Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کچھ احوال گوانتا نامو والوں کے

محسن فارانی

دونوں افغانی باہم دوست تھے جو امریکیوں کے ہتھے چڑھے۔ طاقت کے نشے میں چور امریکی بلاامتیاز افغانیوں اور القاعدہ کے وابستگان کو پکڑ پکڑ کر امریکی عدلیہ کی رسائی سے دور ساحلِ کیوبا پر لے جا کر گوانتانامو کے فوجی اڈے میں بند کررہے تھے۔ یہ اڈہ امریکیوں نے ایک صدی قبل کیوبا کو اسپین سے آزادی دلا کر اس نو آزاد ملک سے پٹے کے نام پر ہتھیا لیا تھا اور اس کا برائے نام کرایہ ادا کرتے آ رہے تھے جو کیوبا میں کمونسٹ انقلاب (1959) کے بعد کاسترو حکومت نے وصول کرنے سے انکار کردیا تھا اور انخلا کے مطالبے کے باوجود امریکی اسے خالی نہیں کر رہے تھے۔ بْش مسلم کْش اور اس کے پْوڈل ٹونی بلیئر نے نائن الیون کی آڑ میں اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر کروسیڈ (صلیبی جنگ) مسلّط کی تو محبوس طالبان اور مجاہدین گوانتاناموبے (خلیج گوانتانامو) کے دور دراز فوجی اڈے میں پہنچائے جانے لگے۔ انہی میں حاجی غالب اور عبدالرحیم مسلم دوست بھی تھے۔
حاجی غالب اور عبدالرحیم کی دوستی کا سبب ان دونوں کا فارسی شاعری سے والہانہ لگاؤ تھا۔ وہ رومی، سعدی، حافظ اور نظیری کے شعر پڑھتے، گنگناتے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ علامہ اقبال کا فارسی کلام بھی انہیں مرغوب تھا۔ پھر فلکِ کج رفتار نے پلٹا کھایا اور 11 ستمبر 2001ء کو اٹھارہ انیس نادان زیرِ تربیت عرب ہوا بازوں نے ہائی جیک کیے ہوئے تین مسافر بردار طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر (نیو یارک) اور پینٹاگان (واشنگٹن) سے ٹکرا دیئے یا ایک سازش کے تحت ٹکراتے دکھائے گئے اور ایک اغوا شدہ مسافر بردار طیارہ ریاست پنسلوینیا میں مار گرایا گیا۔ اور پھر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی افواجِ قاہرہ روسی حملے (1979ء تا 1989ء) میں تباہ شدہ افغانستان پر چڑھ دوڑیں۔ سقوطِ کابل (13 نومبر) اور سقوطِ قندھار (6 دسمبر) کے ساتھ ہی طالبان حکومت منتشر ہوگئی۔
امریکی جن قیدیوں کو گوانتاناموبے لے جا رہے تھے، ان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ان سے ہم جہادیوں کے راز اگلوائیں گے اور ان کی برین واشنگ کر کے ان کے انتہاپسندانہ جہادی جرثومے نکال پھینکیں گے۔ اس میں انہیں جزوی کامیابی ہوئی۔ بعض جہادی گوانتانامو سے واپس آ کر پْرامن ہوگئے اور بعض واپس آتے ہی پھر جہادیوں سے جا ملے۔ حاجی غالب نڈر جہادی کمانڈر تھے جنہوں نے روس کے خلاف جہاد میں بڑا نام کمایا تھا۔ کابل میں کمونسٹ حکومت کے سقوط (اپریل 1992ء) کے بعد وہ مجددی اور ربانی حکومت کی پولیس میں شامل رہے، تاہم وہ طالبان کے اقتدار (1996ء تا 2001ء) سے الگ تھلگ رہے۔ دسمبر 2001ء میں جب کابل میں امریکا کے زیرِسایہ کٹھ پتلی کرزئی حکومت قائم ہوئی تو وہ پھر افغانی پولیس میں شامل ہوگئے۔ 2003ء میں وہ ایک پولیس افسر تھے جب امریکیوں نے انہیں اچانک اس الزام میں گرفتار کرلیا کہ وہ طالبان باغیوں سے مراسم رکھتے ہیں۔ انہیں امریکی گرگے پولیس چوکی سے گھسیٹ لے گئے۔ سب کے سامنے ان کی وردی پھاڑ دی، زنجیروں میں جکڑ کر طیارے میں لادا اور گوانتاناموبے میں لے جا کر سیل میں بند کردیا۔ پھر 2007ء میں بدنہاد امریکیوں پر انکشاف ہوا کہ حاجی غالب کا طالبان یا القاعدہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ رہائی ملی تو انہیں امریکیوں پر غصہ نہیں تھا بلکہ وہ طالبان کو ’’افغانستان کے حقیقی دشمن‘‘ سمجھتے تھے، لہٰذا ان کے خلاف معرکہ آرا ہوگئے اور اب وہ داعشی جہادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس وقت وہ صوبہ ننگرہار میں باتی کوٹ کے حاکم ہیں۔ 49 سالہ حاجی غالب کہتے ہیں: ’’گوانتانامو دنیا میں بدترین جگہ ہے۔ ہر روز میں اپنے آپ سے ایک ہی سوال کرتا ہوں: مجھے وہاں کیوں لے جایا گیا؟ انہوں نے میری زندگی کے پانچ سال کیوں تباہ کیے؟ ان کے ہاں انصاف کیوں نہیں اور میرے ابتلا کا معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا؟‘‘ مگر خبیث امریکی ایسے سوالوں پر کسی کو جواب دینے کے روادار نہیں۔
حاجی غالب کے سابق دوست عبدالرحیم مسلم دوست کو بھی امریکی صلیبیوں نے گوانتاناموبے پہنچا دیا۔ وہ وہاں نمازیں ادا کرتے اور ساتھی قیدیوں کو جہاد کی اہمیت اور فضیلت سے آگاہ کرتے۔ وہاں اغوا شدہ بھارتی طیارے کے مسافروں کے عوض رہا ہونے والے خالد شیخ محمد بھی قید تھے جنہیں امریکی پاکستان سے اٹھا لے گئے تھے۔ امریکیوں کے خیال میں خالد شیخ محمد نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
امریکی پروفیسر مارک فاکوف نے اپنی کتاب ’’پوئمز آف گونتانامو‘‘ میں مسلم دوست کا ایک شعر درج کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے: غور کرو کیا چیز ایک شخص کو اپنی یا کسی کی جان لینے پر مجبور کرتی ہے؟ کیا ظالم کا ظلم تقاضا نہیں کرتا کہ ظالم کو ویسا ہی جواب دیا جائے؟
35 برس کا ’’کاکو‘‘ بھی عبدالرحیم کے ساتھ گوانتانامو میں قید رہا۔ وہ کہتا ہے: ’’گوانتا نامو دہشت گردی کی نرسری ہے۔ یہ مسلم دوست جیسے جنونیوں کے لئے جواز فراہم کرتی ہے۔‘‘ کاکو گوانتانامو سے واپس آ کر اپنے کھیتوں میں اناج کاشت کرتا ہے۔
گوانتانامو کا بندی خانہ امریکیوں نے 2002ء میں کھولا تھا۔ یہاں قید رہنے والے بیشتر قیدیوں کی امریکا دشمنی دو چند ہوجاتی ہے۔ کل قیدیوں میں سے ایک چوتھائی کے لگ بھگ افغانی تھے۔ اکثر واپس آ کر پْرامن رہے کیونکہ انہیں غلطی سے پکڑ لیا گیا تھا یا مقامی لوگوں نے انعام کے لالچ میں یا ذاتی دشمنی چمکانے کے لئے انہیں پکڑوا دیا تھا۔ ’’افغانستان انالیستس نیٹ ورک‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ ’’کافکا ان کیوبا‘‘ میں کہا گیا ہے کہ ’’ظالمانہ حراست بعض افغانیوں کو رہا ہو کر باغیوں کے ساتھ جا ملنے کی ترغیب دیتی ہے اور وہ جہاد کے نئے مرحلے میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘‘ آن کے تجزیہ کار کیٹ کلارک کی رپورٹ نے انکشاف کیا کہ طویل قید کاٹنے والے افغانی قیدیوں میں سے آٹھ مبہم الزامات، سنی سنائی باتوں، غلط حقائق اور تشدد سے حاصل شدہ بیانات کی بنا پر دھر لئے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ’’افغانستان میں امریکی مداخلت کو 16 سال ہو چلے اور افغانیوں کا پہلا گروہ 15 سال پہلے گوانتانامو لایا گیا تھا، تاہم جنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ ایسے ہی امریکی مخمصہ بھی ختم ہونے کو نہیں آ رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بچے کھچے قیدیوں کا کیا کیا جائے۔‘‘
