Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مجید نظامی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے

ان کی فکر کا محور قائداعظم، علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان تھا، نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کا قیام اہم کارنامہ تھا، ملٹری اور سول ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لکھتے رہے، اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی

رپورٹ: سید زین العابدین

معمار ندائے ملت گروپ اور رہبر صحافت مجید نظامی کی تیسری برسی کے موقع پر آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کے صدر دفتر میں روزنامہ نوائے وقت کراچی کے زیراہتمام سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کے روح رواں نوائے وقت کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر امین یوسف تھے۔ انہوں نے جس خوش اسلوبی سے ایک تاریخ ساز شخصیت کی تیسری برسی پر کراچی شہر کے نمائندہ احباب کو جمع کیا اُس نے گزشتہ 2 سال کی کوتاہی کو بھلا دیا، کیونکہ اس سے قبل مجید نظامی کی برسی خاموشی سے گزر گئی۔ اس بات کا گلہ کئی احباب نے کیا، بہرحال امین یوسف جیسی سوشل شخصیت کا یہ ایک اور کارنامہ رہا۔ اس سیمینار کا آغاز رانا اشفاق صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ تقریب میں گورنر سندھ محمد زبیر، میئر کراچی وسیم اختر، اے پی این ایس کے صدر سید سرمد علی، سینئر نائب صدر قاضی اسد عابد، میاں عبد المجید، محمود شام، ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق، جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو، تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ، آباد کے چیئرمین محسن شیخانی، حاجی حنیف طیب، نصرت مرزا، آغا مسعود حسین اور دیگر شامل تھے۔ شرکاء تقریب میں ایڈیٹرز، دانشور، ادیب، صحافی، قلمکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انٹر فلو کے ڈائریکٹر فنانس محمد ذکی نے بھی تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔
گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ ممتاز صحافی مجید نظامی محب وطن پاکستانی تھے جنہوں نے صحافت کے ذریعے نظریہ پاکستان کا نہ صرف پرچار بلکہ دفاع بھی کیا۔ ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے کام کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ وہ نڈر اور ذمہ دارانہ صحافت کے امین رہے۔ مجید نظامی ایک رول ماڈل ہیں، نوجوانوں کو ان کے طرز زندگی اور اصولوں سے سیکھنا چاہئے۔ گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ مثبت اور نظریاتی صحافت کے فروغ میں ان کا کردار قابل فراموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام قومیتوں کا ہے آج پاکستان میں قائد اعظم کے نظریات کے مطابق تمام قومیتوں کو یکساں ترقی کے مواقع دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بہتری معاشی ترقی میں ہے کیونکہ آج کے دور میں معاشی ترقی سب سے اہم ہے۔ہمیں آگے بڑھنا ہوگا‘ وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں ہمیں وقت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مجید نظامی کے بعد صحافت میں پیدا ہونے والا خلاء آج بھی قائم ہے۔
کراچی کے میئر وسیم اخترنے کہا کہ نوائے وقت گروپ نے مجید نظامی کی برسی کا اہتمام کرکے ایک مثبت کام کیا ہے۔ مجید نظامی کی خدمت صحافت کے حوالے سے بھلائی نہیں جاسکتیں۔ اب کوئی ایسا نظر نہیں آتا، جن کی ضرورت ہے وہ رخصت ہوجاتے جارہے ہیں، امین یوسف کا شکریہ کہ انہوں نے اہم شخصیت کی برسی پر تقریب کا اہتمام کیا ایسے لوگوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
