Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ہماری قومی سلامتی کو لاحق خطرات

مرزا اسلم بیگ

ہماری اجتماعی قومی زندگی کے ایسے عوامل جو ہماری قومی سلامتی پر اثرانداز ہوتے ہیں ان میں ’’دفاع‘‘ اور ’’معاشرتی نفسیات‘‘ (سائیکو سوشل) ہماری قومی طاقت (نیشنل پاور) کے انتہائی اہمیت کے حامل عناصر ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم ان عناصر کو مختصراً زیربحث لائیں گے تاکہ جو خطرات لاحق ہیں ان کا تعین کرسکیں۔ یہ خطرات امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک حد تک ان خطرات کا سبب ہم خود بھی ہیں۔
دفاع اور ترقی
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو حربی سازوسامان کی پیداوار کے میدان میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جن کی بدولت ہم ٹینک، گنیں، میزائل، جنگی بحری جہاز اور جے ایف تھنڈر جیسے ہمہ صفت طیارے بنا رہے ہیں جبکہ ایٹمی طاقت سے چلنے والی سب میرین کی تیاری کا کام جاری ہے۔ ہماری زمینی فوج نے ضرورت کے حربی سازوسامان اور گولہ بارود تیار کرنے کی 90 فیصد تک خودانحصاری حاصل کرلی ہے۔ اس طرح 1990ء سے لے کر اب تک پاکستانی فوج کو 40 دن سے زائد تک جنگ لڑنے کی بھرپور صلاحیت حاصل ہے جبکہ بھارت کو بمشکل 10 دنوں سے زیادہ جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن ایسی طاقت بننے کے اہداف حاصل کرنے کے لئے اسے ابتدائی سطح کی ناکامیوں کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے:
’’بھارتی مسلح افواج نے ملکی سطح پر تیار کئے جانے والے طیاروں اور ٹینکوں کو ناقابل بھروسہ قرار دے کر انہیں قبول کرنے سے انکارکردیا ہے۔ تینوں فورسز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملٹی رول لائٹ ایڈوانس طیارے ’’تیجا‘‘ کے ایڈوانس ورژن کا استعمال ملکی دفاع سے مذاق کرنے کے مترادف ہوگا جبکہ انڈین آرمی نے ملکی سطح پر تیار کئے جانے والے ’’ارجن‘‘ ٹینک کو بھی سروس میں لینے سے صاف انکار کردیا ہے۔‘‘
فوج نے گزشتہ ہفتے ابتدائی طور پر 1770 (ایف آر سی ویایس) ٹینکوں کے حصول کے لئے عالمی اسلحہ ساز اداروں کو ابتدائی ٹینڈر جاری کئے لیکن ناکام رہے۔ دوسری جانب بھارتی فضائیہ 114 سنگل انجن والے طیاروں کے حصول کی کوششوں میں بُری طرح ناکام ہے۔
اسی طرح بھارتی وزارت دفاع کی دفاعی پیداوار میں خودانحصاری حاصل کرنے کی پالیسی بھی ناکام ہے۔ اس پالیسی کے تحت بھارت کی دفاعی اسلحہ ساز کمپنیوں کو عالمی اسلحہ ساز کمپنیوں کے اشتراک سے جدید اسلحہ سازی کا نظام اور تکنیک کی منتقلی بھی ممکن نہ ہوسکی ہے۔
فوج اور فضائیہ کے لئے یہ سب تکلیف دہ بات ہے۔ ایک طرف تو دفاعی بجٹ ان منصوبوں کی مالیت کے مقابلے میں بہت کم ہے اور دوسری جانب پہلے سے واجب الادا ادائیگیوں کی اقساط کے لئے بھی خطیر سرمایہ چاہئے۔ فضائیہ کے لئے سنگل انجن والے لڑاکا طیاروں کا منصوبہ جو سویڈن کے گریپن ای (گریپیں -ای) اور امریکہ کے ایف 16 طیارے کی طرح ڈاگ فائٹ کے ماہر ہیں، ان کی لاگت 1.15 لاکھ کروڑ روپے ہے۔
