Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک چین دوستی زندہ باد۔۔ وان سوئے وان سوئے وان وائے

ڈاکٹر شائستہ تبسم

ایک ایسی دنیا میں جہاں تشدد، جنگ و دشمنی کا ماحول ہو ایسے میں دو ممالک جو نظریاتی لحاظ سے یکسر مختلف ہوں لیکن ان کی دوستی دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہو وہ پاک چین دوستی ہے۔ پاکستان اور چین نہایت قریبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی تعلقات کی بنا پر دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات پچھلی سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس تعلق کی جڑیں نہایت گہری اور پائیدار ہیں جوکہ یقیناً دونوں ممالک کی قیادت کی سمجھ بوجھ اور مستقبل کے مشترکہ نقطہ نظر کی وجہ سے ممکن ہوسکی ہے۔ پاک چین دوستی کی ابتدا 21 مئی 1951ء سے ہوئی۔ پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ اس سفارتی پیش قدمی کو چین نے کبھی نہ بھلایا۔ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار چڑھاؤ کے باوجود قائم و دائم ہے۔ دراصل اس تعلق کو شروع ہی سے ایک دوسرے کی عزت اور ملکی مفادات کو محترم رکھنے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا لہٰذا دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی حمایت کی۔ بھارت کی چین کے ہاتھوں 1962ء کی جنگ میں شکست سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اسی زمانے میں پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی حدبندی کی بات چیت شروع ہوئی۔ دراصل اس وقت چین بھی دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ وہ اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ مناسب اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ کی بھارت کو فوجی امداد نے پاکستان کو اتحادی بننے کی پالیسی سے بیزار کر دیا تھا۔ پاکستان یہ جان چکا تھا کہ بھارت کے امریکی ہتھیار نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دنیا میں ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی اپنانے کا خواہشمند بھی تھا۔ انہی ساری وجوہات نے پاکستان اور چین کو بہت قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرحدی حد بندی کے معاہدے پر مارچ 1963ء میں دستخط ہوئے۔ جس کے تحت پاکستان نے 1,942 کلومیٹر مربع میل کا سرسبز علاقہ حاصل کیا۔ اس معاہدے پر بھارت نے سخت اعتراض کیا۔ پاکستان اور چین نے فضائی تعاون کا معاہدہ بھی کیا جس کے تحت ڈھاکہ کینٹن (گوانک ھاؤ) شنگھائی فضائی سروسز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس معاہدے کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ تھی کیونکہ پاکستان سے اس معاہدے کی بنا پر چین نے ان تمام کوششوں کو پسِ پشت ڈال دیا تھا جو بین الاقوامی سطح پر چین کو تنہا کرنے کے لئے کی جارہی تھیں۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی چین سے دوستی نے بھارت پر ایک دباؤ رکھا۔ جب 16 ستمبر کو چین نے بھارت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر تین دن کے اندر بھارت نے سکم چین سرحد سے اپنی فوج نہ ہٹائی تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ اس وقت چینی الٹی میٹم نے مغربی پاکستان کے سیالکوٹ سیکٹر سے فوجی دباؤ کم کرنے میں مدد کی۔ اس چینی پالیسی سے روس اور امریکہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئی اور دونوں ممالک نے پاکستان اور بھارت پر زور ڈالا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت جنگ بندی پر عمل کریں۔ چین کی اس پالیسی سے جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں کو تقویت ملی۔ صرف یہی نہیں 1966ء میں جب امریکہ نے پاکستان پر فوجی سازوسامان کی ترسیل بند کی اس وقت بڑی تعداد میں چینی ہتھیار جن میں ایم آئی جی 15 اور ٹینک شامل ہیں یومِ پاکستان کی پریڈ میں نمائش کے لئے پیش کئے گئے۔ ساتھ ہی 1966ء میں دونوں ممالک کے درمیان 120 ملین کی فوجی امداد کے معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ دراصل ان سارے تعلقات سے دنیا کو اور خاص طور پر پاکستان کے دشمن بھارت کو ایک واضح پیغام دیا گیا تھا کہ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
تعلقات میں اہم سنگِ میل شاہراہ ریشم کا راستہ کھلنا تھا۔ جس نے چین کے صوبہ (زن ژیانگ) سنکیانگ کو وادی ہنزہ سے ملا دیا تھا۔ 1969ء تک شاہراہ قراقرم پر کام جاری تھا۔ اس شاہراہ پر تقریباً 15000 پاکستانی اور چینی مزدوروں نے صبح شام کی انتھک محنت کے بعد تقریباً 774 کلومیٹر اور 16,072 فٹ اونچائی پر کام مکمل کیا۔ شاہراہ قراقرم نے تعلقات کو مزید وسعت دی جو سیاسی تعلقات کے بعد معاشی، فوجی اور معاشرتی تعلق کی صورت میں وسیع تر ہوگئی۔
پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک عظیم حصہ وہ تاریخی کردار ہے جس کو نہ صرف چین نے بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر امریکہ نے بھی سراہا۔ پاکستان نے امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر (ہنری کیسینجیر) کے بیجنگ کے خفیہ دورے کے انتظامات کئے۔ جس کی وجہ سے بالآخر چین امریکہ سفارتی تعلقات قائم ہوسکے۔ انہی تعلقات کی وجہ سے امریکہ نے چین کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کی مخالفت ترک کی اور چین اقوامِ متحدہ کا ممبر اور سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن سکا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے چین اور عرب دنیا خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پاکستانی کردارکو چین نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ چین نے شروع ہی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بار بار پاکستان کی اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں حمایت کی۔ خاص طور پر جب امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی کوششیں شروع کیں تو چین نے شروع ہی سے اس کی شدید مخالفت کی۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ کی چین نے مخالفت کی کیونکہ چین جنوبی ایشیا میں تسلط کی سیاست کی مخالفت کرتا آرہا تھا۔ چاہے وہ تسلط کسی عالمی طاقت کا ہو یا اس کے کسی اتحادی کا۔ 1971ء کی جنگ میں چینی کردار صرف ہتھیاروں کی ترسیل تک محدود رہا۔ 70ء کی دہائی کے آخری حصے میں بھارت کے ساتھ چین کے تعلقات کی بہتری سے پاکستان کچھ پریشان ضرور ہوا لیکن چین کے ساتھ اس کے تعلقات میں کمی نہ آئی۔ ٹھیک اسی زمانے میں جنوبی اور وسطی ایشیا کی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین کی افغانستان میں آمد اور جواب میں افغان مجاہدین کی جنگ، امریکہ کا اس خطے میں سازوسامان کے ساتھ مدد اور پاکستان کا افغانستان جنگ میں کردار اور اس کے ساتھ ہی خطے میں ایرانی انقلاب کی وجہ سے پاکستان اپنے داخلی اور بیرونی مسائل میں شدت سے گِھر گیا۔ امریکی امداد کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے چین بھارت تعلقات میں بہتری پیداہونے لگی لیکن یہ بہتری وقتی ثابت ہوئی۔
90ء کی دہائی میں پاک چین تعلقات میں وقتی تعطل ختم ہوا اور ایک بار پھر گرم جوشی پیدا ہوئی۔ چین نے پاکستان کی تقریباً ہر شعبے میں مدد کی۔ اس وقت چین پاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چین کی اس وقت سب سے بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ تجارت کا حجم 18 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
دفاعی شعبے میں چین نے پاکستان کی تینوں مسلح افواج کی مختلف شعبوں میں امداد کی۔ خاص کر پاکستان کی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیوی مکینیکل کومپلیکس ٹیکسلا کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ چینی معاونت سے کامرہ میں ٹینک اور آرمس پلانٹ  بھی لگایا گیا جبکہ 1986ء میں ہیوی الیکٹریکل کومپلیکس  کا منصوبہ ہری پور میں شروع کیا گیا۔ پاکستانی افواج کی تینوں شعبوں میں چینی ہتھیاروں کی درآمد ہوئی جس میں بری اور بحری، زمین سے فضا میں نشانہ مارنے والے میزائل، ہلکے اور بھاری ہتھیار اور گولہ بارود شامل ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹینک کی صنعت میں خاص پیش رفت ہوئی اور نئی ٹینک ٹیکنالوجی خاص کر الخالد ٹینک چینی مشاورت اور معاونت سے تیار کیاگیا۔ دنیا کی تنقید کے باوجود پاک چین اشتراک سے مختلف میزائلوں کی ٹیکنالوجی کی بہتری میں بھی اہم پیش رفت ہوتی رہی۔
امریکہ بھارت نیوکلیئر ٹیکنالوجی برائے امن معاہدے کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ اس مخصوص نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بات چیت کی جو بہت کامیاب رہی۔ چین نے پاکستان کے لئے نیوکلیئر توانائی کے پُرامن استعمال کی پالیسی کی حمایت بھی کی اور اس کے حصول میں مدد کی۔ کسنپ -1 کا ایک پلانٹ پنجاب میں قائم کیا گیا جبکہ کسنپ -2 پروجیکٹ پر کام دسمبر 2005ء میں شروع ہوا۔
