عامر ریاض
جمہوری عمل سے بننے والی مملکت کا مستقبل جمہوریت ہی سے وابستہ ہے
چودہ اگست کا دن آزادی اور جمہوری عمل سے عبارت ہے۔ آزادی و جمہوریت لازم وملزوم ہیں کہ جن معاشروں میں نوآبادیاتی قبضوں سے نجات کے بعد جمہوریت کا قیام عمل میں لانے سے گریز برتا گیا وہاں عوام آزادی کے ثمرات سے یکسر محروم رہے ہیں۔
ماسوائے پاکستان اور ترکی تمام مسلم ممالک میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے حوالہ سے یہی صورتِ حال ہے کہ شخصی آمریتوں اور بادشاہتوں پر مشتمل غیرجمہوری بندوبست تاحال ان ممالک کے عوام کا مقدر ہے۔ پاکستان میں 1958، 1969، 1977 اور 1999ء کے مارشل لا کے باوجود جمہوریت کے سبق کو بھلایا نہیں جاسکا اور غیرآئینی حکمرانوں کے خلاف جمہوری جدوجہد کا زمانہ گواہ ہے۔
اس کی سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ خود پاکستان کا خمیر ایک جمہوری و سیاسی عمل سے اٹھا تھا۔ نوآبادیاتی دور میں محدود حق رائے دہی، سیاست و صحافت پر پابندیوں اور منتخب اسمبلیوں و حکومتوں کے محدود اختیارات کے باوجود علامہ اقبال اور قائداعظم سیاسی جدوجہد اور قانون و آئین کی حکمرانی کے رستے پر گامزن رہے۔ دونوں رہنماؤں نے محدود اختیارات والی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصّہ لیا اور پارلیمانی جدوجہد کو اولیت دی۔
آج کے دن اسی تجدید عہد کی ضرورت ہے کہ پاکستان کسی لشکر کشی یا افسر شاہی کے حکم سے نہیں بلکہ ایک سیاسی و جمہوری عمل کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم پارلیمانی بورڈوں کی سیاست کی وجہ سے مسلم لیگ کو مسلم اقلیتی صوبوں جیسے یوپی، بہار وغیرہ میں تو کامیابیاں ملیں تھیں تاہم مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم لیگ کی انتخابی کارکردگی بہت مایوس کن تھی۔
1937ء میں مسلم اکثریتی صوبوں میں بنگال، سندھ، سرحد اور پنجاب شامل تھے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک صوبہ میں نہ تو کانگریس اور نہ ہی مسلم لیگ اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ یہ ان صوبوں میں مقامی پارٹیوں کی طاقت کا کھلا اظہار تھا۔ سرحد اور بنگال میں جیتنے والے ممبران اسمبلی میں آزاد امیدواروں کا تناسب بہت زیادہ تھا جبکہ سندھ اور پنجاب میں یہ تناسب بہت معمولی تھا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ سندھ اور پنجاب میں لوگ سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کو موزوں سمجھتے ہیں۔
مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلم لیگ نے جمعیت علما ہند، خلافت کمیٹی اور دیگر مسلم مقامی جماعتوں کے اشتراک سے مسلم پارلیمانی بورڈ بنائے تھے اوراسی وجہ سے مسلم نشستوں پر مسلم لیگ اوراس کے حلیفوں کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ مگر یہ فتح بے معنی ثابت ہوئی کہ مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کی کل نشستیں 8 تا 11 فیصد تھیں جو ایوان میں کسی موثر کردار کے لئے ناکافی تھیں۔ ان انتخابی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے قائداعظم نے مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں میں مقبول عام کرنے کی لائن اپنائی۔
