Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بلوچستان کا شہید

سید زین العابدین
سترہ جولائی 2017ء کو ایف سی کے میجر جنرل جمال شیران پشاور میں خودکش حملے کے نتیجے میں شہید ہوئے جبکہ 4 سپاہی سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 15 ہزار افراد مارے گئے جن میں افسران و اہلکار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 70 سے 75 ہزار عوام جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ میجر جمال شیران کی شہادت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل تھی۔ 31 سالہ میجر جمال شیران کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت سے تھا۔ بلوچستان میں روایتی دشمن بھارت نے چند ناراض بلوچوں کو اکسا کر پاکستان کے خلاف کرنے کی کوشش کی، جسے ہماری عسکری قیادت نے دانشمندی کے ساتھ ناکام بنا دیا۔ سابق سدرن کمانڈر جنرل ناصر جنجوعہ کا اس کامیابی میں بڑا کردار تھا، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ہر اسٹیک ہولڈر کے ساتھ رابطہ رکھا۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور، پشاور اور مختلف شہروں سے شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں بلا کر تقریبات کا انعقاد کرتے رہے۔ جس سے بلوچستان کے عوام کے دلی جذبات کو جاننے کا موقع ملا کیونکہ دانشور، شاعر، ادیب، صحافی کا معاشرے کے نبض پر ہاتھ ہوتا ہے۔ ان کے بعد سدرن کمانڈ کی کمان سنبھالنے والے لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض بھی بہت متحرک ہیں۔ وہ بھی کھیلوں کے مقابلے کرانے کے ساتھ ثقافتی پروگرامز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، ساتھ ہی گفت و شنید کے ذریعے ہتھیار اٹھانے والوں کو قائل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں فراری ہتھیار ڈال کر قومی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کررہے ہیں۔ جنرل عامر ریاض نے اپنے پیش رو کمانڈر کی طرح بلوچستان میں ڈائیلوگ کے ہتھیار کو بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے جو بھارت کے منفی پروپیگنڈے کا توڑ ہے۔ بلوچستان کے عوام پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں جس کی ایک مثال میجر جنال شیران ہیں۔
میجر جمال شیران 11 نومبر 1986ء کو ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کیچ گرامر اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیڈ نیشنل کالج تربت داخل ہوگئے۔ وہاں سے پاک فوج میں جانے کا ارادہ کیا۔ اُن کے والد اور کچھ رشتہ دار بھی فوج سے منسلک ہیں۔ ان کا خاندان پاکستان بننے سے قبل تربت ملیشیا میں خدمات انجام دیتا رہا۔ جمال شیران مئی 2006ء میں پاک فوج سے منسلک ہوئے۔ کاکول اکیڈمی سے اپریل 2008ء میں کمیشن پاس کیا۔ اس کے بعد سیالکوٹ، راولپنڈی اور آزاد کشمیر میں تعینات رہے۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران باجوڑ، خیبر اور مہمند ایجنسی میں تعینات رہے۔ دہشت گردوں سے مڈبھیڑ کے نتیجے میں انہیں واصل جہنم کرتے رہے۔ 2015ء میں انہیں فرنٹیئر کور میں لے کر خیبرپختونخوا بھیج دیا گیا۔ ضرب عضب کی طرح انہوں نے ردالفساد میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اسپیشل آپریشن گروپ کے آفیسر کمانڈنگ کے طور پر دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کیں۔ دہشت گردوں نے بدلہ لینے کے لئے انہیں کے پی کے میں ٹارگٹ کیا۔ میجر جمال گزشتہ سال دسمبر میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ 31 سالہ میجر جمال شیران کے والد مسقط آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد تربت میں تجارت کرتے رہے۔ وہ انجمن تاجران تربت کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
بلوچستان کا یہ عظیم سپوت پشاور میں شہادت کے بعد تربت میں اپنے آبائی گاؤں پٹھان کہور میں سپرد خاک ہوگیا۔ لیکن اپنی شہادت سے ایسے چراغ جلا گیا جو بلوچستان کے پہاڑوں پر چڑھنے والے ناراض بلوچوں کے لئے ایک روشن مشعل کا کام انجام دے گی۔ میجر جمال شیران کا بلوچ خون پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرے گا۔
