Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا اجلاس اور پاکستان

سید زین العابدین

نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کو مئی 1974ء میں بھارتی نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد نومبر 1975ء میں قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو ممالک نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں دسترس رکھتے ہیں وہ اسے پُرامن مقاصد کے لئے استعمال کریں مگر ہتھیاروں کی تیاری اور عسکری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے استعمال نہ کریں۔ این ایس جی میں کسی ملک کی شمولیت کے لئے شرط عائد کی گئی کہ وہ ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے نان پرولیفیراشن  ٹریٹی (این پی ٹی) پر دستخط کرے اور تنظیم میں شامل ہوجائے۔ یکم جولائی 1968ء کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے اس پر دستخط کئے جبکہ اسرائیل، بھارت اور پاکستان نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ 2011ء میں آزادی حاصل کرنے والا ملک ساؤتھ سوڈان بھی این پی ٹی میں شامل نہیں ہے۔ آج کے دور میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے سب سے زیادہ خبر میں رہنے والا ملک نارتھ کوریا این پی ٹی میں شامل رہا لیکن 2003ء میں وہ علیحدہ ہوگیا تھا۔
این پی ٹی کا ہدف یہ تھا کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو محفوظ توانائی کے حصول اور دیگر پُرامن مقاص کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ رکن ممالک نئی تحقیقات اور معلومات ایک دوسرے کو منتقل کریں۔ نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والے ممالک اپنے ہتھیاروں کو تلف کریں۔ این پی ٹی معاہدہ 5 مارچ 1970ء سے فعال ہوا۔ ہر 5 سال بعد اس کی ریویو کانفرنس نعقد ہوتی ہے۔ تنظیم کا اندازہ تھا کہ قیام کے بعد 25 سے 30 برس میں نیوکلیئر عدم پھیلاؤ پر بہت کام ہوگا اور دنیا کے تمام ملکوں کو اس میں شامل کرلیا جائے گا لیکن 49 سال گزرنے کے بعد 4 ممالک اس میں شامل نہیں ہیں اور ایک نے 2003ء سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہوا ہے۔ این پی ٹی نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والے رکن ممالک سے تلف کرانے میں بھی ناکام رہی۔ چین، روس، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے پاس اب بھی 22000 وار ہیڈز موجود ہیں۔ یعنی این پی ٹی ایٹمی عدم پھیلاؤ، ہتھیاروں کے تلف، پُرامن ایٹمی ٹیکنالوجی پر سب کا حق جیسے تین بنیادی مقاصد میں اب تک ناکام رہی ہے۔
این پی ٹی میں پروفیسر کلاودی زانججیر کی سربراہی میں 15 نیوکلیئر ایکسپورٹ ممالک کی کمیٹی بنی تھی جسے نیوکلیئر ایکسپورٹ کمیٹی یا زانججیر کمیٹی کہا جاتا ہے۔ یہ این پی ٹی کے آرٹیکل II کے مطابق بنی تھی جس کا مقصد ایٹمی مواد خصوصاً فیوژن، ایٹمی آلات، جو کارآمد ہوں یا تکمیل کے مراحل میں ہوں، اُن نان نیوکلیئر ممالک کو دیئے جاسکتے ہیں جو ایٹمی ٹیکنالوجی کو پُرامن مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر این پی ٹی کے آرٹیکل میں درج حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی کے بعد نانججیر کمیٹی نے تمام ایٹمی ٹیکنالوجی کی فہرست کو مرتب کیا اور اُسے وقت گزرنے کے ساتھ ازسرنو ترتیب دیا تاکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کا ہدف حاصل کیا جائے۔ ہم بات کررہے تھے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ابتدا میں اس کے ممبرز ممالک امریکہ، کینیڈا، مغربی جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ اور روس تھے۔ 1976-77ء میں مزید 15 ممالک شامل ہوئے۔ اب اس میں شامل ملکوں کی تعداد 48 تک پہنچ چکی ہے۔
این ایس جی کے قیام کا مقصد ایٹمی عدم پھیلاؤ تھا مگر اس میں شامل کچھ طاقتور ملکوں نے خطے کی سیاست کو اہمیت دی اور تزویراتی (اسٹریجک) ہدف کو فوقیت دی، این ایس جی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت جیسے جارحانہ عزائم رکھنے والے ملک کی شمولیت کی حمایت کی حالانکہ بھارت نے اب تک این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2010ء میں نئی دہلی کے دورے میں بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی حمایت کی۔ دسمبر 2010ء میں فرانس کے سابق صدر سرکوزی دہلی گئے تو انہوں نے بھی این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کا ذکر کیا۔ برطانیہ تو پہلے ہی سے اس معاملے پر بھارت کی حمایت کرتا رہا ہے۔
26 جنوری 2015ء کو بھارتی یوم جمہوریہ پر باراک اوبامہ پھر دہلی آئے اور ایک مرتبہ پھر بھارت کو این ایس جی میں شامل کرنے کی بات کی۔ اس طرح روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے بھی بھارت کی شمولیت کی غیرمشروط حمایت کی۔
