Friday, June 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گلگت بلتستان کا دورہ

نصرت مرزا

گلگت بلتستان پاکستان کا ایک پُرفضا، پُرامن اور کئی قدیم تہذیبوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے اِس کو اِس منصوبے کے داخلی دروازہ کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے، دس اضلاع پر مشتمل یہ انتظامی صوبہ اپنے دامن میں قدرتی حسن، جھیلیں، جھرنے، آبشاریں سمیٹے دُنیا کی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے، راکاپوشی کی خوبصورت چوٹی ہو یا دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’’کے ٹو‘‘ ساری دُنیا کے لئے کشش رکھتی ہے، اس سال کوئی 17 لاکھ سیاح اِس سرزمین کی سیاحت کے لئے آئے جبکہ اِس کی آبادی پہلی مردم شماری کے مطابق 8 لاکھ سے اوپر تھی جبکہ اِس مردم شماری میں اِس کی آبادی شاید 15 لاکھ کے لگ بھگ پہنچ جائے۔ پھولوں سے لدی وادیاں اور سبزہ اِس کے قدرتی حسن کو چارچاند لگا دیتی ہیں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری نے اِس میں سڑکوں کا جال پھیلا دیا ہے اور موٹروے کی طرز کی سڑک گلگت سے تھوڑے آگے تک جا چکی ہے۔ ہم 1984ء میں یہاں آئے تھے اب تو منظر بدل گیا ہے، سڑکوں کے جال نے وادیوں تک رسائی حاصل کرا دی ہے، گلگت سے خنجراب تک پاک چین سرحد ہے اور کوئی 18 ٹنلنر بنائی جا چکی ہیں، 5 سرنگیں تو پہاڑ کو کاٹ کر بنائی گئیں، جن کی لمبائی ساڑھے سات کلومیٹر ہے، اُن کو دیکھ کر لگا کہ سی پیک کی تعمیر کا عزم کتنا مضبوط ہے، عطا آباد جھیل بن جانے کے بعد سی پیک کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ 2010ء میں پہاڑ کا بڑا تودہ گرنے سے یہ جھیل معرضِ وجود میں آئی اور جہاں وہ چٹان گری وہاں آبادی تھی، جانی نقصان بھی ہوا، چین اور پاکستان کو ملانے والی سڑک بھی اِس جھیل عطا آباد میں ڈوب گئی، مگر پھر پہاڑی چٹانوں کو کاٹ کر خوبصورت اور پائیدار پانچ ٹنلنر بنائی گئیں جو فن تعمیر کا نمونہ ہے، دشمن نے ہارپ ٹیکنالوجی سے جو حملہ کیا تھا اُس کو ناکام بنا دیا گیا۔ یہ جھیل سیاحوں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کرتی ہے جو تقریباً 350 فٹ گہری ہے، یہاں پانچ ٹنلنر بنی جن کی لمبائی ساڑھے سات کلومیٹر ہے، گلگت سے لے کر اِس جھیل تک اور کئی میل اُس سے آگے بھی پھلوں اور سبزیوں کے باغات ہیں، انتہائی میٹھے سیب اور خوبانی سے لدے درخت لب سڑک دیکھے جاسکتے ہیں، لہراتی ہوئی سڑکیں اور وہ بھی موٹروے کے انداز کی، سفر کو آسان بنا دیتی ہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپٹیکل فائبر کیبل خنجراب سے گلگت تک بچھایا جارہا ہے، کچھ حصہ بچھایا جا چکا ہے اور کچھ پر کیبلز کو جوڑا جارہا تھا، راستے میں کیبل بچھانے والی ٹیموں سے بات چیت ہوئی جن میں انجینئر سبطین اور ظفر شامل تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ کیبل 48 آپٹیکل سسٹم کا ہے اور ہر ایک جوڑی میں ایک ملین سے اوپر ٹیلیفونک گفتگو کی جانے کی صلاحیت ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ جب یہ بن جائے گا تو امکان ہے کہ اس میں خلیجی ممالک کو بھی شامل کرلیا جائے اور اُن کو یہ سہولت فراہم کردی جائے تاکہ وہ پاکستان اور چین سے بھی رابطہ کرسکیں، اُن کا خیال تھا کہ دسمبر تک کیبلز بچھانے کا کام مکمل ہوجائے گا۔ مواصلاتی حوالے سے یہ بڑی پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے۔ خنجراب پہنچنے کے بعد وہاں کے کمانڈر نے ہماری پذیرائی کی اور چین کے اندر 8 کلومیٹر تک جو چینی سرحدی پولیس کا کیمپ تھا وہاں تک ہمیں لے گئے، جہاں چینی کمانڈروں نے ہماری خوشدلی سے استقبال کیا، وہاں پاکستان، چین دوستی زندہ باد کا ایک بڑا سا بینر آویزاں تھا اور پاکستان کی طرف بھی ایسا ہی تھا، اگرچہ پاکستان کی طرف سے ہماری قراقرم فورس کو سہولت دستیاب نہیں ہے۔ یہ دُنیا کی سرحد سے اونچی سرحد کہلائی جاتی ہے جو سطح سمندر سے 1600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں نیشنل بینک کا اے ٹی ایم لگا ہوا ہے جو پیسے تو آپ کے کارڈ سے کاٹ لیتا ہے مگر پیسے نہیں دیتا۔ نیشنل بینک نے دُنیا کے بلند ترین مقام پر اے ٹی ایم لگا کر جو امتیاز حاصل کیا تھا وہ غارت ہوگیا۔ اس دورے میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان سے ملاقات ہوئی، وہ ایک نوجوان، پُرجوش اور دانا شخص ہیں، اُن کی اور اُن کے بھائی کی کوشش ہورہی ہے کہ مختلف فرقوں، مذہبوں، لسانی گروپوں میں بٹے لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کے پرچم تلے جمع کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے 3 اسماعیلی، 4 شیعہ اور 8 سنی منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے اور ٹیکنوکریٹ کی دو نشستیں اور چار خواتین کی نشستیں ملنے کے بعد وہ 33 کے ایوان میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر وزیراعلیٰ بن گئے۔ پھر حکومت پاکستان سے سی پیک کی مد میں 102 ارب روپے کے منصوبے حاصل کرلئے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے تاجر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس فیکٹریاں تو نہیں تھیں، اس لئے ہم نے حکومت سے ایسے پروجیکٹ بنوائے کہ جس سے یہاں کی عوام کو فائدہ پہنچے، چنانچہ اِس میں کامیاب رہے اور اب ہم گلگت نستر روڈ کی تعمیر کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ نستر ایک پُرفضا مقام ہے، اسکیٹنگ کے لئے انتہائی موضوع ہے اور یہاں ذوالفقار علی بھٹو اکثر راتیں گزارتے تھے اور سارا فائل ورک مکمل کرتے تھے، اس کے علاوہ گلگت اسکردو سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے، اُن کے مطابق یہ سڑک انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس پر ایک ایسا پل تعمیر جارہا ہے جو کئی سو ٹن بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ سڑک نہ صرف گلگت اور اسکردو کو ملاتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک زاویہ سے بھی بہت اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ گلگت میں خفیہ کیمروں کا جال بچھا کر اِس کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، اس طرح یہ پاکستان کا تیسرا شہر ہے جس کو یہ سہولت دستیاب ہوگئی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں سے تین راستوں کی تعمیر کا منصوبہ ہے جو مختلف راستوں سے پاکستان کے میدانی علاقوں کے ذریعے تجارتی ٹریفک کو گوادر لے جائے گی، ایک تو پرانی شاہراہ ریشم ہے، دوسرا راستہ وادی کاغان سے ہوتا ہوا گزرے گا اور حالت تیاری میں ہے اور تیسرا چترال سے سوات پہنچے گا اور وہاں سے گوادر یا پاکستان کے دوسرے حصوں تک جائے گا۔ اس طرح گلگت آنے کے بعد تجارتی قافلوں کو تین گزر گاہیں مل جائیں گی جہاں سے وہ بھاری سازوسامان گوادر یا پاکستان سے اندرونی علاقوں تک لے جاسکیں گے یا پاکستان سے چین جاسکے گا، یہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا سب سے آسان، سستا اور محفوظ راستہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تمام وادیوں تک رسائی کے لئے سڑکیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ کئی فائیو اسٹار ہوٹلوں کی تعمیر کی اجازت دے چکے ہیں، جس سے ہمارے لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی اور لوگوں کی اچھی رہائش گاہیں دستیاب ہوسکیں گی۔ انہوں نے ایک اور خوبصورت بات یہ کہی کہ یہاں کے لوگ آزاد لوگ ہیں اور یہاں کسی کی چوہدراہٹ نہیں ہے، سب برابر ہیں اور بڑے سیاسی ذہن کے مالک ہیں اور نمائندوں کو منتخب کرتے ہوئے اپنے لوگ منتخب کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام سے جب ہم نے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیں اپنے اندر کیوں شامل نہیں کرتا، ہمیں کیوں اپنے برابر نہیں سمجھتا، اس پر اگرچہ کام ہورہا ہے کہ پاکستان کا جو عالمی موقف ہے اس پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے، اس لئے سرتاج عزیز کی رہنمائی میں جو کمیٹی بنی تھی اس کا اجلاس 15 ستمبر 2017ء کو ہورہا ہے، اُمید ہے کہ جلد فیصلہ ہوجائے گا۔ تاجروں کو شکایت ہے کہ ضلع سست میں جو ڈرائی پورٹ بنا ہے وہاں بہت رشوت لی جاتی ہے، ہمارے خیال میں یہ انتظامی صوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے وزیراعلیٰ اور لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہاں کے پانی کی روانی سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں، خود گلگت شہر میں 5 ہزار میگاواٹ بجلی فاضل ہے، ہنزہ کو صرف دو ہزار واٹ بجلی چاہئے جو گرڈ نہ ہونے کی وجہ سے فراہم نہیں ہو پا رہی ہے۔ دو سال میں یہ گرڈ مکمل ہوجائے گا تو ہنزہ میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔ یہ کتنا درست ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مطلقہ خبریں