Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی بالادستی کا اختتام۔۔؟

امریکی پابندیوں کے باوجود جرمنی نے ایران کے ساتھ توانائی مصنوعات کی تجارت دوبارہ شروع کردی ہے
اسلم اعوان
امریکی پابندیوں کے باوجود جرمنی نے ایران کے ساتھ توانائی مصنوعات کی تجارت دوبارہ شروع کردی ہے۔ ”یورو اسٹیٹ“ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی نے مارچ میں ایران سے تقریباً 70 ہزار میٹرک ٹن خام تیل کی بڑی کھیپ منگوائی ہے۔ قبل ازیں 2018ء میں جرمنی نے امریکا کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دستبرداری کے بعد تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد ہونے کی وجہ سے ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد روک دی تھی لیکن تازہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں ایران پر امریکی پابندیوں کی تعمیل کرنے میں تیزی سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہی ہیں، جس کی بنیادی وجہ یوکرین جنگ کے باعث بین الاقوامی توانائی کی منڈیوں میں پیدا ہونے والا وہ بحران ہے جو اُس وقت سامنے آیا جب یورپی یونین کی کچھ ریاستوں نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس پر عائد مغربی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ماسکو سے خام تیل اور گیس کی درآمد جاری رکھی، چنانچہ اس سال یورپی یونین کے ممالک کی طرف سے ایران سے پیٹرولیم کی درآمدات 66 ہزار 884 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئیں۔ مغربی تجزیہ کار چین، ایران اور روس کی طرف بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں کو ”بدلتے ہوئے عالمی نظام“ کی وسیع تر علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے مشرقِ وسطیٰ میں نمودار ہونے والی قومی ریاستوں کو اپنی متعین پالیسی کے تحت باہم متحارب بنا کر یہاں کے قدرتی وسائل، اقتصادی عوامل اور داخلی خودمختاری کو کنٹرول کرکے انہیں مغربی مفادات کے تابع رکھا۔ اس وقت مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت یورپ و امریکا، 20 فیصد جاپان اور 10 فیصد باقی دُنیا کے ساتھ منسلک ہے۔ گلف کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے ناتے چین اور بھارت قدرتی طور پر مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت کے حصہ دار تھے لیکن تراشیدہ باہمی تنازعات خاص طور پر عرب، اسرائیل تنازع کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تلخی کو اس تغیر کی راہ میں حائل رکھا گیا، تاہم عراق اور شام کی جنگوں میں سر کھپانے کے بعد جب حالات نے امریکا کو تیزی کے ساتھ میدانِ جنگ سے قدم نکال کر مڈل ایسٹ کو اسرائیل کے سپرد کرنے پر مجبور کیا تو اس گیپ سے راہ نکال کر عرب ریاستوں نے تل ابیب سے تعلقات استوار کرنے کے بعد ایران کے ساتھ دیرینہ تنازعات کو نمٹا کر خطے میں سیکیورٹی کا نیا توازن پیدا کرلیا۔ علاقائی رنجشوں کے حل میں ثالث کے طور پر چین کا کردار امریکا کے لئے ایک غیرمتوقع جھٹکا ثابت ہوا۔ ایران و سعودیہ، دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کی بحالی کو حتمی اعلان سے قبل عام نہیں کیا گیا۔ مغربی ماہرین اس معاہدے کو مڈل ایسٹ میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور خطے میں بڑا کردار ادا کرنے میں اس کی دلچسپی کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ خلیجی ممالک بیجنگ کے لئے توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور چینی مصنوعات کی وسیع مارکیٹ بن سکتے ہیں۔ چین کی مڈل ایسٹ کے پرانے تنازعات کو عمدہ طریقے سے نمٹانے میں کامیابی کو امریکا کے عالمی سپرپاور ہونے، خاص طور پر سرد جنگ کے مابعد عہد کا خاتمہ سمجھاجا رہا ہے۔
پچھلی سات دہائیوں میں سعودی عرب جیسے ممالک کے لئے امریکا واحد قابلِ عمل شراکت دار تھا لیکن اب ان ممالک کے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ چین اور روس انہیں اقتصادی، سیاسی اور عسکری معاونت دے سکتے ہیں اور یہ بھی ان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایران کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق مل کر رہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے قریب رہ کر امریکا نے ان ممالک کے مابین تنازعات کو پیچیدہ بنایا، چنانچہ آج بھی مغربی قوتیں ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تنازعات کو گہرا کرنے میں مفاد تلاش کرتی ہیں۔ چین نے مغرب کی اسی فکری خیانت کا فائدہ اٹھایا۔ ایران اور سعودی عرب نے کئی دہائیوں تک خطے میں پراکسی جنگیں لڑیں جس سے شام، عراق، لبنان اور یمن سمیت پورا گلف کا خطہ متاثر ہوا۔ دونوں کے درمیان پائیدار بات چیت خطے کے ممالک کے لئے خوبصورت موقع ثابت ہوئی جو دیرینہ مسائل کو تحلیل کرنے کا وسیلہ بنے گی۔ سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کی اچانک ڈیل نے واشنگٹن کو چکرا دیا ہے۔ چین نے اس معاہدے کی ثالثی کرکے امریکی خارجہ پالیسی کو پریشان کردیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کو لے کر خطے میں امریکا کے اقتصادی مفادات متاثر ہونے کے علاوہ نرم طاقت کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حامل اس معاہدے کے عالمی نظام پر وسیع پالیسی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین نے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی خاطر اقتصادی اور نرم طاقت کا استعمال کرکے قدم جما لیے۔ صدر شی جن پنگ کا گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے خطے کا تیسرا دورہ تھا۔ اپنے سفر کے دوران انہوں نے ریاض کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ چینی کمپنیوں نے 34 سے زائد معاہدوں پر دستخط کرکے اپنی قوم کی اقتصادی طاقت کا لوہا منوایا۔ عام خیال یہی ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں، اسی مقصدکے حصول میں وہ چین کو اہم حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودیہ ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی ”قومی مفاد“ کو متاثر کرے گی۔ واشنگٹن میں بہت سے لوگ اسے عالمی منظرنامے پر چین کی بڑھتی ہوئی بالادستی کے طور پر دیکھنے لگے اور تعلقات بحالی کے اس معاہدے کو امریکا پر عدم اعتماد کا ڈرامائی اظہار سمجھا گیا۔ امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو ریاض کے چین کی طرف رخ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی بنیادی ترجیحات پر نظرثانی کے چیلنج کے طور پر دیکھنا ہوگا، تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا کو گھبرانا نہیں چاہئے، سعودیہ ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی قومی مفاد میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور میں مہارت رکھنے والے کچھ ماہرین نے یہ دلیل بھی دی کہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ چین کے تعلقات نئی عالمی حقیقت ہیں، پالیسی سازوں کو اسے قبول کرلینا چاہئے، تاہم امریکیوں کے لئے یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ سعودی عرب ایران سے اپنے تعلقات کی بحالی کا خواہاں کیونکر ہوا؟ سائمن ہینڈرسن نے لکھا ”ایسا لگتا ہے کہ ریاض نے تہران کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس میں ڈیموکریٹس کی جانب سے سعودی عرب کو ملنے والی دشمنی اور امریکی حمایت میں بتدریج کمی کے سبب کیا ہے۔ رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ ایران کی حالیہ جوہری پیشرفت کے جواب میں امریکی کارروائی کا فقدان اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا جس نے ریاض کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ فیصلہ کن قدم اٹھائے۔ بہرحال، سعودی عرب کے لئے اس معاہدے کا مقصد محض معاشی نہیں بلکہ سیکیورٹی کے ذرائع کو متنوع بنانا ہے۔ سعودی عرب نے حوثی میزائل اور ڈرون حملوں کے خلاف اپنی سرزمین کے دفاع پر لاکھوں ڈالر خرچ کئے، اس لئے یمن کی خانہ جنگی کو ٹھنڈا کرنا سعودی عرب کے لئے نہایت اہم محرک تھا۔ ایران بھی اس معاہدے کو اپنی موجودہ جوہری پالیسی کی خاموش توثیق سمجھتا ہے۔ بلاشبہ ایران کو سعودی عرب کے ساتھ معاہدے سے بہت کچھ حاصل ہوا۔ امریکی ماہرین اس معاہدے کو تہران کی جیت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی پوزیشن کے لئے بڑا قدم ہے اور یہ معاہدہ اسے عالمی تنہائی سے نکالنے کا وسیلہ بن گیا ہے۔ دوسری جانب معاہدے میں ثالثی کرکے چین نے واضح کیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں بڑا کھلاڑی بن چکا ہے، چنانچہ بیجنگ خطے میں دیگر طریقوں کے علاوہ خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی اور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے اپنی اقتصادی طاقت کے استعمال کا دائرہ بڑھاتا رہے گا۔ چین نے نہ صرف سعودی عرب اور ایران کی صورت میں مضبوط اتحادی تلاش کر لئے بلکہ وہ واشنگٹن کو کمزور کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ ”یہ معاہدہ واشنگٹن کے لئے اضافی تھپڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو دراصل مشرق وسطیٰ میں بیجنگ کی قیادت میں ایک نئے ورلڈ آرڈرکا اشارہ ہے“۔

مطلقہ خبریں