اس بدلی ہوئی سیاسی پالیسی کا پہلا اظہار بنگال میں نظر آیا جب مسلم لیگ نے کرشک پرجا (مزدور، کسان) پارٹی سے اتحاد کیا اور اس پارٹی کے رہنما اے کے فضل الحق کو بنگال کا وزیراعلیٰ بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پالیسی کا دوسرا اظہار پنجاب میں نظر آیا جب قائداعظم اور پنجاب کے وزیراعظم سکندر حیات کے درمیان جناح سکندر معاہدہ ہوا۔ یوں مسلم لیگ نے 1937ء کے انتخابات کے بعد وہی پالیسی اپنائی جس کا تعین علامہ اقبال نے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں برملا کیا تھا۔
اقبال تو اپنا مدعا لے کر سب سے پہلے نہرو کمیٹی کے روبرو گئے تھے مگر ان اعلیٰ اذہان نے اقبال کا تمسخر اڑایا تھا جبکہ خود مسلم لیگ میں بھی ایسے حضرات خال خال ہی تھے جنہیں 1930ء کی دہائی کے پہلے نصف تک اقبال کی بات پلے پڑی تھی۔ البتہ 1937ء کے انتخابی نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ جمہوریت میں عددی اکثریت کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ جس پالیسی کی بات اقبال نے تاریخی خطبہ میں کی تھی اس میں یہی تحریر تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مستقبل کی سیاست میں مسلم اکثریتی صوبے کلیدی کردار ادا کریں گے۔
بدلتے ہوئے جمہوری پس منظر پر اقبال کی نظر خوب تھی۔ دلچسپ تضاد یہ تھا کہ 1938ء میں نئی لائن اپنانے کے بعد مسلم لیگ پنجاب و بنگال میں سیکولر کرشک پرجا پارٹی اور سیکولر یونینسٹ پارٹی سے اتحاد کرچکی تھی کہ یہ دونوں پارٹیاں پنجاب و بنگال کی مقامی طاقت کی نمائندہ تھیں جبکہ کانگریس جن صوبوں میں جیتی تھی وہاں ایک طرف ہندی زبان و بندے ماترم کا پرچار کررہی تھی تو دوسری طرف مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد، سردار پٹیل اور سیٹھ برلا، رل مل کر نہ صرف انقلابی رہنما سبھاش چندر بوس کے خلاف سرگرم عمل تھے بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں اکثریتی جماعتوں کے خلاف گمراہ کن مسلم رابطہ مہمیں چلا رہے تھے۔
بقول سینئر مسلم لیگی رہنما 1940ء کی قرارداد لاہور بناتے وقت رہنماؤں کے روبرو امریکا کا آئین تھا جو فیڈریشن کے اصولوں پر بنا ہوا تھا۔ یہ تاریخی قرارداد مسلم اکثریتی صوبوں کے حق میں آئی کہ اس کے بعد سات برسوں میں خود کانگریس پنجاب کے دو صدور نے اوپر تلے کانگریس سے استعفیٰ دیا اور مسلم صوبوں کے کلیدی کردار پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ان دو رہنماؤں میں میاں افتخارالدین تو وہ تھے جنہوں نے مارچ 1942ء میں راج گوپال اچاریہ کی قیادت میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی میں قرارداد بھی جمع کروائی تھی۔ اس قرارداد کے مطابق کانگریس کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ انگریز کو نکالنے کے بعد مسلم اکثریتی صوبوں کو حق علیحدگی دیا جائے گا۔ میاں صاحب اور راجہ جی اچاریہ کا یہ استدلال تھا کہ اس طرح مسلم لیگ اور کانگریس مل کر انگریز کو چیلنج کریں گے تو انگریزی تسلط کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ مگر اقبال کی طرح میاں افتخار الدین کی بات کا بھی تمسخر اڑایا گیا تھا۔ دوسرے رہنما و صدر کانگریس پنجاب مولانا داؤد غزنوی تھے جو مجلس احرار کے بانیوں میں شامل تھے اور بعدازاں احرار چھوڑ کر کانگریس میں آچکے تھے۔
