Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کردستان کا مسئلہ

نصرت مرزا

امریکہ اسرائیل کی مدد کرنے میں اتنا آگے بڑھا ہوا ہے کہ اس نے 1983ء میں یہ فیصلہ کیا کہ مشرق وسطیٰ بشمول پاکستان، ایران، ترکی، عراق، سعودی عرب اور شام سے کسی بھی ملک کو نہ تو آبادی کے لحاظ سے بڑا رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی رقبہ کے لحاظ سے۔ اسرائیل کے ایک سفارت کار یینون نے یہ منصوبہ بنایا کہ اِن ممالک کو لسانی، فرقہ واریت کے حوالے سے تقسیم کردیا جائے، اِس کے بعد کرنل پیٹر والف نے باقاعدہ مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ ترتیب دیا کہ جس میں عراق کے بطن سے تین ممالک، ایک شیعہ عراق، ایک سنی عراق اور ایک کرد عراق بنایا جائے، جو عملاً ہوچکے ہیں۔ شیعہ عراق کام کررہا ہے، سنی عراق میں جنگ جاری ہے، وہاں روس اور ایران نے امریکہ کی پیش قدمی روکی ہے، عراقی کردستان کے لیڈر مسعود بارزانی نے 25 ستمبر 2017ء کو ریفرنڈم کا اعلان کیا اور 93 فیصد ووٹ آزادی کے حق میں آئے۔ اس طرح وہ عراق سے علیحدہ ہو کر ایک ملک بننے کا مینڈیٹ حاصل کرچکے ہیں، اس میں اُن کو امریکہ اور مغرب کی حمایت حاصل ہے۔ یہ معاملہ یہاں رکتا نظر نہیں آتا کیونکہ کرد شام، ترکی، ایران اور آذربائیجان میں رہتے ہیں۔ ترکی اور ایران نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے اور کرد لیڈر کو سخت وارننگ دی ہے اور ساتھ ساتھ ایران نے بھی ایسا ہی کیا ہے کیونکہ اِس منصوبہ کے تحت پانچ ممالک سے زمینوں کے ٹکڑے نکال کر ایک ملک بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اگر کردستان کا ملک بن گیا تو امریکہ کا روئے زمین پر اُن سے زیادہ وفادار ملک کوئی نہیں ہوگا، امریکہ انتہائی سفاکانہ انداز میں اِس منصوبے پر عمل پیرا ہے اور ایران سے ایٹمی معاہدہ کو ختم کررہا ہے۔ ایران کا اہواز کا علاقہ جو عربی بولنے والے لوگوں پر مشتمل ہے وہ عراق کو دے دیا جائے گا اور ایران سیستان کا علاقہ کاٹ کر عظیم تر بلوچستان بنانے کے کام آئے گا اور سعودی عرب سے مشرقی صوبہ جات حصّہ اور قطیف شیعہ عراق میں شامل کر دیئے جائیں گے۔ سعودی عرب امریکہ کو منانے کی بہت کوشش کررہا ہے جس کی وجہ سے اُن کی عوام میں بے چینی ہے اور مغربی ممالک اِس بے چینی کو حکمرانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر بھی امریکہ تقریباً حملہ آور ہوگیا ہے اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مخالفت کردی اور ہمارے کچھ علاقوں کو متنازعہ قرار دیدیا ہے جبکہ وہاں کے لوگوں نے ڈوگرا راج کو ہرا کر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کیا اور وہ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ سپر محب وطن پاکستانی ہیں۔ کردستان میں تیل ہے اور لوگ بٹے ہوئے ہیں، زبانوں کے لحاظ سے تاہم نسلاً وہ کرد ہیں، اس لئے امریکہ کا خیال ہے کہ انہوں نے جو سلطنت عثمانیہ کے حصہ بخیہ کرتے وقت جو ملکوں کی لکیریں کھینچی تھیں وہ مصنوعی تھی، اب وہ لسانی، فرقہ اور مذہب اور نسل کے لحاظ سے جو سرحدیں متعین کریں گے وہ فطری اور مستقل ہوں گی۔ اس طرح سے اِس خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ دراصل وہ عظیم تر اسرائیل کے منصوبے پر کام کررہے ہیں کہ سعودی عرب یا ایران، پاکستان، کسی کو بڑا طاقتور بننے نہیں دیا جائے گا، اگر وہ بن گئے ہیں تو اِن کو توڑ دیا جائے۔ اِس صورتِ حال سے ہمیں یہ اختیار مل جاتا ہے کہ ہم اسرائیل کے خلاف وہ کارروائی کریں کہ وہ عظیم تر اسرائیل کا خواب چھوڑ کر اسرائیل کے بچاؤ کی راہ اختیار کرے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا بے گناہ خون بہا کر اِن لوگوں نے کشمیر اور فلسطین کے واقعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ساتھ اُن کو یہ بھی بتایا ہے کہ دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال ہوسکتا ہے۔ ہم نے اِس منصوبے پر 2005ء اور 2006ء میں لکھا اور اپنی کتاب ’’چھٹی عرب اسرائیل جنگ‘‘ میں اس کا نقشہ اور تفصیل درج کردی تاہم ہمارے لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی البتہ کراچی کے ایک جنرل صاحب کو جب تین سال پہلے اِس کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی تو پھر افغانستان کی سرحد پر خاردار تاروں کا جال بچھانا شروع کیا، اگرچہ سرحد بہت طویل ہے مگر دو سو سے زائد دخول و خروج کے راستے ہیں، وہاں تو پاکستان خاردار تاریں لگا دی ہیں اور چمن کے قریب 8 فٹ خندق کھود کر راستہ بند کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اِس سے آگے بڑھ کر الیکٹرانک سسٹم لگانا ضروری ہے اور اس کے لئے اگر ہمیں دہشت گردوں اور حملوں کو روکنے کے لئے کسی حد تک بھی جانا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہئے، دوسرے ہم یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان سینٹو کا معاہدہ تھا اور پھر باہمی معاہدات بھی تھے۔ اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ یہ تینوں ممالک اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیں اور دشمن کا مقابلہ کریں، چین اور روس کو ساتھ ملا لیں، جن کے اپنے مفادات ان ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں، روس کا جہاں تک معاملہ ہے وہ بھارت کے ساتھ نتھی رہا ہے مگر وہ اب جان گیا ہے کہ بھارت اس سے دغا کررہا ہے تو وہ اس سے سازوسامان بیچنے کی حد تک تو ساتھ دے گا اس کے علاوہ عملاً وہ بھی بھارت سے جدا ہوگیا ہے۔ بھارت ویسے بھی ایک ہندو ریاست بن گیا ہے، جس نے تاج محل تک کو اپنی سیاحت کی فہرست سے اِس لئے نکال دیا ہے کہ وہ ایک مغل بادشاہ نے بنایا تھا تو اُس ملک میں خانہ جنگی ہونا دیوار پر لکھی نظر آتی ہے۔ پاکستان کو اپنی اندرونی کشمکش کو قابو میں رکھنا ہوگا اگر میاں نواز شریف کو پانامہ والے معاملے میں قربانی دیں تو وہ ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، اُن کا یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ اپنے ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ تیسرے پاکستان کو اپنی طاقت کا اظہار کھل کر کرنا ہوگا یا کسی مناسب موقع پر کر دینا چاہئے اور اسرائیل و بھارت کو جتا دینا چاہئے کہ اگر انہوں نے سرخ لکیر عبور کی تو بس ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔ مزید ایران کو اپنے سخت رویہ اور انداز کو بدلنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ قریب آنا چاہئے، پاکستان کے آرمی چیف نے ایرانی آرمی چیف کو دعوت دی تھی شاید آنے پر رضامند نہ ہوئے تو پاکستانی آرمی چیف وہاں جارہے ہیں، اس لئے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ فاصلے کم کئے جائیں اور فوری طور پر چین، پاکستان، ایران، ترکی اور روس کا ایک غیرمعمولی اجلاس منعقد ہونا چاہئے اور صورتِ حال کا جائزہ لے کر مناسب فیصلے کرنے چاہئیں۔

مطلقہ خبریں