چین کی پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی شکل میں شروع ہوئی ہے۔ سی پیک سے پاکستان کا چین کے مغربی سنکیانگ صوبے سے بذریعہ شاہراہ رابطہ ہوجائے گا۔ جس سے معاشی ترقی کا ایک نیا دور منسلک ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ سی پیک منصوبہ سے پاکستان کے توانائی کے مسائل حل ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ یہ منصوبہ شاہراہوں اور ریلویز کا ایک جال بچھا دے گا۔ سی پیک کے منصوبے کی بنیاد 2013ء میں رکھی گئی اور نومبر 2016ء میں اس بڑے پروجیکٹ کے ایک حصے نے کام شروع کردیا جبکہ کچھ اشیا ٹرک کے ذریعے چین سے گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے مغربی ایشیا اور افریقہ کی منڈی میں بھیجی گئیں۔ اس کامیابی کے بعد چین نے اس منصوبے پر سرمایہ کاری میں اضافے کا عندیہ دیا جو اب 62 بلین تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت سی پیک کی کامیابی کے لئے پُرامید ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ سی پیک پاک چین دوستی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا اور دونوں ممالک کو اس منصوبے کی تکمیل سے بے انتہا معاشی فوائد ہوں گے۔
معاشی تعلقات کی بنا پر چین پاکستان ایک ایسے سیاسی بندھن میں بندھ گئے ہیں جس کو سیاسی زبان میں اتحاد کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی مخالفت بھارت اور امریکہ کی طرف سے شدت سے آئی کیونکہ یہ دونوں ممالک چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور سیاسی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ بھارت کے لئے پاکستان کی سرزمین سے راستہ اس خوف میں مزید اضافہ ہے۔ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے یہ چین سے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ممالک کا راستہ رہا ہے۔ ان علاقوں تک آسان رسائی براستہ پاکستان کم خرچ اور آسان ہے۔
پاکستان اور چین نظریاتی طور پر دو مختلف ممالک ہیں۔ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ اور اسلام کے نام پر رکھی گئی جبکہ چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی پر ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد 21 ستمبر 1949ء میں رکھی۔ 1950ء کے بعد یکم اکتوبر چین کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سنہری ہفتے (گولڈن ویک) کی تقریبات مرکزی ٹرانامین  اسکوائر میں منعقد ہوتی ہیں۔
پاکستان نے چین کے ابتدائی سالوں میں سیاسی حمایت کی۔ پاکستان نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود بھارت کو اس کی مغربی سرحدوں میں مستقل مصروف رکھا جس کی وجہ سے چین اس طرف نسبتاً کم مصروف رہا اور اس نے اپنا دھیان جنوب مغربی علاقوں کی طرف مبذول کیا۔ پاکستان کے ساتھ چین کو بھی اس دوستی سے فائدہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن کبھی بھی بھارت کی طرف نہ جھک سکا اور بھارت کا وہ خواب جس میں وہ خود کو جنوبی ایشیا کے علاقے پر اپنا تسلط یا علاقائی طاقت سمجھتا ہے کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ حالیہ تناظر میں جبکہ امریکی صدر نے پاکستان کو افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سخت پالیسی کا اظہار کیا اور بھارت کو پاکستان کی جگہ افغانستان میں ایک اہم کردا دینے کی بات کی تو سب سے پہلے چینی سخت رد عمل سامنے آیا۔ جس نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں اور نقصانات پر پاکستان کے کردار کو سراہا اور پاکستان کی پالیسی کی تعریف کی۔ یہی حمایت اور حوصلہ افزائی ہے جس سے اس دوستی کی گہرائی اور پائیداری کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے وقت میں چین کی حمایت نے جو اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بھی ہے ان تمام امکانات کو بالکل محدود کر دیا ہے جس کے ذریعے پاکستان پر کسی قسم کی پابندی کا معاملہ زیربحث آ سکتا تھا۔ اسی لئے بھارت نے اس پالیسی بیان کو جو چین کی وزارت خارجہ نے پاکستان کی حمایت میں دیا، دہری اور دوغلی پالیسی قرار دیا۔
چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی نبھائی۔ پاکستان کی ٹیکنالوجی، ہتھیار اور سرمایہ کاری کی فراہمی اور مختلف بحرانوں سے نکلنے میں خلوص سے مدد کی۔ اسی لئے پاک چین دوستی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی موسم یا وقت اسے کم نہیں کر سکا ہے بلکہ یہ دوستی سمندر سے گہری ہمالیہ سے اونچی شہد سے زیادہ میٹھی اور اب سی پیک معاہدے کے بعد اسٹیل سے زیادہ پائیدار اور مضبوط ہے۔

مطلقہ خبریں