Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سابق سیکریٹری خارجہ و سفیر نجم الدین شیخ سے ایڈیٹر انچیف نصرت مرزا کی پروگرام ’’سچ بات‘‘ میں گفتگو

چین کو یورپ سامان بھیجنے میں 8 ہفتے لگتے ہیں، سی پیک کے ذریعے 5 ہفتے لگیں گے
میں خود بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا، اندرونی مسائل ہیں جو بیرونی طور پر ہمارے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں، اس کو حل کرنے میں مدد ملے گی، امریکہ افغانستان سے جانا نہیں چاہتا

امریکہ میں بطور سفیر خدمات انجام دینے والے اور سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے سینئر تجزیہ کار و کالم نگار نصرت مرزا کو انٹرویو دیا جس میں سی پیک منصوبے کی افادیت اور افغانستان میں امریکہ کے مفاد پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ نجم الدین شیخ موجودہ دور میں آئی او بی ایم سی بی ایم میں گلوبل اینڈ ریجنل اسٹڈیز سینٹر کی سربراہ کررہے ہیں۔
سوال: وزیرخارجہ خواجہ آصف نے دہشت گردی سے متعلق فرمایا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: یہ بات اہم ہے وزیراعظم اور آرمی چیف اس کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ملک سے باہر جا کر اس قسم کی بات یا غلطیوں کا اعتراف نہیں کرنا چاہئے البتہ آپ اس انداز سے بات کریں جس سے بین الاقوامی حمایت آپ کو ملے اور غیرملکی امداد کی جو ضرورت پڑتی ہے وہ مل جائے، میں خود بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا، اندرونی مسائل ہیں جو بیرونی طور پر ہمارے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں، اس کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیرخارجہ کا بیان ڈپلومیسی کے حوالے سے درست تھا؟
جواب: امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سے ملاقات کے بعد خواجہ آصف نے یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب میں جو کچھ کہا اس سے محسوس ہوا کہ پوری تیاری سے گئے تھے۔
سوال: کیا گھر کو درست کرنے کی بات نے امریکیوں کے دلوں میں ان کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا اور وہ انہیں سچا آسمی سمجھنے لگے؟
جواب: آپ کی یہ بات کس حد تک درست ہے لیکن اس کو اُس بات سے جوڑ سکتے ہیں جو انہوں نے ریکس ٹیلرسن سے کی، 4 اکتوبر کو وزیر دفاع جنرل میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف نے جس طرح کانگریس کی کمیٹی کے سامنے گفتگو کی تھی اُس سے محاذ آرائی کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ اخبارات میں چھپا کہ امریکہ پاکستان کو ایک موقع اور دے گا ورنہ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ دوسرے اقدامات کرنے کے لئے تیار ہیں، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے بغیر امریکہ کو افغانستان میں کیا مشکلات آسکتی ہیں۔ سب سے پہلے سپلائی لائن کا مسئلہ ہے، نادرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک نہیں چل سکتا، ایران کے ذریعے نہیں آسکتے، اگر انہوں نے 3000 سے 3500 ٹروپس کو مزید بھیجا ہے اور پہلے سے 14 سے 15 ہزار ٹروپس، کنٹریکٹر اور دیگر ملکوں کے لوگ جو وہاں موجود ہیں ان کے لئے سپلائی لینڈ روٹس کے ذریعے ہوگی، دوسرا ذریعہ اسپیس ہے امریکیوں نے ایئر سروسز کے ذریعے کچھ پیش رفت کی ہے، قطر کے بیس کو استعمال کیا ہے، گارشیا وغیرہ تو دور ہیں لیکن کچھ ایئربیس قریب ہیں وہاں سے امریکی افغانستان کی طرف جاتے ہیں لیکن پاکستان کا لینڈ اور ایئر روٹ دونوں قریب پڑتا ہے۔ یعنی پاکستان کو دیکھنا چاہئے کہ اس بات ڈپلومیسی کے حوالے سے کس طور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کو کسی چیز سے مشروط کرنا مناسب نہیں ہے لیکن اپنے حق میں استعمال کرنا ہمارا حق ہے۔ اس روٹ کے علاوہ ہمیں افغانستان کی صورتِ حال کا حقیقی جائزہ لینا ہوگا، ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ 40 فیصد افغانستان میں طالبان قابض ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے، طالبان 10 فیصد پر قابض ہیں۔ اب بھی 80 فیصد پاپولیشن پر کابل حکومت کا کنٹرول ہے۔
سوال: امریکہ نے افغانستان میں زیرزمین 9 اڈے بنا رکھے ہیں، ان کا تحفظ پاکستان کے بغیر کیسے ممکن ہے؟
جواب: افغانستان میں امریکہ کی جو آن گراؤنڈ سروسز ہیں وہ بہت زیادہ ہیں جس میں وہ مزید اضافہ کررہے ہیں۔ امریکی منصوبہ یہ ہے کہ جس طرح عراق میں انہوں نے ایک گرین زون بنایا تھا ویسا ہی افغانستان میں بنا رہے ہیں۔ 2.6 اسکوائر کلومیٹر کے علاقے پر وہ کام کررہے ہیں، ایک سال میں آدھا کام ہوچکا ہے، اگلے سال میں اُسے مکمل کرلیں گے، اُس زون میں کسی کے لئے داخل ہونا آسان نہیں ہوگا، جو افغانستان کے راستے وہ استعمال کرتے تھے اس زون کی تکمیل کے بعد انہیں اُن راستوں کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس زون میں افغان حکومت کا سیکریٹریٹ، مختلف ممالک کے سفارتخانے اور سیکورٹی فورسز کے دفاتر ہوں گے البتہ صدر صدارتی محل ہی میں رہیں گے، اگر مفاہمت کی بات ہوگی تو وہ 4 سال چلے گی، گفتگو میں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ طالبان کو کون سا حصہ دیا جائے اور آئین کے کس حصے پر طالبان اور کابل حکومت میں اختلاف ہوسکتا ہے اسے کیسے طے کیا جائے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا؟
جواب: جی ہاں لیکن اس میں وقت لگے گا کیونکہ ہر اسٹیک ہولڈر کو مطمئن کرنا ہوگا تب یہ بات کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
سوال: اشرف غنی سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طویل ملاقات ہوئی، افغانی کہنے لگے ہیں کہ پہلی مرتبہ ہم نے پاکستان کو قابو کرلیا ہے، اب ہم نہیں جاتے بلکہ وہ ہمارے پاس آتے ہیں، ٹرمپ کے اعلان کے بعد کیا افغان حکومت اپنی پالیسی تبدیل کررہی ہے؟
جواب: طالبان کے ساتھ بات چیت میں بہت سے پیچیدہ معاملے سامنے آئیں گے، اس میں سے ایک بدعنوانی ہے، افغان صدر اشرف غنی کہہ چکے ہیں کہ بدعنوانی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ افیم کی فروخت کا پیسہ ایک مسئلہ ہے۔ طالبان بھی افیم کے ذریعے پیسہ کما رہے ہیں، ہمارے ملک میں اس پر بات نہیں ہوتی، افیم کی وجہ سے پاکستان میں منشیات کا استعمال بڑھا ہے، پہلے پاکستان میں نشہ کرنے والوں کی تعداد 30 ہزار تھی، جنہیں ڈاکٹر کی پریسکریپشنس کے مطابق دکان سے ضرورت کے مطابق مل جایا کرتی تھی اب کوئٹہ، کراچی اور دیگر شہروں میں پل کے نیچے اور مختلف علاقوں میں بک رہی ہوتی ہے، ڈرگز سے حکومت کے بدعنوان عناصر اور طالبان دونوں پیسے کما رہے ہیں۔ 4600 ٹن افیم کی کاشت ہورہی ہے تو اُس سے دولت بنائی جارہی ہے۔