بری فوج اس وقت تک 118 ارجون مارک 2 ٹینک لینے پر رضامند نہیں ہے جب تک 6,600 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے یہ ٹینک عملی مظاہرے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ایف آر سی وی (ایف آر ڈی وی) کا منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو ایف ایم بی ٹی (ایف بی ایم ٹی) منصوبہ اپنی موت خود مر جائے گا۔ بھارتی دفاعی پیداوار کی لابی بے تحاشہ وقت اور پیسہ صرف کرکے ’’بلند بانگ دعوے کرتی ہے مگر نتیجہ منفی نکلتا ہے۔‘‘ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے مطابق ’’کیا خودانحصاری کے نام پر عسکری تیاریوں کو قربان کیا جارہا ہے۔‘‘
بھارتی فضائیہ کے بقول تیجا طیارے کو ’’جنگ کے لئے حتمی تیاری‘‘ کرنے میں ابھی وقت لگے گا تب ہی یہ طیارہ آئندہ تین دہائیوں کی ضروریات کے لئے کارآمد ثابت ہوگا۔ تاہم محدود رینج اور اسلحہ اٹھانے کی صلاحیت کی وجہ سے تیجا بھارتی فضائیہ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ ایک آفیسر کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ امریکی ایف 16 اور سویڈش گریپن طیاروں کے مقابلے میں صرف پچاس فیصد صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں دیگر طیاروں کی حفاظت میں ہی پرواز کرسکتا ہے۔ پاکستان اور چین کی جانب سے ’’مشترکہ خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لئے 42 کے مقابلے میں کم از کم 33 جنگی اسکواڈرن کی بھارتی فضائیہ کو ضرورت ہے اور جب تک تیجا مارک ٹو (تیجا ارک دو) حقیقت کا روپ نہیں دھارتا، طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے سنگل انجن والے لڑاکا طیارے انتہائی ضروری ہیں۔‘‘
بلاشبہ بھارت مسلح افواج میں پائی جانے والی شدید کمزوریوں کے مسائل سے دوچار ہے جنہیں دور کرنے کے لئے اسے کافی وقت درکار ہے۔ فی الوقت بھارت ’’اسٹرٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ‘‘ کے طفیل امریکہ سے چند مخصوص ہائی ٹیک اسلحہ اور عسکری سازوسامان حاصل کر کے وقتی طور پر پاکستان پر سبقت لے جانے کی کوشش کرے گا، خصوصاً سائبر اور الیکٹرونک وارفیئر کے نظام کو اپنا کر برتری حاصل کرسکتا ہے جس کے لئے اسٹرٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ کے دیگر ممبران سے بھی اسے امداد حاصل ہوگی جن میں اسرائیل، آسٹریلیا اور برطانیہ شامل ہیں۔ پاکستان کو اس معاملے پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے بلکہ حاصل شدہ صلاحیت میں مزید بہتری لانے کی سعی کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے ممبر ممالک کی مدد سے بھارت اپنی کمزوریوں پر جلد ہی قابو پا لے گا۔
معاشرتی و نفسیاتی عدم توازن
انیس سو سینتالیسء میں اعتدال پسند (موڈیریٹ) مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا کہ ’’جس کا نظام حکومت جمہوری ہوگا، جو قرآن و سنہ کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔‘‘ بعد میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973ء کے آئین میں اس بات پر مہر ثبت کردی تھی لیکن اس بڑے کام کی پاداش میں جلد ہی چار اے (چاراےایس) (امریکہ، آرمی، عدلیہ اور اتحادیوں) کے ناپاک گٹھ جوڑ نے انہیں اور جمہوریت دونوں کو منظر سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد 2007ء میں اس وقت معاملات بدترین شکل اختیار کر گئے جب امریکہ نے پاکستانی قوم کے نظریات کو تبدیل کرنے کے لئے 1.5 بلین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہماری قوم زیادہ تر سیکولر یا لبرل نظریات کی حامل ہوچکی ہے۔ اس کے سبب ’’معاشرے میں نفسیاتی سرکشی پیدا ہوئی ہے جو ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔‘‘ کچھ اسی قسم کی صورتِ حال 1965ء میں انڈونیشیا میں بھی پیدا ہوئی تھی جس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی تھی۔