اے پی این ایس کے صدر سید سرمد علی نے کہا کہ ’’جنگ‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ میں دوستی اور جھگڑے ہوتے رہے لیکن جب میر خلیل الرحمان لاہور جاتے تو مجید نظامی کے گھر ٹھہرتے تھے۔ جب نظامی صاحب کراچی آتے تو خلیل الرحمان صاحب کے گھر ٹھہرتے تھے۔ نظامی صاحب کے ساتھ ایک تقریب میں ایک سوال پوچھا جس پر بڑی ڈانٹ پڑی، نظامی صاحب کافی عرصہ تک اے پی این ایس کے صدر رہے، 2010ء میں عبدالحمید ہارون صاحب اے پی این ایس کے صدر بنے تو ہم دوبارہ نظامی صاحب کو اے پی این ایس لے کر آئے اخباری صنعت کے مسائل، کردار اور اکابرین کا کردار بہت اہم ہے۔ ڈان، نوائے وقت اور جنگ پاکستان بننے سے قبل کے ادارے ہیں۔ قاضی عبدالمجید عابد، حمید نظامی، مجید نظامی، حمید ہارون، خلیل الرحمان جیسے لوگ اپنے اصولوں پر کاربند رہے۔
اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر قاضی اسد عابد نے کہا کہ مجید نظامی حیدرآباد آتے تو ہمارے گھر قیام کرتے تھے، ضیا الاسلام انصاری، مصطفی صادق، صلاح الدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، مجید نظامی بہت صاف گو تھے، وہ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ایک اصولی موقف بیان کرتے تھے تو ہم فکرمند ہوجاتے تھے کہ اب اس کو ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ مجید صاحب کئی اداروں کا مجموعہ تھے، جس کا اظہار ان کی شخصیت سے ہوتا تھا۔
میاں عبدالمجید نے کہا کہ نظامی صاحب بہت وضع دار آدمی تھے۔ میرے بھائی میاں عبدالرشید نوائے وقت میں کالم نگار تھے، بھائی کے بعد میں اُن کے گھر گیا تو وزیراعظم آگئے، ملازم سے کہا انہیں بٹھاؤ میں نے کہا جائیں تو کہا نہیں آپ کو میں نے بلایا ہے وہ بن بلائے آیا ہے۔وہ بہت بااصول تھے۔مجید نظامی صاحب کی ہدایت پر ہم نے 3000 اسکولوں کے بچوں کا تقریری مقابلہ کروایا۔ موضوع تھا ’’نظریہ پاکستان آج بھی زندہ ہے‘‘ تعلیم سے متعلق انہوں نے ہمیں ٹاسک دیا تھا۔ معاشی ترقی تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتی، اس بات کو وہ اچھی طرح جانتے تھے۔
سینئر صحافی محمود شام نے کہا کہ حمید نظامی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ مجید نظامی صاحب کے کاندھوں پر ذمہ داری ہے، ہم نے اس وقت کام کیا جب صلہ قید تھی تنخواہ بٹ بٹ کر ملی تھی پھر بھی جذبہ تھا۔ بہت سے آمروں کے دور میں تعلقات کے باوجود کوئی فیض نہیں لیا گیا۔ 100 روپے ماہانہ نوائے وقت میں ملازمت ملی بھٹو، ایوب، ضیا، بے نظیر، نواز شریف سے کھل کر اختلاف تھے۔ بھٹو شازین بلڈنگ میں آئے واحد اخبار تھا جس میں خبریں چھپتی تھی وارث ایڈیٹر تھے نوائے وقت کے اصولوں سے اختلاف ہوسکتا تھا روزانہ جنگ میں بھٹو صاحب ہوں شریک ہوا کرتے تھے کبھی کبھی اداریہ بھی لکھا کرتے تھے بشیر احمد صاحب پھر بہت عرصے تک 2014ء میں ای میل کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف مضامین حق گوئی آزادی صحافت اور ٹیکنیکل اثاثہ کتنے لوگوں نے نوائے وقت سے جنم لیا لیکن نوائے وقت بلند رہنا چاہئے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ صحافت میں جنگ کے لئے مجید نظامی کی شدید ضرورت تھی، نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن ان کا کارنامہ تھا لیکن ہمیں قائداعظم، علامہ اقبال اور مجید نظامی کا پاکستان چاہئے۔یہ وہ پاکستان نہیں جس کو قائداعظم چاہتے تھے، آج ہمارے عوام ننگے پیر اُس پاکستان کو تلاش کررہے ہیں، جاگیردار اور سرمایہ دار اس ملک کے ٹھیکیدار بن گئے، مجید نظامی صاحب ایسے میں لوگوں سے لڑتے رہے۔
جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ مجید نظامی نے کمپرومائز نہیں کیا، اُن کے دور میں سختیاں تھیں، آج تو بہت سکون کا دور ہے، مجید نظامی کشمیر کاز کے لئے ساری زندگی لڑتے رہے، آواز اٹھاتے رہے، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو حکمرانوں کی بے حسی کی سخت مذمت کرتے اور انہیں مجبور کر دیتے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت کے لئے موثر آواز اٹھائیں۔کشمیر کا مسئلہ سندھ اور پنجاب کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے کہا کہ مجید نظامی صاحب پاکستان کا اثاثہ تھے، انہوں نے نوائے وقت کے ذریعے پاکستانیت کو پروان چڑھایا، اگر نظامی صاحب زندہ ہوتے تو اس وقت کشمیر کی تحریک میں حکومت پاکستان کا حصہ ہوتا، کلبھوشن کو سزا نہیں دینے پر اور سچن جندال کا لاہور کے محلوں میں دندنانہ دیکھتے، اس کا مری میں جانا دیکھتے تو اُن کی روح ترپ اٹھتی، مجید نظامی قائداعظم اور اقبال کا پاکستان چاہتے تھے، ہم بھی وہی چاہتے ہیں۔
