Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گوادر بندرگاہ پر پاک بحریہ کی مضبوط گرفت

نغمہ حبیب
گوادر ملک کی اہم بندرگاہ تو ہے ہی، لیکن اس کی بین الاقوامی اہمیت بھی کچھ کم نہیں، یہ تین اہم خطوں یعنی وسط ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور ساتھ ہی دنیا کے دو تہائی تیل کے علاقے سے بھی قریب ترین ہے۔ ایشیا میں اس طرح کی بندرگاہ اس لئے بھی اہم ہوجاتی ہے کہ بہت بڑا براعظم ہونے کی وجہ سے اس میں لینڈ لاکڈ ممالک کی بڑی تعداد ہے۔ کیسپیئن کے اردگرد واقع ریاستیں بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ چین کے اندر ہی کاشغر کا فاصلہ شنگھائی کی بندرگاہ سے 4 ہزار 500 کلومیٹر ہے، لیکن یہی فاصلہ گوادر سے 2 ہزار 800 کلومیٹر ہے، یہ امر اس بندرگاہ کو مزید اہم بنا دیتا ہے۔ یوں یہ بندرگاہ ان علاقوں اور ملکوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی اہل ہے۔ گہرے پانی کی اس بندرگاہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستان نے اسے تعمیر کرنے اور ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس کی نشان دہی 1954ء میں ہی ہوگئی تھی اور جب 1958ء میں پاکستان نے اسے مسقط سے خریدا تو تب سے ہی یہاں مچھلی بندر اور چھوٹی بندرگاہ کام کررہی تھیں، تاہم اس پر باقاعدہ وسیع پیمانے پر کام 2007ء میں شروع ہوا۔ یہ بندرگاہ 2012ء تک پورٹ آف سنگاپور کے پاس رہی، تاہم غیرتسلی بخش کارکردگی کے باعث اسے اس کمپنی سے لے کر 2013ء میں چین کی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کو دے دیا گیا، جس نے کام کی رفتار کو تیز کیا۔ جب سے یہ عمل شروع ہوا، بھارت بھی انتہائی متحرک ہوگیا۔ یہ بندرگاہ تجارتی اور دفاعی دونوں لحاظ سے اہم ہے۔ اس کی تجارتی اہمیت کم کرنے کے لئے بھارت نے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو تعمیر کرنے اور اسے ترقی دینے کی مہم کا آغاز کیا، یہ ایک چھوٹی سی غیر اہم بندرگاہ تھی لیکن گوادر پر کام شروع ہونے کے بعد بھارت نے ایران کو اس کی تعمیر کے لئے 85 ملین کی مدد دینے کا اعلان کیا۔ چاہ بہار سے افغانستان تک سڑکیں بنوائیں، جن میں 217 کلومیٹر لمبی زرنج دلارام روڈ بھی شامل ہے۔
گوادر کی سیکیورٹی خاص توجہ کی طالب ہے، اس بندرگاہ میں کئی خلیجیں اور جزائر موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک کی سیکیورٹی انتہائی اہم ہے۔ پاک بحریہ ملکی بحری سرحدوں پر انتہائی مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے اور گوادر پر بھی یہ اسی طرح چوکس ہے، تاہم اس سیکیورٹی کو مزید سخت بنانے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔ پی این ایس اکرم 1983ء سے گوادر میں اس ساحل کی حفاظت کے لئے موجود ہے، لیکن سی پیک کا اعلان ہونے کے بعد گوادر کی اہمیت بڑھ جانے کی وجہ سے ظاہر ہے دشمن کے ناپاک ارادوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، وہ ہر طریقے سے اس بندرگاہ کو ناکام کرنے کے لئے سرگرم ہے، لہٰذا پاکستان نیوی نے بھی اپنی نفری اور انتظامات کو وسعت دی ہے، اسی سلسلے میں پی این ایس صدیق اس وقت تربت میں موجود ہے، اس پر جدید قسم کے جہاز ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اسی طرح پسنی میں پی این ایس مکران جدید جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ساتھ کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہے اور یہ تمام مسلسل میری ٹائم ہیڈکوارٹرز سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لئے پاک بحریہ نے میری ٹائم سیکیورٹی ٹاسک فورس 88 دسمبر 2016ء میں قائم کی، یونٹ 3 اور 4 بھی بنائے جبکہ کوسٹل سیکیورٹی اینڈ ہاربر ڈیفنس فورس بھی قائم کی گئی۔ یوں پاک بحریہ نے گوادر کی بندرگاہ کو بڑی حد تک دشمن کی پہنچ سے محفوظ بنالیا ہے۔
