Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تحریک لبیک اور ہمارے حکومتی ادارے

مرزا اسلم بیگ

تحریک لبیک کا اسلام آباد ایکسپریس وے پر تین ہفتوں سے جاری دھرنا پُرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوگیا لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے جن کے جواب حکومتی اداروں’حکومت’ عدلیہ اور فوج کو دینا ہیں۔تحریک انصاف کا دھرنا اور احتجاج کا سلسلہ کم و بیش چار سالوں سے جاری ہے لیکن اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا جبکہ تحریک لبیک نے محض تین ہفتوں میں اپنے مقاصد حاصل کر لئے۔ یہی امر حیران کن ہے جس سے حکومتی ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور میاں نواز شریف حیران ہیں کہ ‘‘تحریک لبیک کے دھرنے کے پیچھے کون تھا اور وہ کون تھا جس نے معاہدے کی شرائط طے کیں۔’’ لاہور ہائی کورٹ کیجناب جسٹس قاضی امین احمد نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ‘‘یہ فوج ہی ہے جس نے ملک کو بحران سے نکالا ہے۔’’
فوج کو اس لئے مداخلت کرنا پڑی کہ وہ سول نظام کا احترام کرتی ہے اور جنرل ضیاء4 کی طرح نہیں کہ جنہوں نے 1976ء4 میں ائر مارشل اصغر خان کو حکومت اور حزب اختلاف کے مابین کامیابی سے ہمکنار ہونے والیمذاکرات کو سبوتاڑ کرنے کیلئیبھیجا۔ جنہوں نے چیخ کر کہا کہ ‘‘ان مذاکرات کو بھول جائیں’ مجھے آرمی کی اعلی قیادت نے یقین دلایا ہے کہ وہ حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور نوے دنوں کے اندر اندر انتخابات کرادیں گے جس کے بعد ہماری حکومت قائم ہو جائے گی (جس میں وزارت عظمی کا تاج میرے سر پر سجے گا)۔’’اور پھر جنرل ضیاء4 نے اقتدار سنبھال کر بھٹو کو پھانسی دے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیض آباد والے واقعے سے معاشرتی و سیاسی نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور نظام حکمرانی میں ہم آہنگی پیدا ہوگی جو قومی مقصد حیات کے تحفظ کی ضامن ہوگی’ یعنی’ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کی بنیادقرآن و سنہ کے اصولوں پر مبنی ہوں گی۔
حکومت نے ختم نبوت کے حوالے سے آئین میں تبدیلی کا بل تیار کیا جسے دینی جماعتوں نے مسترد کر دیا اور حکومت نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے اسے درست کیا لیکن تحریک لبیک نے وزیر قانون اور ان کے رفقاء4 کار’ جو اس میں ملوث تھے’ سب کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کردیا جس پر حکومت نے توجہ نہ دی جودھرنے کا سبب بنی اوراسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان راستے بند ہو گئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت کو پولیس اور رینجرز کی مدد سے دھرنا ختم کرانے کے احکامات جاری کئے۔ توہین عدالت کے خوف سے حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف کاروائی شروع کی لیکن ناکام ہو کر ‘‘سول انتظامیہ کی مدد کیلئے’’ فوج کو بلانے کا فیصلہ کیا لیکن فوج نے طاقت استعمال کرنے کے بجائیدھرنے والوں سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرلئے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کیجناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا:
‘‘بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ فوجی قیادت نے آئین اور ملکی قوانین سے ماورا کردار ادا کیا ہے۔مسلح افواج ملکی انتظامیہ کا حصہ ہوتے ہوئے ملکی قوانین یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت حاصل اختیارات سے تجاوز نہیں کر سکتے۔چیف ایگزیکٹو کے احکامات کی تعمیل کی بجائے آرمی چیف صلح کار بن گئے۔شاید وہ سیاست کرنے کے خواہشمند ہیں’ بہتر ہوگا کہ ریٹائر ہوکر سیاست میں کردار ادا کریں۔’’
حیرت کی بات ہے کہ جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حال ہی میں اس مقدمے کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا تھا’جنہیں تمام معاملات سے مکمل آگاہی تھی ’وہ اب کس طرح وزیر داخلہ اور آرمی کوطاقت کے استعمال سے احتجاج ختم کرانے کا حکم دے سکتیتھے’ جبکہ حکومت اور فوج نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کوخوش اسلوبی سے سلجھا لیا کیونکہ پولیس اور رینجرز کے اکثرجوان مولانا خادم حسین رضوی کیبریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتیہیں جس سے ان کی جانب سے نافرمانی کا امکان تھا۔ بالکل اسی طرح فوج کا معاملہ بھی ہے جس نے1976ء4 میں پیش آنے والے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔
1976ء4 میں جب حزب اختلاف اورمذہبی جماعتوں کی زیرقیادت بھٹو حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو لاہور میں فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بلایا گیا اور احتجاج کو طاقت کے ذریعے کچلنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن احتجاجیوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی جس سے فوجیوں پرالٹے اثرات مرتب ہوئے اور انہوں نے احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا اور جنرل ضیاء4 کیلئے حکومت سنبھالنے کی راہ ہموار ہو گئی۔اسی طرح اسلام آباد میں بھی فوج کو بلایاگیا اورچیف جسٹس صاحب نے حکم دیا کہ فوج ہتھیار استعمال کئے بغیر احتجاجیوں کو ٹھڈے مار کروہاں سے بے دخل کردے۔ یہ خام خیالی تھی کیونکہ ‘‘بندوق کے بل بوتے پرہی فوج حالات پر قابو پا سکتی ہے۔’’ مثلا 1958ء4 سے اب تک فوج نے بلوچستان’ سوات’دیر’ باجوڑ’ وزیرستان او رفاٹا میں درجن بھر آپریشن کرکے ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے جو مجموعی طور پرملک کے چالیس فیصدعلاقے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں سول انتظامیہ نے ذمہ داری نہیں سنبھالی جس کے سبب ابھی تک حکومتی رٹ قائم نہیں ہو سکی ہے جو سیاسی اور سماجی انصاف سے مذاق کے مترادف ہے۔حیرت کی بات کہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کی کسی بھی قابل احترام عدالت نیاس خرابی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی اور یہ فوج ہی ہے جو ان علاقوں کا انتظام بھی چلا رہی ہے اوراپنی پسند کی سیاست بھی کر رہی ہے۔
1979ء4 میں جب جنرل ضیاء4 سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد پر آمادہ تھے تو انہوں نے تمام فارمیشن کمانڈروں کو ہدایت کی کہ معلوم کرو کہ بھٹو کی پھانسی کی صورت میں فوج کاکیا رد عمل ہوگا۔ تمام شرکاء4 کی رائے سیاختلاف کرتے ہوئیمیں نے کہا کہ ‘‘بھٹو کو پھانسی دینا ایک خطرناک سیاسی گناہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں ایک تو پنجاب اور سندھ کے درمیان دیرپا بداعتمادی پیدا ہوگی اور ایسا سیاسی انتشار پھیلے گا جسے ٹھیک کرنا محال ہوگا۔بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلاوطن کردیا جائے کیونکہ بہت جلد ہمیں ان کی ضرورت پڑے گی۔جہاں تک فوج کے رد عمل کا تعلق ہے تو آپ کو لاہور میں رونما ہونے والا واقعہ یاد ہوگاجب تین بریگیڈکمانڈروں نے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار کر دیا تھا۔ لہذاموجودہ حالات میں فوج کے رد عمل کی میں کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔’’ میریاس بیان پر میرے کور کمانڈرمجھ پر سخت برہم ہوئے اور فوراکانفرنس ختم کرکے جنرل ضیاء4 کو فون کیا کہ مجھے کمان سے ہٹا دیا جائے اور چند ماہ بعد مجھے کمان سے ہٹا دیا گیا۔ میں بھی توسیاست کر رہا تھا اوراسی طرح مسلح افواج کیتینوں سربراہوں نے 17 اگست 1988ء4 کو حکومت و اقتدارعوام کے حوالے کردیا تھا’ وہ بھی تو سیاست کر رہے تھے کیونکہ عسکری قیادت کو ایسے موقعوں پر سیاست کرنا ضروری ہوتا ہے۔
جہاں تک تحریک لبیک اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے’ان میں موجودہ سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی نئی سیاسی سوچ پیدا ہوئی ہے اوراب مذہبی جماعتیں قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کیلئے کام کر رہی ہیں جبکہ ماضی میں وہ غیروں کیلئے کام کیا کرتی تھیں۔مثلا 1953ء4 میں انہوں نے تحریک چلائی اور جنرل ایوب کیلئے اقتدار پر قبضہ کر لینے کی راہ ہموار کی اور 1976۔77ء4 میں انہوں نے جنرل ضیاء4 کی مدد کی تھی لیکن اب انہوں نے بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ خود اقتدار کا حصہ بن سکیں۔مولانا سمیع الحق پہلے ہی تحریک انصاف سے الحاق کر چکے ہیں جبکہ جماعت اسلامی جلد تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے والی ہے۔تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے کیا جانے والا فیصلہ اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس صورت میں موجودہ سیاسی طاقت کے توازن میں ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہوگی۔عمران خان نیتحریک لبیک اور فوج کے حق میں آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔وہ دینی جماعتوں کے قومی سیاسی دھارے میں لانے کی تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد کا دھرنا اندرون ملک نظریاتی تصادم کے خطرے کے خلاف ایک مثبت تعمیری قدم ثابت ہوا ہے جس سے ترکی کیصدر نے اپنے دورے کے دوران خبردار کیا تھا۔ا نہوں نیافغانستان کو داعشتان میں تبدیل کرنے کی سازش سے بھی آگاہ کیا تھا۔ پاکستان’ ایران اور افغانستان کے مابین ابھرتے ہوئے اتحاد سے اس سازش سے بھی نمٹا جا سکے گا۔انشاء4 اللہ۔ ان دونوں خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ فوج نہ تو شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتی ہیاور نہ ہی مفروضات کی بنیاد پراسے عمومی مسائل میں الجھایا جاسکتا ہے۔اس معاملے میں فوج زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے عمل پیرا ہوئی ہے۔قومی مقاصد کے حصول کی خاطرفوج نے ہمیشہ فرض شناسی اور جذبہ قربانی کے ساتھ حقائق کا سامنا کیا ہے جس کی قیمت انہوں نے اپنے خون سے ادا کی ہے جس سے ہمارے قومی نظریہ حیات کوحیات جاوداں نصیب ہوئی ہے۔ہمارا نظریہ حیات ہے‘‘ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا جس کی بنیادی قرآن و سنہ کے اصولوں پر مبنی ہوں گی۔’’ملکی سیاست میں ایک بڑی نمایاں تبدیلی آ رہی ہے’ جس کو سنبھالنا اس قدر آسان نہیں ہوگا کیونکہ چند اندرونی و بیرونی قوتوں کیلئے سیاسی اسلام قابل قبول نہیں ہے۔ لہذا اس راستے پر چلنے کیلئے انتہائی احتیاط اور تدبر کی ضرورت ہے جیساکہ عظیم دانشورمیکاولی(میچاوللی ) نے کہا ہے کہ ‘‘کسی بھی نئے نظام کو شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اسے منتقی انجام تک پہنچانا بڑا مشکل کام ہے۔’

مطلقہ خبریں