سوال: جنرل ضیا الحق پر الزام ہے کہ افغانستان سے پاکستان انہوں نے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر درآمد کیا، کیا یہ درست ہے؟
جواب: 1978-79ء میں ہمارے ملک میں بھی افیم کی کاشت ہوتی تھی، ہری پور میں فصلیں تھیں جنہیں ختم کرنے کے لئے ہم نے بہت کام کیا، جس کی وجہ سے پوست کی کاشت ختم ہوئی، افغانستان میں جب طالبان برسراقتدار آئے تو افیم کی کاشت طالبان کے زیراثر علاقوں میں ختم ہوگئی تھی التبہ نادرن الائنس کے زیرکنٹرول علاقے میں اس کی پیداوار جاری تھی جب امریکی آئے تو انہوں نے جنگجو رہنماؤں سے کہا کہ افیم کی کاشت سے کوئی مطلب نہیں ہے آپ پوست کی کاشت کریں یا نہ کریں ہمیں تو القاعدہ کو مارنا ہے، افیم کی کاشت ختم کرنے کے لئے انگریز 7 ارب ڈالر کر چکے ہیں جس کے بعد افیم کی پیداوار 4600 ٹن رہ گئی ہے۔
سوال: طالبان اور دوسرے گروپس افیم کی اسمگلنگ کے لئے ایران یا پاکستان کا راستہ استعمال کرتے ہیں یا یہ کسی اور علاقے باہر بھیجتے ہیں؟
جواب: 35 فیصد افیم ایران کے رستے سے جاتا ہے، 50 فیصد پاکستان کے ذریعے اور 15 فیصد سینٹرل ایشیا کے راستے روس جاتا ہے، ہم افیم کے بدلے گندم دیتے ہیں، افیم کی فروخت میں بہت سے لوگ ملوث ہیں۔
سوال: مذاکرات میں طویل وقت لگے گا، پاکستان کے بارے میں امریکیوں کا کہنا ہے کہ اُن کی اسپیشل فورس ہمارے ایٹمی اثاثوں کو لے جاسکتی ہے، میڈیا میں امریکنز کے کلپس چل رہے ہوتے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں سول وار کرانا چاہتا ہے؟
جواب: اوبامہ کا خیال تھا کہ اپنی فوج کو افغانستان سے نکال لیں گے، ایک مختصر فورس کو رکھیں گے جو سفارت خانے کی حفاظت پر مامور ہوگی مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، امریکہ افغانستان سے جانا نہیں چاہتا۔
سوال: ایک بات کی جاتی ہے کہ افغانستان کے قدرتی ذخائر کی وجہ سے امریکہ نہیں جانا چاہتا، یہ بات کتنی درست ہے؟
جواب: یہ سب غلط باتیں ہیں ابھی افغانستان میں مائننگ سے 170 ملین ٹن پیداوار ہوتی ہے، 17 ملین افغان حکومت کو جاتا ہے بقیہ افغان جنگجو اور طالبان اسمگلنگ کرتے ہیں، چائنا کے منصوبے ہیں لیکن ان سے ایک فیصد بھی آمدن نہیں ہورہی، امریکہ کا کہنا ہے کہ جو پیسہ افغانستان میں ہم نے لگایا ہے، قدرتی ذخائر کی آمدنی سے اُسے لوگوں کی سپورٹ کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔ افغانستان میں جو معدنی دولت ہے اس کا تسلسل بلوچستان میں نظر آتا ہے، ریکوڈک اینک کا پرمائز جو چائینیز کے پاس ہے جس سے ایک دھیلہ نہیں ملا ہے۔ ریکوڈک جن کے پاس تھا وہ کہتے تھے کہ اوری  یہاں سے لے جائیں گے جب خالص پراڈکٹ حاصل ہوجائے گی تو پھر آپ کو اس کا حصہ دیں گے، ریکوڈک چائینیز کے پاس آیا تو انہوں نے بھی کہا کہ اتنی پراڈکشن نہیں ہے، میرا اپنا خیال ہے کہ اینک اور ریکوڈک کی پیداوار کو ملا کر ریکوک میں اسپلنٹر لگائیں گے وہاں سے خالص پیداوار کو گوادر لے جائیں گے جیسے کاپر بھیجا جائے گا۔ کاپراوری نہیں بھیجیں گے اس سے ہماری آمدنی بڑھے گی، افغانستان میں معدنی ذخائر کا ذخیرہ ہے، چائینیز اسی پر کام کررہے ہیں لیکن ان حالات میں خالص پیداوار حاصل کرنا مشکل ہے۔
