ایس انجم آصف
بھارت سمیت پوری دُنیا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے، جس نے مئی 1998ء میں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کرکے دُنیا پر واضح کردیا تھا کہ بھارت ہی نہیں، پاکستان بھی جنوبی ایشیا میں ایک بڑی ایٹمی قوت ہے۔ بھارت کے ردعمل میں شروع کئے جانے والے ایٹمی پروگرام میں پاکستان نے جس تیز رفتاری سے پیش رفت و ترقی کی ہے، اس نے بھارت سمیت تمام دُنیا کو حیرت و استعجاب سے دوچار کیا ہے۔ پاکستان سے بہت پہلے مئی 1974ء میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر اپنے پہلے ایٹمی دھمکے سے دُنیا بھر کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے حصول پر یقین و دلچسپی رکھتا ہے۔
بھارت نے مئی 1974ء کے ایٹمی دھماکے سے دُنیا کو حیرت سے دوچار کیا تھا، کیونکہ بھارت نے اس ایٹمی دھماکے کے لئے پلوٹونیم کینیڈا کے فراہم کردہ ریسرچ ری ایکٹر سے حاصل کیا تھا، جو کینیڈا نے بھارت اور پاکستان کو فراہم کئے تھے اور جن کا مقصد پُرامن استعمال تھا، نہ کہ فوجی، لیکن بھارت نے اپنی روایتی عیاری، چالاکی اور دھوکہ بازی سے اس پُرامن مقاصد کے لئے فراہم کئے جانے والے ری ایکٹر سے حاصل شدہ پلوٹونیم کو ایٹمی دھماکے لئے استعمال کرکے ثابت کیا کہ بھارت ایک دھوکے باز اور ناقابل اعتبار ریاست ہے، جس کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔ بھارت کے پہلے دھماکے کے بعد ردعمل کے طور پر کینیڈا نے بھارت اور پاکستان دونوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ بھارت پر عائد کردہ پابندیاں تو درست تھیں، کیونکہ بھارت نے اپنے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے دھماکہ کیا تھا، لیکن پاکستان پر عائد کی جانے والی پابندی درست نہ تھی، کیونکہ پاکستان نے ایسی کوئی وعدہ خلاف نہیں کی تھی، جیسا کہ بھارت نے کی تھی۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کا ردعمل ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار، بھارتی روایتی فوجی قوت جوکہ پاکستان کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا موثر جواب ہیں۔ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے خوف (ڈیٹرنس) نے بھارت کو ہمارے خلاف کسی بھی جارحیت سے روک رکھا ہے اور یہ پاکستان کے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز بھی ہیں، جنہوں نے بھارت کو اپنی کولڈ اسٹارٹ اسٹرٹیجی پر عمل سے باز رکھا ہے، بلکہ اب تو بھارت کولڈ اسٹارٹ اسٹرٹیجی ڈاکٹرائن کے وجود سے ہی انکاری ہے جبکہ 2009ء میں بھارتی بری فوج کے سابق سربراہ جنرل دیپک کپور نے فخریہ انداز میں بھارت کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے خدوخال بیان کئے تھے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں کے بعد بنائے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی نوعیت جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی نوعیت کی ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان نے اپنی اٹمی ڈاکٹرائن فر سٹ یوز استوار کی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی نوعیت دفاعی ہے، کیونکہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار صرف اس وقت اولین طور پر استعمال کرے گا، جب اس کی سلامتی کو سنگین خطرات کا سامنا ہو۔ پاکستان کی فر سٹ یوز پالیسی کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کسی بھی جنگ میں بلاکسی ضرورت اور اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس کئے بغیر ان کا استعمال کردے گا۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ممکن صورتِ حال (سنیا ریو) کے بارے میں بڑی وضاحت سے بتایا جا چکا ہے۔
پاکستان نے بڑے واضح انداز میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت، ان کے ممکن استعمال اور ان کی تعداد کے بارے میں وضاحت کر رکھی ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت، امریکہ و دیگر مغربی ممالک پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، جس میں ایسی گمراہ کن اور فرضی باتیں بیان کی جاتی ہیں، جن کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام یا ہتھیاروں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بھارتی، امریکی اور مغربی میڈیا گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے بارے میں پروپیگنڈا کرتے چلے آرہے ہیں، جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بھارت سے زیادہ ہے اور پاکستان چند برسوں میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعدد کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن جائے گا، یعنی چند برسوں بعد پاکستان، امریکہ اور روس کے بعد تیسری بڑی ایٹمی قوت ہوگا۔ بین الاقوامی میڈیا بھارت اور امریکہ کی شہ پر اس قسم کا گمراہ کن پروپیگنڈا کررہا ہے جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل نکات سے لگایا جاسکتا ہے۔