امریکہ نے عالم اسلام کے خلاف سانحہ نائن الیون کے بعد پہلی صلیبی جنگ شروع کی جس میں افغانستان، عراق، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن جیسے مسلمان ممالک کو تباہ کردیا گیا۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مندرجہ ذیل گمراہ کن منطق کے تحت دوسری صلیبی جنگ کا آغاز کرنا چاہتے ہیں:
’’اسلام ایک متعدی کینسر ہے جو دنیا کے ایک بلین سات سو ملین لوگوں کے دلوں میں پھیل چکا ہے اور ہمیں اس کا ویسے ہی خاتمہ کرنا ہے جیسا کہ ہم نے کیمونزم اور نازی ازم کا کیا تھا۔ یاد رہے کہ ہم کسی فرقے کی بات نہیں کررہے بلکہ ہمارے مخاطب من حیث القوم تمام مسلمان ہیں۔‘‘ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل فلن (جنرل فلینن) کا یہ نظریہ ہے جو اب ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ نہیں ہیں اور انہیں روس سے تعلقات کے شبے میں فارغ کردیا گیا ہے۔
ٹرمپ کا اپنے ایشیائی محور کا حالیہ 9 روزہ دورہ اسی اسٹرٹیجی کا جائزہ لینے اور یقین دہانی حاصل کرنے کے لئے تھا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے کس طرح پہلے لبنان کو نشانہ بنایا جائے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے جزیرہ نما عرب کے اردگرد ایرانی اثرورسوخ کو ختم کردیا جائے۔ اس کارروائی کا اہم مقصد اسلام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے دفن کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے نقشے کو ازسرنو مرتب کرنا ہے۔ اگرچہ شرمناک پسپائی کے بادل امریکہ کے سر پر منڈلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجودوہ اپنے جارحیت کے مرکز کو محفوظ بنانے کے لئے افغانستان پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس فتنے کو وسعت دے کر افغانستان کو داعشتان بنا کے تمام علاقائی ملکوں کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کو گزشتہ تین دہائیوں سے کثیر الجہتی چیلنجز کا سامنا رہا ہے لیکن حکمرانی اور فیصلہ سازی کے عمل کی خرابیوں کے باوجود پاکستان سیاسی لحاظ سے مستحکم ہے اور قومی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ اب پاکستانی قوم کی نظریں 2018ء کے انتخابات پر ہیں جن سے ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مناسب مقام حاصل ہے جس کی بنیاد جارحیت نہیں بلکہ سیاسی و اقتصادی روابط ہیں جو اس دور کا مضبوط ترین اور کارگر ہتھیارہے اور پورے خطے کو بغیر جنگ لڑے پُرامن فضاؤں میں سانس لینے کا ماحول فراہم کرتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی نفسیاتی سرکشی ہماری اپنی پیدا کردہ ہے جس کے تدارک کے لئے ایک مضبوط معاشرتی اصلاحی نظام کی ضرورت ہے تاکہ صورتِ حال کو ابتری کی جانب جانے سے روکا جاسکے۔ یہ جمہوری نظام کہ جس کی شکل و صورت ہم نے اپنے ہی ہاتھوں بگاڑ لی ہے، اگر قائم رہا اور چلتا رہا تو فلاح کے راستے نکل آئیں گے۔

مطلقہ خبریں