سوال: انڈین ایئرچیف نے دعویٰ کیا ہے کہ چین اور پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کو نشانہ بنا سکتے ہیں؟
جواب: اس قسم کی باتیں ہر فوجی سربراہ کرتا ہے مگر حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں، رامسوامی نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے تھے، 2018ء میں اس کے مزید چار ٹکڑے کردیں گے، سبرامیم سوامی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ایک وقت تھا جب وہ دونوں ملکوں کی دوستی کے حق میں تھے۔
سوال: امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ چین سی پیک کے ذریعے اپنا دائرہ اثر بڑھائے گا، سری لنکا میں بیس لے چکا ہے، جبوتی میں اس کا بیس کام کررہا ہے، کیا چین پھیلاؤ کی پالیسی پر عمل کررہا ہے؟
جواب: اگر امریکی یہ بات کرتے ہیں تو ان سے پوچھنا چاہئے کہ پانامہ کیانل انہوں نے کیوں بنایا کیونکہ بحری جہازوں کی آمدورفت میں جہاں 6 ہفتے لگتے تھے اس کینال کی وجہ سے دو ہفتے میں سفر طے ہونے لگا، یہ تو اقتصاد کی بات ہے اگر اعتراض یہ ہے کہ چین اس سے تذویراتی (اسٹریٹجک) فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو پہلا سوال یہ ہوگا کہ سی پیک سے اقتصادی فائدہ ہوگا یا نہیں اگر چین کو مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ سامان بھیجنے میں آٹھ ہفتے لگتے ہیں، سی پیک کے ذریعے اگر تین ہفتے لگیں گے تو اس سے پانچ ہفتے کی بچت ہوگی۔ ان پانچ ہفتوں میں آپ نے روڈ ٹرانسپورٹ ریل کے ذریعے اور بحری سفر زیادہ کرنے سے بچیں گے تو آپ کو مالی فائدہ حاصل ہوگا۔ آپ کی بچت ہوگی، اب پاکستان کا کام ہے کہ چین کی اس بچت سے وہ مناسب فائدہ اٹئاے کیونکہ اس بچت کی وجہ پاکستان کے کوریڈور کا استعمال ہے، میں نے بہت سے لوگوں کو بتایا ہے کہ جب میں عراق میں تھا تو ایران اور ایران جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے راستے بند تھے، عراق میں بحری جہازوں کو ایک ایک مہینہ رکنا پڑتا تھا کیونکہ بندرگاہ پر برتھ کے لئے انتظار کرنا پڑتا تھا، دونوں ملکوں نے اعلان کیا کہ ترکی کے راستے ہوائی جہاز کے ذریعے یورپ سے تجارت کریں گے، ترکی نے کہا ضرور کریں ہم 40 فٹر کلومیٹر کا آپ سے 800 ڈالر چارج کریں گے اور جب آپ خالی کنٹینر لے کر واپس گزریں گے تو 200 ڈالر چارج کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے کنٹینرز کے گزرنے سے ہماری سڑکیں خراب ہوں گی۔ اسی طرح عراق شام کے راستے اپنا تیل بھیجنا چاہتا تھا کیونکہ پریشن اور اربین گلف کے ذریعے خطرہ تھا تو شام نے عراق سے کہا کہ ہم فی بیرل آپ سے 2 ڈالر وصول کریں گے، اس وقت تیل کی قیمت 11 سے 12 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ شام پائپ لائن کی مینٹیننس عراق سے کرواتا تھا۔ ابھی جب شام میں حالات خراب ہوئے اور ترکی کے لئے انہوں نے راستہ بند کیا تو ترکوں نے حساب لگایا کہ ان سے ہر سال 1.1 ارب ڈالر شام وصول کرتا تھا۔ پاکستان کو اسی طرح کا معاہدہ چین سے کرنا چاہئے۔
سوال: پاکستان کس شرح سے یہ طے کررہا ہے؟