* پاکستان عالمی طور پر نہ سپر پاور ہے اور نہ ہی علاقائی پاور، چنانچہ اس قسم کے عزائم نہ رکھنے کے باوجود پاکستان کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
* پاکستان بھارت اور اسرائیل کی طرح توسیع پسندانہ ریاست نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مقصد علاقے کی تھانہ داری یا چوہدراہٹ حاصل کرنا ہے، تو پھر پاکستان کو بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت کیونکر ہوسکتی ہے؟
* پاکستان کا ایٹمی پروگرام انڈین اسپیفک ہے، یعنی بھارتی پروگرام کا ردعمل ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھارتی جارحیت کے مقابلے کے لئے بنائے گئے ہیں، چنانچہ بھارتی خطرات سے نمنٹنے کے لئے پاکستان کو محدود ہتھیاروں کی ضرورت ہے، جوکہ اس کے پاس موجود ہیں۔ پاکستان کو بھارتی خطرے سے نمٹنے کے لئے اتنے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں کہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے اعتبار سے اس کا شمار چند برسوں بعد امریکہ اور روس کے بعد تیسرے ملک کے طور پر کیا جانے لگے۔
* پاکستان کے موجودہ ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 130، جبکہ بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 90 بتائی جاتی ہے۔ یہ بات ایک صاف جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں، جسے باآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت محدود ہے، جنہیں بھارت کے خطرے کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے جبکہ بھارت کا ایٹمی پروگرام پاکستان اور چین کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت کے خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان بڑی تعداد میں ہتھیار بنائے جبکہ پاکستان اور چین کے خطرہ کو دیکھتے ہوئے بھارت محض 90 ایٹمی ہتھیاروں پر تکیہ کرے؟
بھارت نے امریکہ، روس، جاپان، کینیڈا سمیت کئی ممالک کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جبکہ آسٹریلیا سے بھارت نے یورینیم کے حصول کے لئے معاہدہ کررکھا ہے۔ بھارت ان معاہدوں کے تحت ان ممالک سے ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی ایندھن حاصل کرتا ہے، جسے وہ ان ایٹمی ری ایکٹروں میں استعمال کرتا ہے، جو آئی اے ای اے کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، لیکن بھارت خود اپنے ان درجنوں ایٹمی ری ایکٹروں میں جن تک آئی اے ای اے کی رسائی نہیں، دن رات ایٹمی ایندھن تیار کرتا ہے، جسے باآسانی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت انہیں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں میں استعمال نہ کرتا ہو۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی یا پھر وہ جانتے بوجھتے اس جانب سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اسرائیل کے 250 سے زائد ثابت شدہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
حال ہی میں بھارت کے ایک خفیہ ایٹمی شہر کا انکشاف ہوا ہے، جو چلاکرے میں واقع ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھارت نے اسے تھرمو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے لئے قائم کیا ہے تو کیا بھارت نے یہ خفیہ ایٹمی شہر جوکہ بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، دیوالی کے موقع پر پٹاخے تیار کرنے کے لئے قائم کیا ہے؟ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تو نظر آجاتے ہیں، بھارت کا یہ میلوں پر پھیلا ہوا خفیہ ایٹمی شہر نظر نہیں آتا۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اب مینیمم نیوکلیئر ڈیفرنس سے نکل کر بڑے پیمانے پر فل اسپیکٹرم نیوکلیئر ڈیفرنس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جس کے لئے پاکستان کو زیادہ تعداد میں ایٹمی وار ہیڈز کی ضروقرت ہے، اگر اس ب ات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی پاکستان کو اتنے ایٹمی وار ہیڈز کی ضرورت نہیں، جتنی کہ بھارت کو ضرورت ہے، کیونکہ بھارت خود کو ایک بڑی علاقائی ایٹمی قوت ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے چین کو چیلنج کرنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کے ایسے کوئی عزائم نہیں۔ جب اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کو اپنے چھوٹے اور غیرایٹمی عرب ملکوں سے نمٹنے کے لئے 250 سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے کی ضرورت درپیش ہے تو بھارت محض 90 ایٹمی ہتھیاروں پر کس طرح تکیہ کرسکتا ہے؟
بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ سے خاص استثنیٰ حاصل کرنے کے باوجود این ایس جی کی رکنیت کے لئے کیوں پاپڑ بیل رہا ہے۔ کیا اس بات کو سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟
پاکستان کو تو بھارت کی طرح این ایس جی سے کسی قسم کا استثنیٰ بھی حاصل نہیں اور نہ ہی پاکستان کو ایسے کسی استثنیٰ کی ضرورت ہے، کیونکہ اسے بھارتی خطرے سے نمٹنے کے لئے محدود تعداد میں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہے، جوکہ اس کے پاس موجود ہیں۔ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کا ڈھیر لگانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔
امریکہ کے معروف تھنک ٹینکس کارینکی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس اور اسٹیم سون سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس اِس وقت پلوٹونیم کی مقدار 600 کلوگرام اور پاکستان کے پاس اس کی مقدار محض 170 کلوگرام ہے جبکہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری میں پانچ کلوگرام پلوٹونیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنے پاس موجود پلوٹونیم کے اسٹاک سے بھارت کو ضرورت پڑے تو 120 ایٹمی ہتھیار جبکہ پاکستان محض 34 ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ بھارت پلوٹونیم کے ذخائر میں اضافے کے لئے مزید اقدامات کررہا ہے تاکہ پاکستان پر بھارت کی برتری قائم رہے۔ بھارت میں چلاکرے کے مقام پر تعمیر کیا جانے والا ایٹمی شہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
بھارت کی یورینیم کے برعکس پلوٹونیم میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پلوٹونیم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لئے ایک انتہائی مطلوب ذریعہ ہے، کیونکہ پلوٹونیم کے ذریعے کم مدت میں یورینیم کی قوت کے برابر طاقتور فیشن بم تیار کیا جاسکتا ہے۔ پلوٹونیم یورینیم کے مقابلے میں نہ صرف ہلکی ہوتی ہے بلکہ بیلسٹک میزائلوں میں پلوٹونیم سے تیار کردہ ایٹمی وار ہیڈز کو بڑی آسانی کے ساتھ نصب کیا جاسکتا ہے اور پلوٹونیم بیلسٹک میزائلوں میں نصب کئے جانے کے لئے موزوں تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام یورینیم پر، جبکہ بھارت کا پلوٹونیم پر انحصار کرتا ہے۔
دنیا میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس پلوٹونیم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، جو پاکستان سے بہت زیادہ ہے، چنانچہ بھارت کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان سے زیادہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی پوزیشن میں ہے، چنانچہ قیاس کرنا کہ آئندہ دس برسوں میں پاکستان بھارت سے زیادہ ایٹمی ہتھیار تیار کرسکتا ہے، محض ایک پروپیگنڈا ہے، جس میں حقیقت کی کوئی بات نہیں۔ مزیر یہ کہ بھارت جو چلاکرے کے مقام پر ایک وسیع ایٹمی شہر آباد کررہا ہے وہاں بڑے پیمانے پر خفیہ طور پر پلوٹونیم کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں (ہائیڈروجن بم) کی تیاریاں کی جائیں گی، جس کا مقصد پاکستان اور چین کے ایٹمی خطرات سے مقابلے کے لئے بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریاں کرنا ہے۔ چنانچہ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ آئندہ 10 برسوں میں پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں امریکہ اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر ہوگا، ایک انتہائی غلط اور حقیقت سے دور بات ہے، جسے محض پروپیگنڈا قرار دیا جاسکتا ہے۔