شہید میجر جمال شیران کے آبائی گاؤں جانے کے لئے ہمارا سفر کراچی سے شروع ہوا۔ 28 کلومیٹر کے فاصلے پر حب کا صنعتی شہر ہے، سرکاری اسپتال کا وہی حال تھا جو دیگر شہروں اور قصوں کے اسپتال کا ہے، سہولیات کا فقدان دیکھنے میں آیا، پینے کا پانی کا مسئلہ حب سے شروع ہوتا ہے اور تربت تک جاری رہتا ہے۔ سی پیک کے دل گوادر میں تو سب سے بڑا مسئلہ پانی ہی کا ہے جس کام پر پہلے توجہ دینی چاہئے تھی اُس پر ابھی بھی کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کے ساتھ بلوچستان حکومت اور مقامی سرداروں کی نااہلی بھی ہے۔ حب سے 86 کلومیٹر دور اوتھل زیرو پوائنٹ ہے، بائیں جانب مڑیں گے تو مکران کوسٹل ہائی وے پر پہلے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر لیاری آتا ہے، پھر 118 کلومیٹر کے بعد کنڈملیر آتا ہے۔ کنڈملیر میں ایک جانب خوبصورت ساحل ہے تو دوسری طرف طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہائی وے سے اتر کر ساحل کی طرف جائیں تو کورنگی کے ساحل سے ملتا جلتا منظر ہوتا ہے لیکن سمندر کے ایک جانب سحر انگیز پہاڑ دیکھنے والے کو مبہوت کردیتے ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ ہنگلاج تک دراز ہے۔ جہاں پرنس آف باپ کا پہاڑی مجسمہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ ذکری مذہب کے ماننے والوں کے لئے یہ مقدس جگہ ہے، جہاں وہ عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ہنگلاج کا کئی سو سال پرانا مندر بھی ایک تاریخی جگہ ہے۔ مقامی افراد کے مطابق جب میلے کے دن آتے ہیں تو ہندوستان سے بڑی تعداد میں ہندو یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ ہنگول نیشنل پارک بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، ایک بڑے رقبے کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے تاکہ اس علاقے میں پائے جانے والے نایاب جانوروں کی حفاظت ہوسکے ورنہ شکاریوں کی بندوقیں ان کی نسل کو ختم کردیں گی۔ یہیں دریائے ہنگول بھی ہے جس کے پانی نے آس پاس کی زندگی کو سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ہرابھرا کر رکھا ہے، ہنگلاج کے بعد سونمانی کا ساحل آتا ہے۔ اس کے بعد اورماڑہ پہنچتے ہیں، اورماڑہ سے 250 کلومیٹر بعد تربت آتا ہے، تربت سے قبل دشت کا علاقہ آتا ہے، اس سارے راستے میں کوسٹل سیکورٹی فورس، کسٹم اور ایف سی کی چیک پوسٹیں آتی ہیں۔ جن کا عملہ بااخلاق طریقے سے سلام دُعا کرتا ہے اور مسافروں سے اگلی منزل کا مقام پوچھتا ہے، کہاں سے آرہے ہیں، کہاں جانے کا ارادہ ہے، بسوں، ویگنوں، ہائی ایس کی اچھی طرح تلاشی لی جاتی ہے، البتہ پرائیویٹ گاڑیوں کو ضروری چیکنگ کے بعد آگے جانے دیا جاتا ہے۔
ہمارا زیادہ تر سفر رات میں رہا، سچ ٹی وی کی ٹیم جب تربت پہنچی تو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالماجد کے قریبی عزیز کے گھر فریش ہونے کے لئے گئے۔ جن کے مہمان نوازی کے روایتی انداز نے ہم سب کو بہت متاثر کیا، بلوچستان کے لوگ بہت محبت کرنے والے اور مہمان کو عزت دینے والے ہیں، بدلے میں وہ بھی محبت اور عزت چاہتے ہیں، اس سارے سفر میں ہمیں کہیں کوئی پاکستان مخالف تحریک کے آثار نظر نہیں آئے نہ ہی کہیں خوف محسوس ہوا، تربت میں پروگرام چوپال کے بعد ہمارے اینکر منہاج موسوی نے روایتی انداز میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا، جس کا عوام کی جانب سے بھرپور جواب بھی آیا، بلوچستان کے عوام کے دکھ بہت ہیں، بنیادی انسانی ضرورتوں کا فقدان ایسا مسئلہ ہے جو پورے صوبے میں نظر آتا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو وہ سب کچھ دینا ہوگا جو ملک کے دیگر لوگوں کے پاس ہے، طویل پہاڑی سلسلے اور لمبی ساحلی پٹی رکھنے والے اس صوبے کے دامن میں بے شمار وسائل ہیں، ان وسائل پر سب سے پہلے مقامی افراد کا حق ہے، ہمیں انہیں یہ حق ملکیت دینا ہوگا۔

مطلقہ خبریں