جواب: درست اعدادوشمار تو میرے علم میں نہیں ہے لیکن میں نے مختلف ملکوں کے معاہدے آپ کو بتائے جو 1972-73ء میں اور 2014-15ء میں کئے گئے تھے۔ ان کو مدنظر رکھ کر ہمیں چین سے معاہدہ کرنا چاہئے۔ آپ نے جبوتی کا ذکر کیا تھا امریکہ اور یورپ نے چین سے کہا کہ آپ ترقی پذیر معیشت سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گئے لیکن بحری قزاقی کو روکنے میں آپ کردار ادا نہیں کررہے جبکہ پاکستان بہت اہم کردار ادا کررہا ہے، پاکستان کا ایک فورٹ بھی وہاں موجود ہے، چین سے کہا گیا کہ آپ سمندری راستوں کو تجارت کے لئے استعمال کررہے ہیں، آپ کی بچت ہورہی ہے تو چین نے اس لئے جبوتی میں اپنا ایک مرکز بنایا ہے۔ اس طرح سری لنکا میں جو چین کے بیس کی بات کی جاتی ہے تو پچھلے سری لنکن صدر کا خواب تھا کہ وہ اپنے بحری راستے کو بنا کر عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے چین کے سرمائے سے پورٹ بنا تو لی لیکن وہ راہداری چلی نہیں ٹریفک کا دباؤ نہیں آیا۔
سوال: سری لنکن کیوں ناکام ہوئے کیا بھارت نے چلنے نہیں دیا؟
جواب: سری لنکن نے جتنی کیپیسٹی ڈیولپ کی تھی اتنی تجارت ان کی طرف نہیں آئی۔ اس منصوبے پر سرمایہ چین کا لگا تھا سری لنکا رقم واپس نہیں کرسکتا تھا تو اس لئے چین نے اُسے لے لیا۔ اس طرح یہ بات پھیل گئی کہ چین نے سری لنکا میں اڈہ قائم کرلیا ہے۔ چین نے اس طرح سری لنکا پر احسان کیا۔
سوال: کیا مستقبل میں یہ منصوبہ ہمارے کام نہیں آئے گا؟
جواب: جی ہاں ممکن ہے اصل میں بھارت پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے وہ تو کہہ رہے ہیں کہ گوادر میں بھی عسکری بیس بنایا جارہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، چین اور امریکہ کے ایک دوسرے خدشات ہیں، چین اپنی عسکری قوت کا اثر بڑھاتا ہوا نظر نہیں آرہا، چینیوں کا کہنا ہے کہ جس دن ہماری جی ڈی پی امریکہ کے مساوی ہوجائے گی اس وقت سے ہمارے لوگوں کا معیار زندگی امریکی معیار زندگی سے ایک تہائی بہتر ہوگا۔ ابھی امریکہ میں پرکیپٹا انکم 59 ہزار ڈالر ہے جبکہ چین میں 15 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ وہ اس کو بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔
سوال: گوادر پورٹ کو استعمال کرنے سے چین کے تجارتی اخراجات میں کمی ہورہی ہے، کیا اس بچت سے چین کی معیشت امریکہ کے متوازی نہیں ہوجائے گی؟
جواب: دیکھئے تجارت کا اصول یہ ہے کہ آپ سرمایہ وہاں لگائیں جہاں سے ریٹرن سب سے اچھا ہو، آپ ایسی جگہوں میں نہ گھسیں جہاں آپ کے سرمائے کو ڈوبنے کا خطرہ ہو۔ چین نے بہت سرمایہ ضائع کیا ہے، البتہ چین کا کاروباری بہت تیز ہے وہ ایسی جگہ سرمایہ کاری کرتا ہے جہاں سے منافع حاصل ہونا یقینی ہوتا ہے۔
سوال: کیا چین کا کاروباری طبقہ انڈیا کے بنیے سے بھی زیادہ تیز ہے؟
جواب: ہندوستان اور چین کے تاجروں کو دیکھنا ہو تو آپ ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں دیکھیں، وہاں چائنیز 100 ہیں تو بھارتی 80 ہیں۔
سوال: سنگاپور اور ہانگ کانگ میں کیا تناسب ہے؟