باراک اوباما گوانتانامو کا قید خانہ بند کرنے کے خواہاں تھے۔ وہ اپنی صدارت کے آخری ایام تک قیدیوں کو یہاں سے باہر لاتے رہے لیکن امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرچکے ہیں کہ گوانتانامو کے قیدیوں کی منتقلی روک دی جائے اور نئے قیدی یہاں لے آئے جائیں۔
حاجی غالب وفادار امریکی اتحادی ہونے کے باعث ننگرہار میں باتی کوٹ کا ضلعی حاکم ہے۔ یہ ضلع جہاں نارنگی کے باغات اور خربوزوں کے کھیت ہیں، طالبان اور داعش کے زیرِقبضہ علاقوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ اس کی امریکا سے وفاداری شاید اس کے ذاتی سانحے کا شاخسانہ ہے۔ 2013ء میں اس کا بھائی جو ننگرہار میں ایک سڑک کی حفاظت پر مامور تھا، طالبان سے ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔ چند ہفتے بعد جب غالب کے خاندان والے اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے آئے تھے، تو قبر کے پاس طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ پھٹنے سے 18 افراد ہلاک ہوگئے جن میں غالب کی دو بیویاں اور پوتے پوتیاں بھی شامل تھے۔ غالب کے سینے پر طالبان سے چھینا ہوا ایک واکی ٹاکی لٹک رہا تھا جب وہ اپنے قلعہ بند دفتر میں اے ایف پی کے نمائندے سے گفتگو کررہا تھا۔ عین اس وقت اس کا بڑا بیٹا ایک اور افسوسناک خبر لایا کہ اس کا ایک قریبی رشتے دار جس نے اسے چند منٹ پہلے چائے کی پیالی پیش کی تھی وہ ’’مارو اور بھاگو‘‘ قسم کی فائرنگ میں مارا گیا ہے۔ غالب غمزدہ ہو کر اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا کر بیٹھ گیا، پھر سنبھل کر بولا: ’’مسلم دوست جیسے لوگ غیرملکیوں سے لڑ رہے ہیں مگر زیادہ تر افغانیوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ اگر کبھی وہ میرے سامنے آیا تو میں اسے زندہ نہیں جانے دوں گا۔‘‘
عمر خضر 1990ء کی دہائی کے آخر میں اپنے باپ احمد سید خضر کے ہمراہ کینیڈا سے افغانستان منتقل ہوا تھا جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ عمر خضر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پیدا ہوا تھا۔ وہ حافظ قرآن تھا اور چار زبانیں انگریزی، اردو، عربی اور پشتو بول سکتا تھا۔ 2002ء میں امریکی اسے پکڑ کر گوانتاناموبے لے گئے۔ اگلے سال اس کا والد احمد سید خضر پاکستان کے قبائلی علاقے میں پاک فوج یا امریکیوں سے ایک جھڑپ میں مارا گیا۔ عمر خضر دس برس امریکیوں کی قید میں رہا مگر حکومت کینیڈا نے اپنے اس شہری کو چھڑانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ وہ بے گناہ تھا، چنانچہ 2012ء میں اسے کینیڈا کے حوالے کردیا گیا اور وہ مزید تین سال قید رہا۔ 2015ء میں رہا ہو کر اس نے حکومت کینیڈا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی۔ آخرکار 4 جولائی 2017ء کو عدالت نے حکم جاری کیا کہ حکومت عمر خضر کو 10 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے کیونکہ حکومت کی کوتاہی کے باعث اس کو اتنا عرصہ قید میں گزارنا پڑا۔

مطلقہ خبریں