امریکی سینٹ کام کے کمانڈر نے اپنے وفد کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس میں پاک امریکہ تعلقات اور افغانستان کے امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ کو دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمیں امداد نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج اور عوام کی قربانیوں کا اعتراف چاہئے، جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک دلچسپی نہیں رکھتا، پاکستان نے ہر رنگ و نسل کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا ہے، مالی مدد اور معاونت سے زیادہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ پاکستان نے خطے میں امن کے لئے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا جائے، ملاقات میں دفاعی امور، افغانستان میں قیامِ امن اور پاک افغان بارڈر کی صورتِ حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر علاقائی استحکام کے لئے بھرپور کردار ادا کیا ہے، پاکستان دہائیوں سے علاقائی استحکام کے لئے کوششیں کررہا ہے، بلاشبہ دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں اور کامیابیوں کے حوالے سے امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ کو آرمی چیف نے تمام تر حقائق سے احسن طور پر آگاہ کیا۔ ان کا یہ استدلال بہت وزنی ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان کو افغانستان کے امن سے زیادہ دلچسپی ہے اس لئے کہ پاکستان اس کا پڑوسی برادر ملک ہے، دونوں ملکوں کے عوام باہمی رشتے داریوں میں بھی منسلک ہیں اور افغانستان کا عدم استحکام براہ راست پاکستان پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہاں کے عوام کسی بھی مشکل صورتِ حال میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ افغانستان میں امن و استحکام اور خوشحالی ہوگی تو یہاں کے عوام اس کا رخ نہیں کریں گے اور وہ سماجی و معاشی اضافی دباؤ سے محفوظ رہے گا لیکن یہ ضروری ہے کہ دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی جن میں امریکہ پیش پیش ہے، اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں، اس خیال کو یکسر اذہان سے نکال دینا چاہئے کہ مزید طاقت کے استعمال سے یہاں امن قائم کیا جاسکتا ہے، امریکہ اور نیٹو نے طاقت کا بھرپور استعمال کر کے دیکھ لیا وہ کس حد تک امن قائم کرسکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اس کی فوج کی ناکامیوں پر مسلسل بحث ہورہی ہے، بلیک واٹر کے کنٹریکٹر کو افغانستان میں کردار دینے یا مزید فوج بھیجنے سے امن قائم نہیں ہوگا، البتہ مزید تباہی اور بربریت کے مناظر سامنے آئیں گے اور دونوں طرف سے مزید خون بہے گا، افغانستان میں چار ملکی رابطہ گروپ کی مشاورت سے ہی امن کے لئے کام کیا جاسکتا ہے اور اس طرف توجہ دی جانی چاہئے، اس کی بربادی کے مزید منصوبوں سے گریز کیا جانا چاہئے، یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی جرنیل کی طرف سے حقانی گروپ کو نظرانداز کرنے کا بے بنیاد معاملہ نہیں اٹھایا گیا جس پر یقیناً پاکستان کے عوام اطمینان محسوس کرسکتے ہیں۔