Tuesday, June 10, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغانستان جنگ کے بدلتے ہوئے انداز

جنرل مرزا اسلم بیگ

افغانستان کی جنگ آزادی میں تین دہائیوں کے قلیل عرصے میں جنگ کے طریقوں میں دو مرتبہ اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 1987ء میں افغان مجاہدین نے اسٹنگر میزائلوں کے ذریعے روسیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور اب خودکش بمباروں کے ذریعے امریکیوں کو افغانستان سے متعلق منصوبے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
اسٹنگرز میزائل
اُنیس سو چھیاسی میں روسیوں نے افغانستان میں ہیلی بورن کمانڈو بریگیڈ شامل کیا، جس سے مجاہدین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کرسٹ نے پشاور میں میرے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا۔ وہ مجاہدین کی پسپائی اختیار کرنے پر حیران تھے، اس کے ایک ہفتہ کے اندر امریکی فوج کے کمانڈر جنرل وکم نے مجاہدین کے پسپا ہونے کی تصدیق کرنے کے لئے پشاور کا دورہ کیا۔ انہوں نے حالات کا زمینی جائزہ لیا اور مجاہدین کو ہاتھ سے چلنے والے اسٹنگر میزائلوں کی ضرورت کے معاملے پر مطمئن ہو کر واپس چلے گئے اور جلد ہی مجاہدین کو اسٹنگر میزائل دے دیئے گئے جنہیں مجاہدین نے استعمال کیا اور روسی ہیلی کاپٹروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کے سبب جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور روسیوں کو پسپا ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ ہر لحاظ سے مناسب اور بروقت فیصلہ تھا۔
خودکش بمبار
یہ کوئی نئی ایجاد نہیں۔ طالبان کمانڈر ہیبت اللہ کے بیٹے عبدالرحمن خالد کی قیادت میں خودکش بمباروں کے دستے نے بارود بھری امریکی (ہموی) پر بیٹھ کر خودکش حملہ کرکے مدافعت کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ اس کارروائی نے نوجوان حریت پسندوں کو نیا ولولہ عطا کیا کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کریں گے۔ ذرا سوچئے کہ اگر خودکش بمباروں سے بھری ہوئی نصف درجن ایسی گاڑیاں کسی ٹھکانے پر حملہ کردیں تو دفاعی فوجوں کی ہمت اور حوصلے کو توڑ کر رکھ دیں گی اور جب وہ بھاگیں گے تو ان کے پیچھے درجنوں خودکش بمبار ان کا تعاقب کر رہے ہوں گے اور اس طرح ایک کے بعد دوسرے حصار ٹوٹتے جائیں گے۔ اب ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی سازوں نے ان خطرات کو بھانپ لیا ہے اور افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔
دراصل امریکہ اور اس کے اتحادی 2010ء میں مکمل طور پر شکست کھا چکے تھے لیکن ان میں روسیوں کی طرح شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ امریکہ نے اپنا نمائندہ رچرڈ آرمیٹیج جوکہ افغانستان کے سینیٹ کی کمیٹی کے سربراہ تھے انہیں میری طرف بھیجا تاکہ افغان مجاہدین کے ساتھ بات چیت کی راہ نکالی جائے۔ (رچرڈ آرمیٹیج وہی شخص ہیں جنہوں نے 9/11 کے بعد جنرل مشرف کو سخت دھمکیاں دیں اور انہیں افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے لئے امریکہ کے سات مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کردیا) ہم نے ملا عمر سے رابطہ کیا اور ان کی جانب سے اشارہ مل چکا تھا اور انہوں نے امریکیوں سے بات چیت کے لئے ایک پانچ رکنی وفد بھی تیار کرلیا لیکن اسی دوران واشنگٹن میں کچھ ایسی سازش بنی کہ پنٹاگون نے رچرڈ آرمیٹیج کو روک دیا جنہوں نے کرنل امام اور خالد خواجہ کے اغوا اور قتل کے بعد ہمارے ساتھ رابطے ختم کر دیئے۔
دوہزار دس سے امریکہ اور اس کے اتحادی سامنے نظر آتی ہوئی شکست کو فتح میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ملا عمر کے پُرعزم مطالبے کی وجہ سے اس سلسلے میں انہیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی۔ ملا عمر نے کہا تھا کہ افغانستان سے نکل جاؤ اور ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دو۔ ایسا بہر صورت ہونا ہی تھا جیسا کہ میں نے بھری محفل میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے افغانستان کے خلاف امریکی جنگ میں شامل ہونے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ طالبان پھر سے منظم ہو کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے ملک کی مکمل آزادی تک جنگ لڑیں گے، وہ جیتیں گے اور امریکہ اور اتحادی ہار جائیں گے۔ میری اس بات پر سب حاضرین طنزاً ہنس پڑے تھے مگر آج وہ خود اپنے آپ پر ہنس رہے ہوں گے۔ لہٰذا اب امریکہ کے ممتاز تجزیہ کار اور پالیسی ساز حلقوں کی جانب سے افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی تبدیل کرنے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ 16 سال تک خزانے لٹانے اور اتنا بیش بہا خون بہانے کے باوجود محفوظ اور پُرامن افغانستان کے خواب کی تکمیل کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ (ہارلن اولمن, سینیر مشیر سپریم الائڈ کمانڈ یورپ-۲۰۱٦ -۲۰۰۴
ہم افغانستان میں اس وقت تک ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہمیں پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل نہ ہو۔ (جنرل ڈیون فورڈ امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف)
وائٹ ہاؤس کو اب اس امر کا ادراک کرلینا چاہئے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج سالانہ 23 بلین ڈالر سے زائد اخراجات کررہی ہے لیکن اس کے مقابلے میں امریکی مفادات کا تحفظ بہت کم ہے۔ ایک ناکام جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کو بڑھانا کسی طور سودمند فعل نہیں ہے۔ امریکی فوج ماضی کی کارروائی ہی دہرا رہی ہے لیکن توقع مختلف نتائج کی ہے۔
* امریکی پالیسی ساز حلقوں نے بالآخر افغانستان کے بارے منصوبے تبدیل کرنے کی ضرورت کا ادراک کرلیا ہے جو پچیس سال سے ایک ہی پالیسی پر گامزن ہیں اور توقعات مختلف نتائج کی رکھتے ہیں۔ یہ عقلمندی کی علامت ہرگز نہیں ہے کہ آپ بار بار ایک ہی جیسی کارروائیاں کرتے رہیں اور توقع مختلف نتائج کی رکھیں۔
* اگر امریکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر قبضہ کر کے انہیں آزاد کرانا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ دہشت گردوں کا صفایا ہو اسے اپنی فوجوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور افغانستان کی سرزمین افغانیوں کے لئے تنگ نہ ہوگی۔
* پاکستان کے لئے تذویراتی گہرائی کا مطالبہ طالبان کے غیرملکی فوجوں کے انخلاء اور افغان (پاکستان) پختونوں کوغیرملکی دباؤ سے آزاد باعزت زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے، برحق ہے۔ اگرچہ یہ بہت ہی مشکل فیصلہ ہے لیکن بدترین اقدامات کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔
امریکہ کو اب ہمارے تذویراتی گہرائی کے نظریے کی حقیقت کا ادراک ہوا ہے کیونکہ افغانستان میں تحریک آزادی اب عروج پر ہے اور اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں پاکستان، ایران اور افغانستان 1988ء کی طرح باہمی اتحاد سے خطے میں مسلم ممالک کا تذویراتی محور بنا سکتے ہیں اور تمام زاویوں سے تذویراتی سلامتی کے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ 25 اگست 1988ء کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف بننے پر میں نے اپنے سینئر افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اسلام کے غلبے اور جمہوری اقدار کی ترویج کا سورج طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان تینوں ممالک باہم متحد ہو کر آزاد، مستحکم اور پُرعزم انداز سے مشترکہ منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک باہمی اتحاد سے طاقت کے ایک مرکز کا روپ دھار سکتے ہیں۔ یہی اتحاد عالم اسلام کی تذویراتی گہرائی کا نظریہ ہے۔
یہ ایسا نظریہ ہے جسے بہرصورت حقیقت کا روپ دھارنا لازم ہے۔ اس نظریے کے خلاف ہمارے دشمنوں سے زیادہ ہمارے اپنے آستین کے سانپوں نے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہے وہ خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے تاکہ افغانستان سے غیرملکی فوجو ں کے انخلاء کا ہمارا مطالبہ پورا ہوسکے اور ہم غیروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے آزاد باعزت زندگی گزار سکیں۔ ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ ہماری حکومت اس اہم مسئلہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا اولین ہدف سمجھتے ہوئے، شرمندہ تعبیر کرنے کی ہرممکن جدوجہد کرے گی۔ اس خواب کی تعبیر ملکی دفاع کی سب سے اہم حقیقت ہوگی۔

مطلقہ خبریں