جواب: دونوں جگہ بھارت اور چین کے درمیان مسابقت ہے، سنگاپور میں بھارتی بہت اہم پوزیشنز پر بھی ہیں مگر چینی زیادہ چھائے ہوئے ہیں، بزنس میں بھی چائنیز زیادہ ہیں، آپ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں دیکھ لیں وہاں بھارتیوں کا اتنا اثر نہیں ہے مگر چینی بہت ہیں، چین کو حقیقت کا ادراک ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ان کی معیشت کو مزید مستحکم کرنے میں وقت لگے گا۔
سوال: چین کی جی ڈی پی  امریکہ کی جی ڈی پی کے قریب پہنچ چکی ہے مگر پرکیپٹا انکم میں امریکہ ابھی بھی بہت آگے ہے، چین اسی لئے اپنا عسکری پھیلاؤ نہیں چاہتا بلکہ معاشی پھیلاؤ چاہتا ہے، امریکہ چین سے زیادہ پاکستان میں دلچسپی کیوں رکھتا ہے؟ امریکہ نے ہائی برڈ وار روس اور پاکستان میں لگا رکھی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: چین کا کہنا ہے کہ ہم سی پیک  میں انڈسٹریل زون بنا رہے ہیں، آپ اس میں تمام ملکوں سے سرمایہ کاری کروائیں، امریکہ کہتا ہے کہ جس کام سے پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا ہم اس میں تعاون کریں گے، اگرچہ ہمارے شکوک رہیں گے مگر ہم چین کے ساتھ مل کر سی پیک میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں، دونوں ملکوں میں انڈر اسٹینڈنگ ہونے میں وقت لگے گا مگر دونوں بڑے ملکوں کی سرمایہ کاری ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ذریعے آئے گی۔
سوال: برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی سی پیک میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے، کیا دیگر ممالک بھی آرہے ہیں اس منصوبے کی وجہ سے سلامتی کو خطرہ تو نہیں ہے؟
جواب: اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باتیں کر جاتے ہیں لیکن حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں، ابھی سلامتی کو خطرہ نہیں ہے لیکن آگے جا کر کچھ مسائل سامنے آسکتے ہیں، پاکستان کی جوہری صلاحیت جتنی ہے ہمیں اُسے انڈاسٹمیٹ نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی مائی کا لال کوئی انڈین آرمی چیف اپنے وزیراعظم کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس پاکستان سے چار گنا بڑی فوج ہے آپ مجھے اجازت دیں ہم پاکستان کو تباہ کردیں گے، اگر کوئی کہہ گا تو اُسے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ہم تو پاکستان پر چڑھ دوڑیں گے لیکن اس کے بعد دلی، کلکتہ اور دیگر شہروں کی حفاظت کا ذمہ کوئی نہیں لے سکے گا۔
سوال: بھارت نے اپنا ڈیفنس سسٹم بنا لیا ہے پھر بھی اُسے پاکستان سے اتنا بڑا خطرہ ہے؟
جواب: دیکھیں اس سب کے باوجود بھارتیوں کو خطرہ ہے، وہ ہم پر جارحیت کرنے سے قبل سوچیں گے، ہوسکتا ہے کہ آگے جا کر کسی کے دماغ میں خناس سمائے تو اس کا نقصان بھی بھگتے گا کیونکہ بھارت کے بڑے شہروں کو ہدف بنایا جائے گا، پاکستان کسی بھی جارحیت کی صورت میں اُن کے نیوکلیئر اثاثے کو نشانہ نہیں بنائے گا بلکہ اُن کے بڑے شہر ہدف بنیں گے جب بھارتی کہتے ہیں کہ ہم سرجیکل اسٹرئیک کریں گے تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ ہم نے فل  اسپکٹرم بنا لیا ہے۔
