ضمیر آفاقی
پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے اور پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ پاکستان کی 1,046 کلومیٹر (650 میل) لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاک بحریہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد وجود میں آئی، ایڈمرل محمد ذکا اللہ موجودہ سربراہ ہیں۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ نے محدود بیرون ملک آپریشنز کیے اور پاکستان انترکٹک پروگرام کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گزر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات، اسمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تیزی لائی ہے۔ 2004ء میں پاکستان نیٹو مشترکہ ٹاسک فورس سی ٹی ایف-150 کا رکن بن گیا۔
پاکستان کے آئین کے تحت صدر پاکستان مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ چیف آف نیول اسٹاف (سی این ایس) جو چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کا تقرر وزیراعظم، صدر سے مشاورت کے بعد کرتا ہے۔ چیف آف نیول اسٹاف سویلین وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاک بحریہ کے زیرانتظام ’’محفوظ سمندر، خوشحال پاکستان‘‘ کے موضوع پر پاکستان نیوی وار کالج لاہور میں میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان، صوبائی نمائندوں، ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد، ماہرین تعلیم اور اعلیٰ سرکاری حکام شامل تھے۔ دو ہفتوں پر محیط ورکشاپ کا آغاز 11 ستمبر کو ہوا جس کا مقصد شرکاء کو بحری امور سے متعلق آگاہی فراہم کرنا اور ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی میں پاکستان کے وسیع و عریض بحری شعبے کے کردار اور سمندروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور سمندری وسائل کے بھرپور استعمال سے متعلق آگاہی کے ساتھ سمندری تجارت کو محفوظ تر بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور سمندر کے قدرتی ماحول کو ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے طریقوں کے متعلق آگاہی پیدا کرنا تھا۔
پندرہ روزہ میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ کا پہلا ہفتہ کالج کے اندر ہونے والی علمی سرگرمیوں جبکہ دوسرا مرحلہ کراچی، کریکس ایریاز اور ساحلی علاقوں میں قائم پاک بحریہ کی تنصیبات اور یونٹس اور دیگر قومی بحری اداروں کے دوروں پر مشتمل تھا۔ ورکشاپ کے دوسرے مرحلے کا آغاز 18 ستمبر کو ہوا۔ کراچی میں قیام کے دوران پاک نیوی کے افسران نے وفد کو پاکستان نیوی فلیٹ ہیڈکوارٹرز، پی این ڈاکیارڈ، کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس، پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور سندھ فشریز ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کرایا۔
اراکین وفد کو خطے کے موجودہ چیلنجز اور ملک کے بحری مفادات کے تحفظ میں پاک بحریہ اور اس کی مختلف کمانڈز کے کردار پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ شرکا کو پاکستان نیوی کے اندرونِ ملک جہاز سازی کے پروگرام اور جہازوں اور آبدوزوں کی مرمت کرنے کی صلاحیتوں سے آگاہ کیا گیا۔ وفد کے ارکان نے پاکستان نیوی کے جہازوں کا بھی دورہ کیا اور کراچی کے ساحل کے قریب ہونے والی بحری مشقیں دیکھیں۔ بعدازاں، ورکشاپ کے شرکا نے کریکس ایریاز میں قائم پاک بحریہ کی فارورڈ بیسز کا بھی دورہ کیا جہاں کمانڈر پاک میرینز نے اس علاقے کی دفاعی اور اقتصادی اہمیت پر روشنی ڈالی اور موجودہ چیلنجز کے تناظر میں پاک میرینز کے کردار کو واضح کیا۔
وفد کے ارکان نے پی این ہوور کرافٹ کے ذریعے کریکس ایریاز کا دورہ کیا۔ کوسٹل ایریاز آمد پر اراکین وفد نے جناح نیول بیس اور ماڑہ کا دورہ کیا جہاں انہیں بیس کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دی گئی۔ وفد کو ساحلِ مکران پر قومی ترقیاتی منصوبوں اور ساحلی پٹی پر آباد بلوچ عوام کی سماجی و اقتصادی بہود کے حوالے سے پاک بحریہ کی کاوشوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ کیڈٹ کالج اور ماڑہ آمد پر اراکین وفد کو کیڈٹس کو دی جانے والی سہولیات اور ان اقدامات سے آگاہی فراہم کی گئی جو اس کالج کو ساحلِ مکران پر قائم ایک اعلیٰ اور معیاری تربیتی ادارہ بنانے کے لئے اٹھائے جا رہے ہیں۔
