Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اقبال بڑا اُپدیشک ہے۔ ۔

میر افسر امان

میں نے شورش کاشمیری کی کتاب فیضانِ اقبال سے مطالعہ کے دوران فیض حاصل کرتے ہوئے، علامہ اقبال کی یہ بات پڑھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے شعر کا خود مطلب بیان نہیں کرتا کہ اس طرح حدبندی ہوجائے گی۔ میرے شعر کو ہر کوئی اپنے مزاج اور سوچ کے مطابق سجھے۔ دوسری جگہ کہتے ہیں کہ میرے شعر کو سمجھنے کے لئے پہلے قرآن اور سنت کو سمجھنا چاہئے۔ میرا شعر تب سمجھ میں آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ اپنے کو سمجھانے کے لئے راست بند نہیں کرتا بلکہ راستے کھلے رکھتا ہے تاکہ نئے نئے انداز سے نئے نئے وقتوں میں علامہ اقبالؒ کو لوگ اپنی بصیرت اور قرآن و سنت سے لگاؤ کے ذریعے سمجھیں۔ یہ ایک آفاقی کلیہ ہے جیسے فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ نے لوگوں کے سامنے رکھا۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ علامہ اقبالؒ خود قرآن اور سنت میں غرق تھا اور لوگوں کو بھی اسی کی نصیحت کرتا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبالؒ نے امت مرحومہ کو جگانے کی کوشش کی تھی۔ صلیبیوں کی ریشہ دوانیوں پر گرفت کر کے ان کی خرابیوں سے امت کو ہوشیار کیا۔ صاحبو! اقبال نے اس وقت امت مسلمہ کو جھنجھوڑا جب وہ مختلف صلیبی قوموں کی غلامی میں جھکڑی ہوئی تھی۔ استعمار نے مسلمانوں کو اسے اپنی اصل سے بے گانہ کرنے کی تدبیریں کر رکھی تھیں۔ وہ تدبیریں کیا تھیں۔ برصغیر جس پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی تھی اس میں برطانوی استعمار مسلمانوں پر حکومت کر رہا تھا۔ اس نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا۔ اس لئے وہ مسلمانوں کو دبا کر رکھتا تھا اور ان کے دشمن ہندوؤں کو آگے آگے رکھتا تھا۔ شاید اسے اس چیز کا ڈر تھا کہ کہیں وہ پھر اس سے اقتدار چھین نہ لیں۔ جب وہ برصغیر میں پہلے پہلے قدم جما رہے تھے تو اپنے لوگوں کو ہدایت دی تھی کہ مورو (یعنی مسلمانوں) کو قتل کرو۔ اور ہندوؤں کو سرکاری کاموں پر لگاؤ۔ اسی طرح افریقہ میں مسلمانوں کو فرانسیسی صلیببی استعمار نے غلام بنایا ہوا تھا۔ عرب میں لارنس آف عریبیہ جیسی پُراسرار شخصیت مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوں کو قوم پرستی کے جال میں پھنسا رہی تھیں۔ ان سب سامراجیوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ ان استعماری قوتوں نے اپنے مصاحب میں پہلے ایسے لوگ پیدا کیے جو ان کی نکالی کر کے واپس اپنے لوگوں کو اس نکل پر چلنے پر تیار کریں اور بلآخر عام مسلمان بھی اسی طرح کے ہوجائیں۔ اس ہی تصویر کشی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ؂
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
استعمار نے اپنی آقائی خصلتوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بے یقینی جیسے حالات پیدا کر دیئے تھے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علامہ اقبال ؒ مسلمانوں کے ترجمان بن کے سامنے آئے۔ ان کی اس ہی خوبی کی وجہ سے مسلمان انہیں شاعرِ اسلام کے لقب سے بھی نوازتے ہیں۔ شاعرِ اسلام نے اپنی قوم کو اپنے شعر میں اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل اپنی مسلمان قوم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ؂
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا تو غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
کہ اے میری قوم کے رہبرو، ناصح، اُستادوں اورواعظ کرنے والوں۔۔ تم بڑے اُپدیشک ہو۔ محراب و ممبر سے ایسی باتیں کررہے ہو کہ تم عام مسلمانوں کے دل موہ لیتے ہو۔ مگر تمہارا یہ صرف ناصح، اُستاد اور واعظ والا کردار، وہ کردار نہیں ہے، جسے تمہارے لئے تم تمہارے رب نے تجویز کیا تھا۔ تمہارا کردار وہ ہونا چاہئے جو قرآن حکیم اور سنتِ رسولؐ اللہ سے ملتا ہے۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ خلیفہ ایسا جیسے دنیا کی حکومتیں کسی صوبے کا کسی کا گورنر بنا کر بھیجتی ہے۔ اس کا کام حکومت کی پالیسیوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کا، اللہ کی اس زمین میں خلیفہ ہے۔ اس کا کام صرف یہ کہ وہ اللہ کے احکامات کو اللہ کے بندوں پر نفاذ کرے۔ اگر انسان یہ کام کرے تو، شیطان اور اس کے چیلوں نے جس دنیا کو دکھوں سے بھر دیا ہے اس کو جنت کا نمونہ پیش بنا دے۔ علامہ اقبالؒ اس لئے کہتا ہے کہ خلیفہ ہے تُو بڑا اُپدیشک کہ اپنے واعظ کر کے، لوگوں کو من باتوں میں موہ لیتا ہے۔ مگر تُو صرف گفتار کا ہی غازی ہے۔ کردار کا غازی نہیں ہے اور نہ ہی تُو امت مسلمہ کو کردار کا غازی بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت کو اگر ہم ایک مثال سے سمجھیں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔ وہ اس طرح کہ، ایک شخص اپنی اولاد کے لئے ایک بہت ہی بڑا باغ چھوڑ کر گیا۔ اس کی اولاد ہر وقت اپنے والد کے باغ کی تعریفیں کرتی رہی ہے۔ ایک بیٹا کہتا ہے میرے والد نے اس باغ کے درخت بیرونی دنیا سے منگوایا تھے جو بہترین پھل دیتے ہیں۔ دوسرا بیٹا کہتا کہ اس باغ کی زمین کے لئے میرے والد نے پانی کی نہر اتنے دور سے لائی تھی جو اس کو سہراب کرتی ہے۔ اس طرح کی اپنے والد کے باغ کی تعریفیں کرتے کرتے تھکتے نہیں۔ مگر اس باغ کے پھلدار درختوں میں کیڑا لگ رہا ہے۔ اس کے درخت پانی کی کمی کی وجہ سے وقت سے پہلے سوکھ رہے ہیں۔ باغ میں خزاں کا سا سماں ہے۔ کیا امت مسلمہ اس فریب میں مبتلا نہیں رہی؟ کہیں فرقہ بازی کی تقریریں ہو رہی ہیں۔ کہیں نور بشر کے قصے چھڑے ہوئے ہیں۔ کہیں کہا گیا درود سلام ایسے پڑھنا چاہئے ایسا نہیں۔ کہیں کہا گیا دین میں سیاست کا دخل نہیں۔ امت مسلمہ کا اُپدیشک واعظ ایسی من موہ لینے والی باتوں میں غافل امت کے منہ، موہ لیتا ہے۔ اس طرح گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے مگر کردار کا غازی نہیں بنتا۔ جو کام زمین میں خلیفہ بنا کر اس کے اللہ نے اس کے ذمے لگایا ہے۔ یعنی اصل کام اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی باتیں نہیں کرتا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے بتایا، اے امت کے اُپدیشک واعظ، تمہیں اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے مہمیز کہاں سے ملے گی۔ شعر کی زبان میں اس طرح کہتے ہیں ؂
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لو قلم تیرے ہیں
جس طرح رسولؐ اللہ نے، اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے کام کیا۔ اے اُپدیشک خلیفہ اگر تو ایسا ہی کرے گا تو محمدؐ سے وفا کرے گا۔ یعنی اگر تُو اللہ کے دین کو قائم میں لگا ہوا ہوگا تو، تُو اللہ کے پیغمبر ؐ سے وفا کررہا ہوگا۔ اور اگر تو اللہ کے پیغمبرؐ سے وفا کرے گا۔ تو اس جہاں کی باگ دوڑ بھی تمہیں ملے گے اور آخرت میں تو، تُو ہی سرخ رُو رہے گا۔ اور ہاں اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے نہ سوچ کہ میرے پاس اتنا مال، دولت اور وسائل ہوں گے تو میں جدوجہد کروں گا۔ نہیں نہیں! جس حالت میں ہو، اسی میں ہی اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لئے کام شروع کر دو۔ غریبی یعنی وسائل کی کمی میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی کرو۔ کیا فرعون اور موسیٰؑ کے حالت تم تک نہیں پہنچے۔ کیسے دنیا کے سامنے، اللہ نے برسوں سے دبی ہوئی غلام بنی اسرائیل قوم کو فتح نصیب فرمائی۔ وسائل کے خزانوں اور قوت سے بھرپور متکبر فرعون کو دنیا کے سامنے غرق کردیا۔ اس پوزیش کو علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں بیان کیا ہے ؂
مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
صاحبو! علامہ اقبال ؒ کے کہنے کے مطابق، علامہ اقبالؒ کو سمجھنے کے لئے پہلے اللہ کے قرآن اور رسولؐاللہ کی سیرت کو سمجھنا ہو گا۔ اس سے علامہ قبالؒ ، امت کو ایک طرح سے اللہ کے قرآن اوررسولؐاللہ کی سیرت کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہم نے علامہ اقبالؒ کو ، اپنے اس کالم میں،قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے علامہ اقبالؒ کو فیضانِ اقبال کتاب، جواس کے شیدائی شورش کاشمیری نے لکھی ہے میں دیے گئے، علامہ اقبال ؒ کے بیان کیے گئے کلیہ کے مطابق ان کے ایک شعر ؂
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا تو غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
کی تشریع کرنے کی کوشش کی ہے۔ پسند آئے تو میرے حق میں دعا کریں۔ اگر تشریح صحیح نہ ہو تو پھر بھی دعا کریں کہ میں علامہ اقبالؒ کو قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھنے کی مزید کوشش کروں-آمین

مطلقہ خبریں