ہمارے پاس سیٹلائٹ کی کیا صورتِ حال ہے؟ کیا ایک سیٹلائٹ کافی ہے، چین کی مدد سے ایک سیٹلائٹ ہم نے بنا کر خلا میں چھوڑا ہے، ابھی ایک آرٹیکل میں اعدادوشمار آئے ہیں جس کے مطابق امریکہ کے 519 سیٹلائٹ، روس کے 130 اور اسی طرح بھارت کے بھی خلا میں موجود ہیں۔ میری نظر میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ نہیں ہوسکتا، سرجیکل اسٹرائیک کی بھارتی بات کرتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ بھائی کہاں کی ہے ہمیں وہ جگہ دکھائیں محدود جنگ کا جواب انہیں مل جاتا ہے۔
سوال: وزیراعظم نے خوب جواب دیا کہ ہمارے پاس ٹیکٹیکل وار ہیڈز نہیں ہیں البتہ قریب سے مارنے والے ڈیٹرنٹ ہیں۔
جواب: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خوب جواب دیا دراصل وہ کہتے ہیں ٹیکٹیکل بیٹلڈ فیلڈ ہے، ہم کہتے ہیں شورٹ
رینج میزائل ہیں دونوں ایک ہی چیز ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی اور بھارت کے درمیان سینڈویچ بنا دیں گے، کیا یہ منصوبہ موجود ہے یا ناکام ہوچکا ہے؟
جواب: بھارت افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے لیکن افغانستان کی سرحد اور بھارت کے ساتھ جو کوسٹل بیلٹ ہے وہ ہمارے خلاف استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ کوسٹل بیلٹ پر تو اسمگلر ہیں۔
سوال: بھارت نے افغانستان میں فوجی بھیجنے سے انکار کردیا ہے، پاکستان افغان سرحد پر جو باڑ لگانے کا کام کررہا ہے اس سے نقل و حرکت میں رکاوٹ ہوسکتی ہے؟
جواب: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 272 کراسنگ پوائنٹس ہیں۔ ان سب کو ہم کور نہیں کرسکتے۔ بلوچستان سرحد پر ہم خندقیں کھود رہے ہیں، اگرچہ دراندازی کا خطرہ رہتا ہے اور اس کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن دوسرا خطرہ ڈرگز کی اسمگلنگ کا بھی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو دو خودمختار ملک کی طرح پالیسی ترتیب دینا ہوگی، ہمیں افغانستان کو ایک بااختیار اور خودمختار ریاست سمجھنا ہوگا۔
سوال: کیا امریکہ دونوں میں غلط فہمی پیدا نہیں کرتا ہے؟
جواب: کئی مواقع ایسے آئے کہ امریکہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا تھا، 2001ء میں اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی، ایک مانیٹرنگ ٹیم بنی تھی کہ طالبان تک ہتھیار نہ پہنچے۔ اس مانیٹرنگ ٹیم میں پانچ ممبر نیویارک میں ہوں گے اور 9 ممبرز پاک افغان سرحدوں پر ہوں گے، وہ 9 بندے آپ کے ملک میں موجود رہے۔ طالبان نے کہا کہ اگر ہم نے مانیٹرنگ ٹیم کا بندہ دیکھا تو اُسے مار دیں گے۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر آپ پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا، آپ تنہا تھے، دیکھیں اعتماد بڑھانا ہوگا، طالبان اور کابل حکومت میں مذاکرات ہونے چاہئے اس میں وقت لگے گا خواجہ آصف نے امریکہ میں کہا کہ آپ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں پر پیسہ خرچ کریں اور انہیں پاکستان سے لے جائیں۔
سوال: کیا وزیر خارجہ نے اچھی ڈپلومیسی کا مظاہرہ نہیں کیا؟
جواب: افغان پناہ گزین کی صورت میں دہشت گرد آتے جاتے ہیں، خواجہ آصف کی بات بالکل درست ہے ہمیں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے بھیجنا ہوگا، پاکستان پناہ گزینوں کو جو کچھ دیتا ہے وہ افغانستان بھیج دے گا کیونکہ ہم افغان مہاجرین کے کیمپس کی نگرانی نہیں کرسکتے، ہمارے لئے سیکورٹی مسائل ہیں لہٰذا آپ انہیں لے جائیں۔

مطلقہ خبریں