وفد کے اراکین کو 100 بستروں پر مشتمل پاک بحریہ کے اسپتال پی این ایس درمان جاہ بھی لے جایا گیا جہاں انہیں بتایا گیا کہ پاکستان نیوی اس اسپتال میں مقامی افراد اور ساحلی پٹی کے اطراف آباد لوگوں کو مفت طبی سہولیات مہیا کر رہی ہے۔ اپنے دورے کے آخری مرحلے میں میری ٹائم سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا گوادر پورٹ پہنچے۔ وفد کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے اس بندرگاہ کی اہمیت اور ان موثر اقدامات پر بریفنگ دی گئی جو پاک بحریہ نے سی پیک کے بحری جز بشمول گوادر پورٹ اور سمندری راہداریوں کے تحفظ کے لئے اٹھائے ہیں۔ وفد کے ارکان نے سی پیک اور گوادر پورٹ کے تحفظ کے حوالے سے پاک بحریہ کی آپریشنل تیاریوں اور قومی ترقی کے منصوبوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور بحر ہند میں پاکستان کے بحری مفادات کے تحفظ کے لئے پاک بحریہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کو سراہا۔ ورکشاپ کے شرکا نے نیول ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا بھی دورہ کیا جہاں انہیں پاکستان کی بحری سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے پاک بحریہ کے کردار پر بریفنگ دی گئی۔
دو ہفتوں پر محیط میری ٹائم سیکورٹی ورکشاپ کا اختتام 25 ستمبر کو لاہور میں نیوی وار کالج میں ہوا جہاں صدر مملکت ممنون حسین نے شرکا میں سرٹیفیکٹ تقسیم کئے اور بعدازاں اپنے خطاب میں خطے میں جوہری پھیلاؤ اور روایتی بحری قوت میں اضافے کے پیش نظر مسلسل چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کو لاحق خدشات اور خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں، خطے کا روشن اور خوشحال مستقبل سی پیک سے منسلک ہے اس کی فعالی محض ایک بندرگاہ کے وجود میں آنے اور مختلف خطوں کو ایک شاہراہ کے ذریعے باہم ملانے کا کام ہی نہیں کرے گی بلکہ بری اور بحری دونوں شعبوں میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا ذریعہ بنے گی۔ ممنون حسین نے کہا کہ یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی فعالی محض ایک بندرگاہ کے وجود میں آنے اور مختلف خطوں کو ایک شاہراہ کے ذریعے باہم ملانے کا کام ہی نہیں کرے گی بلکہ بری اور بحری، دونوں شعبوں میں انفرااسٹرکچر کا ایک ایسا عظیم الشان جال بچھ جائے گا، تاریخ میں جس کی نظیر مشکل سے ہی ملے گی۔
پاکستان کے بحری وسائل کو بروئے کار لانے کے ضمن میں ضروری ہے کہ اس حوالے سے ذہن میں ایک واضح نقشہ موجود ہو کیونکہ اس معاملے کا تعلق صرف بری و بحری آمدورفت تک ہی محدود نہیں لہٰذا اقتصادی راہداری کی فعالی کے بعد ہمیں بعض دیگر ضروری شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جن میں شب یارڈ، جہاز سازی کی صنعت، انجینئرنگ کے شعبے اور ماہی گیری کے علاوہ جہاز رانی، ٹرانس شپمنٹ کی اہلیت، بندرگاہیں اور گودیاں، بحری معدنیات و غذائیات، بحری ذرائع سے حاصل ہونے والی قابل تجدید توانائی اور ساحلی و بحری سیاحت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ قومی معیشت کے استحکام اور وطن عزیز کی سمندری حدود کے تحفظ کے لئے مستقبل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان شعبوں کو بھرپور ترقی دی جائے اور اپنے عہد کی بہترین سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کو لاحق خدشات اور خطرات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں جبکہ خطبہ استقبالیہ میں کالج کمانڈنٹ ریئر ایڈمرل معظم الیاس نے نیوی وار کالج لاہور کے کام طریقہ کار اور کارکردگی مفصل روشی ڈالی۔ اس پُروقار اور انتہائی معلوماتی تقریب میں ایڈمرل محمد زکا اللہ بھی موجود تھے جن کی کاوشوں سے اس شاندار ورکشاپ کا انعقاد ممکن اور ان امور سے آگاہی بھی میسر آئی، اس سے پہلے جن سے ہم لوگ ناآشنا تھے۔ قوم کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسلح افواج اور خاص طور پر پاک بحریہ قومی سلامتی کو لاحق ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کی بخوبی صلاحیت رکھتی ہے۔