مرزا زاہد فاروق
پانچ ہزار سالہ تاریخ کی حامل ’’ریاست جموں و کشمیر‘‘ کے برصغیر کے ساتھ صدیوں سے گہرے روابط موجود تھے۔ خطہ کشمیر، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے درمیان قدرتی اور جغرافیائی تعلق کے علاوہ صدیوں سے سماجی، ثقافتی، مذہبی اور تجارتی رشتے چلے آ رہے ہیں۔ کشمیریوں نے ظلم و ستم، قحط سالی اور امن و خوشحالی کے ہر دور میں تعلیم و تجارت اور تلاشِ معاش کے لئے اکثر پنجاب کا رخ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں کشمیری النسل لوگ پنجاب سمیت پاکستان کے دوسرے صوبوں میں آباد ہیں۔
خطہ پنجاب کے لوگوں نے تاریخ کے ہر مشکل اور آڑے وقت میں کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے۔ ڈوگرہ حکمرانی کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے غلامی اور ظلم و ستم کا شکار اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی۔ 1896ء میں انجمن کشمیری مسلمانان لاہور، 1897ء میں انجمنِ نصرت الاسلام کا قیام اور 1908ء میں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے قیام جیسے تاریخی اقدامات کے علاوہ اخبار، زمیندار، سیاست، مسلم آوٹ لک اور انقلاب کی گراں قدر خدمات کا سنہری باب ہیں۔ جبکہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کی فکری رہنمائی کے لئے نہ صرف ذاتی طور پر کشمیر گئے بلکہ انہوں نے مسلمانان جموں و کشمیر کو ظلم و ستم سے نجات اور ان کے جائز حقوق دلانے کے لئے ’’کشمیر ایکشن کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں لا کر موثر تحریک چلائی۔ ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک 1940ء میں جب اپنے عروج پر تھی۔ اسی دوران بر صغیر کے مسلمانوں نے قیامِ پاکستان کے لئے منظم تحریک شروع کی اور مسلمانانِ جموں و کشمیر بھی برصغیر کی سیاست کے زیراثر علامہ محمد اقبال کے ملی نظریہ کی تقلید میں اصول پاکستان کی تحریک میں معاون رہے اور اسی دوران قائداعظم نے بھی سری نگر کا دورہ کیا۔
برصغیر اور ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی انتھک جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی وجہ سے 1947ء میں پاکستان کا قیام تو عمل میں آگیا مگر کشمیر ہندو سامراج اور انگریزوں کی باہمی سازش کے باعث عوامی خواہشات اور تقسیمِ برصغیر کے دوٹوک اصول کے باوجود ملت اسلامیہ جمہوری پاکستان کا حصہ نہ بن سکا۔ تقسیمِ ہند کہ بعد ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے مسلح جدوجہد کے ذریعے ریاست کے ایک حصے کو آزاد کروا لیا جبکہ دیگر مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے تاحال سرگرمِ عمل ہیں۔ اس تحریک میں آج تک لاکھوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو کچلنے کے لئے قتل و غارت، جلاؤ گھیراؤ، اغوا کاری اور عورتوں کی بے حرمتی کا بازار گرم کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور تہذیبی یلغار سے کشمیر کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے مگر اس کے باوجود کشمیری مسلمان صبر و استقامت کے ساتھ بھارت کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ کشمیری نوجوان سری نگر کے گلی کوچوں سے لے کر بھارت کے کھیل کے میدانوں اور تعلیمی اداروں میں پاکستانی پرچم لہرا کر کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زندگیاں نچھاور کرتے رہے۔
مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں جاری تحریک آزادی کشمیر کو ہمیشہ پاکستانی حکومت اور عوام کی اخلاقی و سفارتی تائید و حمایت حاصل رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی سوچوں کا بھی ارتقاء ہوتا ہے۔ امریکہ میں 9/11 کے حملوں بعد جب جنرل پرویز مشرف دہشت گردی کی خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی بنے، تو نظریہ الحاق کشمیرِ پاکستان پر یوٹرن کی پالیسی سے مسئلہ کشمیر ترجیحات کی بجائے ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ بیک ڈور چینل سے جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن اِدھر ہم اور اُدھر تم کی پالیسی نہ ہی کشمیری مسلمانوں اور نہ ہی پاکستان کے اہل و رائے (عوام اور پاکستانی اسٹیبلشمٹ) وغیرہ ۔۔۔ قبول نہ کی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد جمہوری حکمرانوں نے خیالاً اور عملاً مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی ترقی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ سمجھا۔ اسی دوران مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے خلاف شدید نفرت کے باوجود، طویل مدتی عسکریت کے مضمرات، پاکستان کی کمزور کشمیر پالیسی، بدلتی عالمی صورتِ حال، مضبوط بھارتی خارجہ پالیسی اور خصوصاً کشمیری لیڈر شپ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بددلی کا شکار ہوگئے۔ ’’کن فیکون ۔۔ والا رب مسکراتا ہے۔۔ جب زمین کے خدا اپنے تکبر پر۔۔ اترا رہے ہوتے ہیں۔۔ اور اپنی منصوبہ بندی سے۔۔ اللہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی سورۃ الانفال کی آیت نمبر 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن‘‘
ترجمہ: وہ پلاننگ کررہے تھے اور (اُدھر) اللہ پلاننگ کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین پلاننگ کرنے والا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ناامیدی اور مایوسی کہ ماحول میں اچانک ایک چنگاری برہان مظفر وانی کی شہادت کی صورت میں سلگتی ہے اور ہر طرف آزادی کی آگ اور پوری ریاست جموں و کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اس بار خصوصاً کالج و یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات پوری آب و تاب کے ساتھ سالوں سے زنداں میں بند تحریک آزادی کی شمع کو روشن کررہے ہیں۔ کشمیری قوم ماضی کی روایات کی طرح پھر ظلم و ستم کا شکار ہے۔ پلیٹ گنز کے استعمال سے ہزاروں کشمیری نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، بھارتی افواج کے ظلم و ستم سے نوجوانوں کی شہادت، معاشی اور تعلیمی قتل کشمیری قوم کا پھر مقدر بن چکا ہے۔
آزادی کے نام پر کشمیری قوم کی چوتھی نسل اب قربان گاہ میں ہے، لیکن سوال یہ ہے
سوال نمبر 1: کیا اب بھی کشمیری قوم اس قربانی کہ بعد ایک نئی مایوسی کی شکل دیکھے گی؟
سوال نمبر 2: کیا اب بھی وقت آنے پر یوٹرن جیسے فیصلے دیکھنے پڑیں گے؟
سوال نمبر 3: کیا اب بھی پاکستان کے سیاستدان کشمیر کمیٹی کے نام پر مراعات کے حصول کے بعد ایک نئی امن کی آشا کے میں شامل ہو کر کشمیری عوام کو بھول جائیں گے؟
سوال نمبر 4: کیا مذہبی جماعتیں ماضی کی طرح امداد کے حصول کے بعد کام کرنے سے قاصر رہیں گی؟
حاصل نوٹ:
خدارا۔۔ اے امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانانِ پاکستان اب ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے، کیونکہ کسی قوم کی حصولِ آزادی کیلئے چوتھی نسل بھی مالی جانی، علمی اور معاشی قربانی دیتی آرہی ہے، جس کی مثال تاریخ عالم میں کم ہی ملتی ہے۔ تاریخ کے اسباق کو غور سے دیکھا جائے تو آزادی کا راستہ بغاوت اصل حل نہیں ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ ہے جس طرح برصغیر میں ایک سیاسی جدوجہد سے پاکستان جیسا خطہ معرضِ وجود میں آسکتا ہے تو کشمیر میں صحیح معنوں میں سیاسی جدوجہد ہی اس کی اصل آزادی کی راہ ہے۔ دریا کا سامنا چٹان سے ہو تو وہ اپنا راستہ بدل کر آگے نکل پڑتا ہے، مگر ہمارے نادان سیاستدان، و مذہبی لیڈر یہ چاہتے ہیں کہ وہ چٹان کو توڑ کر اپنا راستہ بنائے خواہ اس کا نتیجہ یہی ہو کہ ان کا سفر ہمیشہ کیلئے رک جائے۔ اس کا حل یہی ہے کہ پاکستان عالمی سطح اور بالخصوص ایشیا میں اپنی مضبوط خارجہ پالیسی بنائے اور کشمیر میں منظم اعلیٰ قسم کی سیاسی جدوجہد کا آغاز کرے، جس میں کشمیری عوام کو آگاہی سے لے کر آزادی کے نقشِ قدم پر کامیابی کا حصول آسانی سے ممکن ہو۔