6 جون 2016ء کو جب مودی سوئٹزلینڈ کے دارالحکومت جنیوا گئے تو سوئس حکومت نے بھارت کو این ایس جی میں شامل کرنے کی حمایت کی، 8 جون 2016ء کو مودی جنیوا سے واشنگٹن پہنچے تو اوبامہ نے ایک مرتبہ پھر بھارت کی حمایت کی۔ اسی طرح جاپان نے بھی بھارت کی حمایت میں بیان دیا۔ البتہ چین نے این ایس جی میں شمولیت پر ہمیشہ بھارت کی مخالفت کی کیونکہ بھارت نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے پڑوسی ممالک کے خلاف جارحانہ اقدامات اور بیانات ایسے ہیں جس کی بنا پر بھارت کی مخالفت اصول پر مبنی ہے۔ اس طرح این ایس جی کے ممبر ممالک نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور آسٹریا نے بھی بھارت کی انہی حرکتوں کی وجہ سے مخالفت کی ہے۔
پاکستان نے این ایس جی میں شامل ہونے کی درخواست 19 مئی 2016ء کو دی تھی جس کی چین اور ترکی نے حمایت کی۔ قازقستان اور بیلاروس نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔ امریکہ نے الاعلان پاکستان کا ساتھ نہیں دیا تو مخالفت بھی نہیں کی۔
جولائی 2006ء میں امریکی کانگریس نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت سے سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا اور 21، 22 اگست 2008ء کو این ایس جی کے اجلاس میں بھارت کو تنظیم کے قوائد و ضوابط میں چھوٹ دینے کی بات کی، جس پر سوئٹزرلینڈ، ناروے، آئرلینڈ اور نیوزی لینڈ نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔
این ایس جی کا اجلاس اگلے سال سوئٹزرلینڈ میں ہوگا۔ رکن ممالک بھارت اور پاکستان کو شامل کرنے پر غور کریں گے۔ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل این ایس جی کے ممبر ممالک بھارتی جارحانہ رویے پر غور کریں تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی، بھارت لائن آف کنٹرول کی مستقل خلاف ورزی کررہا ہے، اس کی عسکری قیادت پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ اور دھمکیاں دیتی ہے۔ حال ہی میں بھارتی آرمی چیف نے کہا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کو نشانہ بنا سکتے ہیں یعنی بھارتی فوج خطے میں ایٹمی جنگ کرنے کی تیاری کررہی ہے جبکہ این ایس جی کا ہدف یہ ہے کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف آمادہ کیا جائے اور محفوظ بنایا جائے، بھارت پاکستان کو دھمکی دینے کے ساتھ اپنے پڑوسی ملک چین سے بھی الجھ رہا ہے۔ 16 جون 2017ء کو 270 بھارتی فوجی سکم بارڈر ایریا کے علاقے ڈوکلام میں چین کی حدود میں ہتھیاروں اور بلڈوزرز کے ساتھ داخل ہوگئے اور چینی فوجیوں پر حملہ کیا جو سڑک کی تعمیر میں مصروف تھے۔ چینی اس حملے کے لئے تیار نہ تھے مگر سنبھلتے ہی انہوں نے بھرپور جواب دیا۔ 28 اگست تک بھارت کی وجہ سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلاتے رہے پھر بھارتیوں نے خوفزدہ ہو کر اپنے غیرقانونی اقدام پر نظرثانی کیا جس کے بعد حالات نارمل ہوئے۔ بھارت پڑوسی ممالک سے جارحانہ انداز اپنانے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ پیلٹ گن سے احتجاج کرنے والوں کو ہدف بنا رہا ہے، بھارتی فوجی خواتین کی بے حرمتی کررہے ہیں اور اب تو ظلم کا ایک اور طریقہ اختیار کر رکھا ہے خواتین کی سر کے بال کاٹے جارہے ہیں۔ این ایس جی کے ممالک بھارتیوں کا رویہ دیکھ لیں اور دوسری جانب پاکستان کو دیکھ لیں جو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ 70 ہزار جانوں کی قربانی کے ساتھ اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی برداشت کر چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی سائنسدانوں اور ماہرین کا تجزیہ بھی کیا جائے تو پاکستان بھارت سے کہیں بہتر ہے جس کا اظہار انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ماہرین بھی کر چکے ہیں۔ چشمہ پاور پلانٹس 1، 2 اور 3 جدید ٹیکنالوجی کے مطابق کام کررہے ہیں۔ پریشرائیز وائر ریکٹر (پی ڈبلیوار) ٹیکنالوجی کے یہ پاور پلانٹس 90 فیصد سے زائد پیداوار دے رہے ہیں۔ جو ایوریج کے اعتبار سے بہترین کارکردگی ہے۔ آئی اےای اے کے ماہرین اپنے سالانہ دورے کے دوران تینوں پاور پلانٹس کی تعریف کرتے رہے ہیں بلکہ ان پراجیکٹس کو نیوکلیئر پاور پلانٹس چلانے والے دیگر ممالک کے سامنے ریفرنس کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح کینپ جو (ایچ ڈبلیو ار) ہیوی وائر ریکٹر ٹیکنالوجی ہے، اُسے بھی ہمارے ماہرین گزشتہ 45 سال سے کامیابی سے چلا رہے ہیں اور کے 2، کے3 کو مزید بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ نصب کیا جارہا ہے۔ ہمارے نیوکلیئر سائنسدانوں اور ٹیکنیشنز کی مہارت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کو این ایس جی میں شامل کیا جائے تاکہ ہمارے ماہرین دیگر ملکوں کے ماہرین کی تحقیقات اور تجربات سے نہ صرف استفادہ کریں بلکہ اپنے تجربات رکن ممالک سے شیئرز کرسکیں۔

مطلقہ خبریں