سی پیک پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا اور یہی بھارت کے لئے باعث تشویش ہے۔ وہ بحیرۂ عرب اور بحرہند میں برتری کا جو خواب دیکھ رہا ہے، وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ سی پیک منصوبہ شروع ہونے کے بعد ان سمندری حدود میں بھارتی سرگرمیاں بھی رپورٹ کی گئیں اور ایسی ہی سازشوں کے توڑ کے لئے پاک بحریہ کو وسیع حفاظتی انتظامات کرنے پڑے۔
اس وقت پاک بحریہ کے مستعد جوان جدید دفاعی انتظامات کے ساتھ بندرگاہ، مچھلی بندر، ہیمرہیڈ اور کوہ باطل پر ہر طرف موجود ہیں اور دشمن کے ناپاک ارادوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ گوادر اگرچہ ایک خالصتاً تجارتی بندرگاہ ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر پاک بحریہ یہ تمام اقدامات کررہی ہے۔ نیوی کے افسر اور سیلرز فی الوقت اس غیرآباد، غیرترقی یافتہ علاقے میں تمام شہری سہولتوں سے دْور رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اسی سلسلے میں ایک نیول بیس بھی بن رہا ہے، جسے پاک بحریہ اور پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کی وہ یونٹیں استعمال کریں گی، جو گوادر کی حفاظت کے لئے یہاں اپنے فرائض سرانجام دیں گی۔ کسی بیرونی بحریہ کو یہ بیس استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم کسی بھی ملک کے بحری جہازوں کو یہاں انے کی اجازت ہوگی۔ یوں ناصرف ان تمام حفاظتی انتظامات کی ذمے داری پاک بحریہ پر ہوگی، بلکہ ان کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں رہے گا۔
گوادر کی اہمیت اس وقت بین الاقوامی طور پر بھی بہت ہے، امریکا کو اس پر اس لیے تشویش ہے کہ چین کے ’’اسٹرنگ ا?ف پرل‘‘ سلسلے کی اس کڑی کے ذریعے اس کی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ مختصرترین راستے سے چین تک پہنچے گا اور بھارت کو اس لیے فکرہے کہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کی تعمیر کے بعد کراچی کی بندرگاہ پر بوجھ بھی کم ہوگا اور وسط ایشیائی ممالک بھی اس بندرگاہ سے اپنی سمندری تجارت میں اضافہ کرسکیں گے جو پاکستان کے لیے حصول زرمبادلہ کا ایک بہتر ذریعہ ہوگا۔ اگرچہ یہ تجارتی بندرگاہ ہے لیکن دفاعی لحاظ سے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ جنگ کے حالات میں اگر بالفرض محال بھارت کراچی کی بندرگاہ پر ناخوشگوار صورت حال پیدا کرتا ہے یا اس کو بلاک کرتا ہے تو گوادر پورٹ اس کی پہنچ سے بہت دْور ہے اور اس صورت میں پاکستان اپنی سمندری حدود کی بہتر طور پر حفاظت کرسکتا ہے۔ یوں اس بندرگاہ پر بحری افواج کی موجودگی ناصرف بہتر بلکہ ضروری ہے تاکہ ایک طرف تجارتی مفادات کا تحفظ ہوسکے اور دوسری جانب ملک کا سمندری دفاع بھی مضبوط ہو اور ساتھ ہی بحیرہ عرب میں دشمن کی نقل و حرکت پر بھی مسلسل نظر رکھ کر انہیں محدود کیا جاسکے۔

مطلقہ خبریں