شومئی قسمت انہوں نے بھی کانگریس کو تج دیا۔ یہی نہیں بلکہ پنجابی مسلمانوں کی بڑی تعداد جن میں ڈاکٹر عالم، ظفر علی خان، احراری لیڈران اور سیالکوٹ کے آغا صفدر وغیرہ شامل تھے نے بھی کانگریس کو چھوڑ کر یا تو الگ راہ اپنائی تھی یا پھر وہ مسلم لیگ میں شامل ہوچکے تھے۔ ان سب کو معاہدہ لکھنو پر شدید اعتراضات تھے جس کی وجہ سے پنجابی مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے کہیں کم نشستیں دی گئی تھیں جو ان کے جمہوری حق پر ڈاکہ گردانا گیا تھا۔ خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے معاہدہ لکھنو کو اسی لئے پت فال قرار دیا تھا۔ کانگریس متحدہ ہندوستان کی سطح پر تو جمہوریت کی حمایتی تھی مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں جمہوریت کے بارے میں بوجوہ تحفظات رکھتی تھی۔ یہی وہ تضاد تھا جس کی نشاندہی میاں افتخارالدین نے بروقت کردی تھی اور برملا یہ بیان دیا تھاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق کا سوال عین جمہوری مسئلہ ہے۔ یہ میاں صاحب ہی تھے جنہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو بھی مسلم اکثریتی صوبوں کے حقوق کی حمایت پر مائل کیا تھا۔
1946ء کے انتخابی نتائج اس لئے اہم ہیں کہ اس میں مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی میدان مار لیا تھا کہ پنجاب میں 175 میں سے 73، بنگال میں 250 میں سے 113 جبکہ سندھ میں 60 سے 27 نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں۔ صوبہ سرحد کا معاملہ قدرے مختلف تھا کہ یہاں بقول عائشہ جلال 1941ء کی مردم شمادی کے مطابق صوبہ سرحد میں 92 فیصد مسلم آبادی رہتی تھی تاہم اس کی اسمبلی میں غیرمسلموں کی نشستیں آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ تھیں۔
1946ء میں صوبہ سرحد میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں جمعیت علماء ہند، خدائی خدمتگاروں اور کانگریس ہی کا مسلم لیگ کے خلاف اتحاد نہیں تھا بلکہ اکالی پارٹی کی واحد نشست اور ہندوؤں کی نشستوں پر جیتنے والوں نے بھی مسلم لیگ کی مخالفت میں کانگریس اور اس کے حواریوں کا ساتھ دیا تھا۔ اس سب کے باوجود مسلم لیگ نے صوبہ سرحد میں 50 میں سے 17 نشستیں حاصل کیں تھیں جو اس کی طاقت کا ثبوت تھا۔
1946ء کے انتخابات میں بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ کا ساتھ جمعیت علماء اسلام نے بھی دیا تھا جو جمعیت علماء ہند سے علیحدہ ہونے والوں نے بنائی تھی۔ علاوہ ازیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے الگ امیدوار بھی دیئے اور ان کے بہت سے مسلم کمیونسٹ کارکنوں و ہمدردوں نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں فکری و عملی سطح پر بھرپور حصہ لیا تھا۔ عبداللہ ملک، رؤف ملک، غلام محمد ہاشمی، مطلبی فرید آبادی، سی آر اسلم، سجاد ظہیر ہی نہیں بلکہ پورن چند جوشی، سوہن سنگھ جوش، ادھیکاری، ایم ڈی تاثیر جیسے ترقی پسند بھی اس میں پیش پیش رہے۔