آباد کے چیئرمین محسن شیخانی نے کہا کہ والد صاحب کہتے تھے مجید نظامی جیسے لوگ سمت تعین کرتے ہیں، سچے پاکستانی تھے، ان کی بیش قدر خدمات ہیں، صحافت کے شعبے کے ساتھ نظریہ پاکستان کو جس طرح انہوں نے زندہ رکھا، یہ اُن کا ہی کارنامہ ہے، اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے خدمت کرتے رہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے روشن مثال چھوڑ گئے۔
معروف تاجر شیخ منظر عالم نے کہا کہ بڑی بات کی جاتی ہے کہ جدید دنیا میں ہم پڑوسیوں سے الگ نہیں رہ سکے، ثقافت اور تجارت کو بڑھانا ہوتا ہے، اسی بنا پر بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کی بات کی جارہی ہے، اگر ہم نے تجارت کرنی ہے تو صرف بھارتی تاجروں سے ہی کرنی ہے، انڈین چیمبر آف کامرس نے 2010ء میں 120 صفحے کی رپورٹ چھاپی، جس میں پانچ صفحوں پر یہ کہا گیا کہ پاکستان کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، پاکستان کو علیحدہ کردیا جائے، پانی بند کردیا جائے، زراعت تباہ کی جائے، امن وامان خراب کرکے آخر میں ایٹم بم مار دیا جائے۔ 1971ء میں اندراگاندھی نے کہا تھا کہ نظریہ پاکستان ختم ہوگیا، آج کچھ لوگ بھی کہتے ہیں لیکن مجید نظامی جیسے لوگ اس کے سامنے دیوار بنے رہے۔
معروف سماجی رہنما حاجی حنیف طیب نے کہا کہ مجید نظامی کو خواجہ نظام الدین اولیا سے عقیدت تھی۔ مولانا عبدالستار نیازی کے ذریعے ہمارا اُن کا 46 سال کا تعلق رہا۔ پاکستان کی تحریک میں ایسا کیا کچھ ہوا کہ سارے اکابرین نظریہ پاکستان سے منسلک ہوئے۔ ایک اہم بات ہے۔ ان کا انتقال 27 رمضان کو ہوا۔ ندائے ملت کا اجرا ہوا۔
معروف صحافی و اینکر نصرت مرزا نے کہا کہ میرا اور نظامی صاحب کا تعلق 25 سال کا رہا، علامہ اقبال اور قائداعظم، نظریہ پاکستان پر کمپرومائز نہیں کرتے تھے، ہمارے حکمران انہیں بھارت لے جانا چاہتے تھے، وہ کہتے تھے کے میں ٹینک پر جاؤں گا، ایک وقت تھا کہ کراچی میں لوگ کسی اور طرف جارہے تھے، مجید نظامی ہوتے تو ملک کے رخ کا تعین کر دیئے نظریہ پاکستان کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
معروف صحافی صحافی و اینکر آغا مسعود حسین نے کہا کہ مجید نظامی بھارت سے برابری کی سطح پر تعلقات کے حامی تھے، آج ہندوستان گاؤ رکشہ کے نظریہ پر چل رہا ہے اور مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے، مجید نظامی ہندوستان کی بالادستی کے سخت خلاف ہے۔
اورینٹ کے چیئرمین مسعود ہاشمی نے کہا کہ مجید نظامی کا ادارہ نوائے وقت پاکستان کی ترقی میں دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا۔
اسٹار مارکیٹنگ کے اخلاق احمد نے کہا کہ مجید نظامی ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام ہے، انہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اصول پسندی کا علم تھامے رکھا، جب میں نے صحافت کا آغاز کیا تھا تو جنگ اور نوائے وقت میں سخت جنگ تھی، میں نوائے وقت سے منسلک تھا، ہمارے پاس سہولت نہیں تھی، اداکار محمد علی کی فلم ہمارے اخبار میں نہیں چھپتی تھی، اُس کے ساتھ زیبا کی بھی تصویر نہیں چھپتی تھی کیونکہ محمد علی انڈیا کی فلم میں کام کرکے آئے تھے، بعد میں ان کی پالیسی میں لچک آئی جو اُن کی خوبی ہے، حمید نظامی، مجید نظامی اور خلیل الرحمان جیسے لوگوں نے صحافت کے اصول ترتیب دیئے۔ اب ایسے لوگوں کی کمی ہوتی جارہی ہے جو ہمارے لئے المیہ ہے۔

مطلقہ خبریں