و حوصلے اور لگن کی تعریف کی۔
پاک بحریہ اپنے قیام سے لے کر آج تک بالخصوص دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے عفریت اور گوادر بندرگاہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کے بعد سے کافی متحرک کردار ادا کررہی ہے۔ پی این ایس اکرم 1983ء سے گوادر میں اس ساحل کی حفاظت کے لئے موجود ہے جس پر ریڈار بھی موجود ہے اور پیٹرولنگ کرنے والی کشتیاں بھی تیار رہتی ہیں لیکن سی پیک کا اعلان ہونے کے بعد گوادر کی اہمیت بڑھ جانے کی وجہ سے ظاہر ہے دشمن کے ناپاک ارادوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، وہ ہر طریقے سے اس بندرگاہ کو ناکام کرنے کے لئے سرگرم ہے لہٰذا پاکستان نیوی نے بھی اپنی نفری اور انتظامات کا پھیلاؤ بڑھا دیا ہے، اسی سلسلے میں پی این ایس صدیق اس وقت تربت میں موجود ہے، اس پر جدید قسم کے جہاز ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اسی طرح پسنی میں پی این ایس مکران جدید جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ کسی بھی ناخوشگوار صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہتا ہے اور یہ تمام کے تمام مسلسل میری ٹائم ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے پاک بحریہ نے میری ٹائم سیکورٹی ٹاسک فورس 88 دسمبر 2016ء میں قائم کی، یونٹ 3 اور 4 بھی بنائی گئی جبکہ کوسٹل سیکورٹی اینڈ ہاربر ڈیفنس فورس بھی قائم کی گئی ہے۔ یوں پاکستان نیوی نے گوادر کی بندرگاہ کو بڑی حد تک دشمن کی پہنچ اور مداخلت سے مکمل طور پر محفوظ بنا لیا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا اور یہی بھارت کے لئے باعث تشویش ہے، وہ بحیرۂ عرب اور بحرہند میں برتری کا جو خواب دیکھ رہا ہے وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ سی پیک کا منصوبہ شروع ہونے کے بعد ان سمندری حدود میں بھارتی سرگرمیاں بھی رپورٹ کی گئیں اور ایسی ہی سازشون کے توڑ کے لئے پاک بحریہ کو وسیع حفاظتی انتظامات کرنا پڑے، اس وقت پاک بحریہ کے متعدد جوان جدید دفاعی انتظامات کے ساتھ بندرگاہ، مچھلی بندر، ہیمر ہیڈ اور کوہ باطل پر ہر طرف موجود ہیں اور دشمن کے ناپاک ارادوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ گوادر اگرچہ ایک خالصتاً تجارتی بندرگاہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر پاک بحریہ یہ تمام اقدامات اٹھا رہی ہے۔ نیوی کے افسر اور سیلرز فی الوقت اس غیرآباد، غیرترقی یافتہ بلکہ ترقی سے دور علاقے میں تمام شہری سہولیات سے دور رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اسی سلسلے میں ایک نیوی بیس بھی بن رہا ہے جسے پاک بحریہ اور پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کی وہ یونٹیں استعمال کریں گی جو گوادر کی حفاظت کے لئے یہاں اپنے فرائض سرانجام دیں گی، کسی بیرونی بحریہ کو یہ بیس استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تاہم کسی بھی ملک کے بحری جہازوں کو یہاں آنے کی اجازت ہوگی، یوں نہ صرف ان تمام حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری پاک بحریہ پر ہوگی بلکہ ان کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں رہے گا۔ گوادر کی اہمیت اس وقت بین الاقوامی طور پر بھی بہت زیادہ ہے، امریکہ کو اس پر اس لئے تشویش ہے کہ چین کے ’’اسٹرنگ آف پرل‘‘ سلسلے کی ایک کڑی کے ذریعے اس کی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ مختصر ترین راستے سے چین تک پہنچے گا اور بھارت کو اس لئے فکر ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کی تعمیر کے بعد کراچی کی بندرگاہ پر بوجھ بھی کم ہوگا اور وسط ایشیائی ممالک بھی اس بندرگاہ سے اپنی سمندری تجارت میں اضافہ کرسکیں گے جو پاکستان کے لئے زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک بہتر ذریعہ ہوگا، اگرچہ یہ ایک تجارتی بندرگاہ ہے لیکن دفاعی لحاظ سے اس کی اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے، جنگ کے حالات میں اگر بفرض محال بھارت کراچی کی بندرگاہ پر ناخوشگوار صورتِ حال پیدا کرتا ہے یا اس کو بلاک کرتا ہے تو گوادر کی بندرگاہ اس کی پہنچ سے بہت دور ہے اور صورت میں پاکستان اپنی سمندری حدود کی بہتر طور پر حفاظت کرسکتا ہے۔ یوں اس بندرگاہ پر بحری افواج کی موجودگی نہ صرف بہتر بلکہ ضروری ہے تاکہ ایک طرف تجارتی مفادات کا تحفظ ہوسکے اور دوسری جانب ملک کا سمندری دفاع بھی مضبوط ہو اور ساتھ ہی بحیرۂ عرب میں دشمن کی نقل و حرکت پر بھی مسلسل نظر رکھ کر انہیں محدود بھی کیا جاسکے۔
پاک فوج اور پاکستان ایئرفورس نے جب عسکریت پسندی کے خلاف مہم تیز کی تو بحریہ نے تو ان پر دباؤ کم کرنے کے لئے 2010ء کے سیلاب میں بڑی تعداد میں امدادی کارروائیاں کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی، اسی طرح بحریہ 2006-07ء سے ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف مہم کے حصہ کے طور پر دہشت گرد عناصر اور القاعدہ کی سراغ رسانی کررہی ہے۔ فوج اور فضائیہ پر دباؤ کو محدود کرنے کے لئے بحریہ نے شمالی پاکستان میں بے شمار آپریشنز کئے اور اس کے زمینی لڑاکا دستوں نے زمینی فوج کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف مغربی سرحدوں پر لڑائی میں حصہ لیا۔ 22 مئی 2011ء کو دہشت گردوں کے ساتھ بحریہ کی پہلی جھڑپ سندھ میں سب سے گنجان آباد پاکستانی فوجی تنصیب پاک فضائیہ کے فیصل ایئرفورس بیس کراچی کے قریب واقع بحری ہوائی اڈے پی این ایس مہران (بحری ہوائی بازو کے جہازوں کے بیس) میں ہوئی، اس لڑائی کے دوران تقریباً 15 حملہ آور ہلاک ہوئے جبکہ 18 پاک بحریہ کے اہلکار بھی شہید ہوئے۔ امریکہ اور مغربی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حملہ 2009ء میں پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والے حملے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک تھا اور سابقہ حملوں سے زیادہ بہتر منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا۔ 1971ء کے بعد سے بحریہ کے اپنے اثاثہ جات پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ تھا اور اسے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے سے پہلے عسکریت پسند منصوبہ ساز الیاس کشمیری کا آخری بڑا حملہ بھی مانا جاتا ہے جبکہ اسپیشل سروس گروپ نیوی (ایس ایس جی این) یعنی پاک بحریہ کمانڈوز کا جوابی حملہ 1971ء کے ’’آپریشن جیک پاٹ‘‘ کے بعد سے ایس ایس جی این کا سب سے بڑا آپریشن تھا۔

مطلقہ خبریں