اس زمانے کے ترقی پسند جریدوں کے اداریوں کا انتخاب ’’ہماری تحریک آزادی اور تخلیقی عمل‘‘ مرتبہ احمد سلیم چھپ چکا ہے جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 1946ء کی انتخابی مہم میں تمام اہم سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا تھا اور جو فیصلے 3 جون 1947ء کو کیے گئے ان کے پیچھے نوآبادیات ختم کرنے کا امریکی دباؤ اور سبھاش چندر بوس کی بروقت بغاوت کے علاوہ ایک بھرپور سیاسی و جمہوری عمل بھی تھا۔ تاہم 1946ء میں جب سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی مسلم لیگ کو پنجاب سرکار نہیں بنانے دی تو یہ ایک غیرجمہوری طرز عمل تھا۔ محض 20 نشستیں جیتنے والے خضر حیات ٹوانہ کو کانگریس اور اکالیوں نے تخت لاہور پر بٹھا کر قابل قدر کام نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ 8 مارچ 1947ء کو خود کو سیکولر کہلانے کی دعویدار اور ہندوستان کی تقسیم کی مخالف آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے دلی شہر میں بیٹھ کر ایک ایسی قرارداد منظور کی جو جمہوری و سیاسی عمل سے یکسر انحراف پر مبنی تھی۔ اس قرارداد کا متن تقسیم ہند کی دستاویزات پر مشتمل مشہور کتاب ٹرانسفر آف پاور کی جلد 9 کے صفحہ 901 پر محفوظ ہے۔
یاد رہے کہ ابھی 3 جون کے منصوبہ کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ 8 مارچ کو کانگریس نے پنجاب کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ 2013ء میں جب راج گوپال اچاریہ کے پوتے راج موہن گاندھی نے پنجاب کے بارے میں کتاب لکھی تو انہوں نے خود کانگریس سے یہی سوال کیا کہ جب آپ نے خود مارچ 1947ء میں پنجاب کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا مطالبہ کردیا تھا تو آپ نے خود عملاً 3 جون منصوبہ سے قبل ہی پاکستان بنا دیا تھا۔
’’پنجاب: اورنگ زیب سے ماؤنٹ بیٹن تک‘‘ کے صفحہ 340/341 ان سوالات سے بھرے پڑے ہیں جو راج موہن گاندھی نے اٹھائے ہیں۔ یاد رہے مذہبی بنیادوں پر پنجاب و بنگال کی تقسیم کا مطالبہ مسلم لیگ نے کبھی نہیں کیا۔ 11 اگست 1947ء کی قائداعظم کی تقریر گواہ ہے کہ وہ پنجاب و بنگال کی تقسیم پر افسردہ تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس مذہبی تقسیم نے مذہبی منافرت اور انتہاپسندی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر ماؤنٹ بیٹن، برٹش اسمبلی اور کانگریس اس تقسیم پر اصرار نہ کرتے تو نہ صرف پاکستان میں اقلیتوں کی معقول تعداد ہوتی بلکہ جمہوری روایات کا بھی بول بالا ہوتا۔
آج 14 اگست کے دن یہ تحریر اس لئے بھی لکھی جا رہی ہے کہ آپ جمہوری و سیاسی عمل کی تکریم کو بھی یاد رکھیں اور ان جماعتوں اور قوتوں کو بھی پہچانیں جو جمہوریت کی آڑ میں جمہوری و سیاسی عمل سے روگردانی کرتی ہیں۔
آزادی جمہوریت کے بغیر اندھی اور جمہوریت آزادی کے بغیر لنگڑی ہوتی ہے۔ ایوب، ضیاء اور مشرف نے جو جمہوریت رچائی تھی وہ آزادی کے بغیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لا کے بعد عوام نے انہیں بار بار مسترد کیا۔ محبوس یا حبس زدہ جمہوریت آزادی کی نفی ہوتی ہے کہ جس ملک کا خمیر آزادی و جمہوریت سے اٹھا ہو وہاں مارشل لا زہر قاتل کا کردار ادا کرتے ہیں، ہماری 60 سالہ تاریخ اس کی زندہ مثال ہے۔ جمہوریت کے نقائص کا علاج جمہوری تسلسل اور شراکتی جمہوریت میں ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی پر پہرہ دیتے ہوئے ہی ہم آزادی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچا سکتے ہیں۔ 14 اگست کا دن جمہوری و سیاسی عمل اور آزادی کی تکریم کی تجدید کا دن ہے کہ ہمیں ہر دم اسی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