اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دنیا بھر کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے اور افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک میں امن، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کیں اور اپنے علاقوں سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کا خاتمہ کیا اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا، افغانستان میں امن کی ضرورت سب سے زیادہ پاکستان کو ہے کیونکہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے ہمسایہ ملک بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیریوں کو طاقت کے زور پر دبا رہا ہے اور کشمیریوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بھارت کشمیر میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اور ان کے بقول اقوامِ متحدہ کو چاہئے کہ وہ وہاں اپنا مشن بھیجے جو جنگی جرائم کا جائزہ لے کر مرتکب افراد کو سزا دے۔ وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کیلئے ایک خصوصی مندوب یا ایلچی بھی مقرر کرے۔ شاہد خاقان عباسی نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ اْسے بھی کشمیر میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہے لیکن اْن کے بقول اس کیلئے بھارت کو پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں کی مدد یا معاونت بند کرنا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر بھارت لائن آف کنٹرول کے پار مہم جوئی یا پاکستان کے خلاف محدود جنگ کے نظریے پر عمل کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں پاکستان کی جوہری طاقت ہونے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو یہ قدم اپنے پڑوسی کی جانب سے اس سمت میں پہل کرنے کی وجہ سے اور اپنے تحفظ کیلئے اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ بتاتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو مل کر اس چیلنج کا جواب دینا چاہئے۔ وزیراعظم نے آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیرس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس پہلے انہوں نے امریکا کے نائب صدر مائیک پینس سے تفصیلی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے مختصر ملاقات کی ہے۔ مائیک پینس سے ملاقات کے دوران دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر مائیک پینس نے کہا ’’امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بہترین تعلقات کی نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں‘‘۔ امریکی نائب صدر نے کہا ’’امن اور سلامتی کے شعبوں میں امریکا پاکستان کے ساتھ دیرپا اور طویل المدت شراکت داری کا متمنی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف پاکستان کی جانب سے جاری کارروائی ’’ردالفساد‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے، پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا ’’پاکستان افغانستان کے امن، استحکام اور سلامتی کا خواہاں ہے اور اس عزم پر قائم ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ مل کر جیتی جاسکتی ہے جبکہ وزیراعظم سے نیو یارک میں ’’کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ کے ارکان نے ملاقات کی جس میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی اولین ترجیح ہے، جس کے حصول کیلئے پاکستان افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔ پاکستان کسی قسم کی تفریق کے بغیر تمام دہشت گرد اور انتہاپسند گروپوں کے خلاف نبردآزما ہے اور یہ کہ اس جنگ کو موثر طریقے اور اپنے وسائل سے لڑا جا رہا ہے۔
انہوں نے وہاں موجود مختلف وفود کے سامنے دہشت گردی کے حوالے سے امریکا کی جانب سے لگائے گئے الزامات اور امداد پر بھی دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ فوجی امداد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فوجی امداد انتہائی محدود ہے۔ ان برسوں کے دوران 10 لاکھ سے زیادہ سورٹیز ریکارڈ پر ہیں جبکہ اتحادی افواج کیلئے سازوسامان کی آمدورفت پاکستان کی سرزمین سے ہوتی رہی، جس کیلئے پاکستان نے کبھی کسی رقم کا تقاضا نہیں کیا‘‘۔ دوسری جانب انہوں نے کہا کہ سول شعبہ جات میں یو ایس ایڈ نے انتہائی شاندار کام کیا ہے۔ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام عالمی اصولوں کا پابند ہے، جس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول مستعد اور پْرعزم ہاتھوں میں ہے، جس پر شک کی گنجائش نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے پاکستان ایک ذمہ دار ملک ثابت ہوا ہے۔