Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یورپی دفاعی خود مختاری کی لہر

نصرت مرزا

سیاسیات اور عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد یورپ کبھی خودمختار نہیں رہا، امریکہ نے اِس براعظم کے ملکوں کے دفاع کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے کر اس کو خودمختار دفاعی نظام سے دور رکھا اگرچہ دوسری عالمگیر جنگ اور اس سے پہلے یورپی تاریخ خونریز جنگوں سے بھری پڑی ہے، مگر پچھلے 72 سالوں میں یورپ کے ممالک نے امن وامان کی بہاریں دیکھیں سوائے بوسنیا کی جنگ کے۔ تاہم امریکہ ان کے درمیان اتحاد کی کوششوں کو ناکام بناتا رہا۔ جب 1992ء میں یورپی یونین کا قیام انتہائی پیچیدہ، باریک اور جدید بنیادوں پر گفتگو کاری کی وجہ سے عمل آیا تو یہ یورپی ممالک خصوصاً ایک دوسرے کے دشمن ممالک فرانس اور جرمنی کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظہرمانا گیا۔ امریکہ اس کے قیام کو نہ روک سکا البتہ اس نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوا کر اُس کو کمزور کیا مگر دوسرے ممالک نے اس اتحاد کو قائم رکھا اگرچہ ایک کرنسی بنی مگر سارے اس پر متفق نہ ہوئے، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ممالک سے نیٹو کو قائم رکھنے کے لئے زیادہ مالی تعاون پر زور دیا اور ساتھ ساتھ نیٹو کے ذریعے یورپ کا دفاع، امریکی اسلحہ اور افواج بھیجنے سے انکار کردیا، ماضی میں امریکہ کی اولین ترجیح یورپ کادفاع تھی اور ساتھ ساتھ یورپ کو دفاعی خودمختاری سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ اصل معنوں میں یورپ امریکہ کے مقابلے میں برابری کی بنیاد پر کھڑا ہو اور امریکہ کی مدد کے بغیر بوسنیا کی جنگ کو طوالت اس لئے ہی دی تاکہ یورپ کو اپنی حیثیت کا احساس ہو کہ وہ اپنے براعظم تک میں امن قائم نہیں کرسکتا تو امریکہ کی برابری کیسے کرے گا تاہم 1992ء کے بعد یورپ نے یورپین سیکورٹی اور ڈیفنس پالیسی (ایایس ڈی پی) اور ساتھ تیز رفتار ردعمل فورس (آرآر ایف) کا تصور پیش کیا تھا، ابھی یہ زیربحث ہی تھا کہ امریکی وزیرخارجہ میڈیلین البرائٹ نے 8 دسمبر 1998ء میں ایک تقریر میں امریکی پالیسی واضح کی کہ یورپی دفاع کے لئے کوئی بھی کوشش نیٹو کے کردار پر سایہ ڈالنے اس کا نعم البدل نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ کی یہ پالیسی یورپ کے لئے 3 ” ڈی” کے نام سے مشہور ہوئی یعنی یورپ نیٹو سے علیحدہ نہیں (دلینکنگ ) اور اس کی ڈپلیکیٹ کاپی نہیں (ڈپلیکٹ) اور نئے یورپی ممالک سے امتیاز (ڈیسکریمنیشن) نہیں برتا جانا چاہئے۔ اس کے باوجود یورپ اور خصوصاً فرانس اس تگ و دو میں لگا رہا کہ یورپ کو دفاع کے معاملے میں خودمختار ہونا چاہئے، اس کی وجہ سے امریکہ میں کافی اضطراب رہا، چنانچہ سابق وزیردفاع ولیم کوہن نے دسمبر 2000ء میں برسلز میں کہا کہ اگر یورپ نے دفاعی خودمختاری حاصل کی تو اُس کی حیثیت ماضی کی ایک یادگار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ 2003ء میں نکولس برنس سفیر برائے نیٹو نے اُس کو ایسے کسی قدم کو براعظم یورپ کے لئے عظیم ترین خطرہ قرار دیا۔ اس طرح امریکی لابنگ سے یہ کوشش ناکام رہی اور فرانس کو 2003ء میں بھی قائل کرلیا گیا وہ یورپ کی خودمختار دفاع کی کوشش کرنے سے باز آجائے موجودہ امریکی صدر جو ایک نئی وضع قطع کے آدمی ہیں اور خیالات بھی ماضی کی امریکی حکومتوں سے مختلف ہیں، ان کی پالیسیوں نے یورپ کی دفاعی مختاری کے تصور کو پھر سے ابھار دیا۔ فرانس کے موجودہ صدر ایموئیل میکرون نے 2017ء میں آزاد یورپی یونین آرمی کا نیا تصور پیش کیا اور اس تصور کو پھر اگست 2018ء میں دہرایا کہ امریکہ کو یورپ کے دفاع کرتے ہوئے ایک مدت گزر گئی کیوں نہ یورپ اپنے براعظم کے دفاع کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لے ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل اس پر پہلے تو بہت دھیما رہا مگرامریکہ کا روعمل 13 نومبر 2018ء کو امریکہ نیٹو کے سربراہ اسٹولن برگ کے ذریعے کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک اتحاد کی آڑ میں امریکہ سے نہ ٹکرائیں اور یورپ و امریکہ کے تعلقات کو کمزور نہ کریں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ کی نئی پالیسی کیا ہے، اگرچہ اس کا اظہار ہم اپنے کئی کالموں میں کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے اندر دیکھتی ہوئی پالیسی پر گامزن ہے، وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو کر بھی واحد عالمی طاقت کے منصب پر سرفراز رہنے کا خواہشمند ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کے نوجوان فوجی ملک سے زیادہ دیر باہر رہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ امریکہ کا دفاع سریع الحرکت فوج کے ذریعے کرسکتے ہیں، اُن کے کمانڈوز کہیں آپریشن کرنے کے لئے اس طرح جائیں گے کہ کسی کو پتہ نہ چلے، صحافیوں کو بھی اس وقت پتہ چلے جب وہ کامیابی کے ساتھ گھر لوٹ آئیں گے، وہ اپنے ملک کے معاشی حالات درست کرنا چاہتے ہیں اور یورپ اور دیگر ممالک سے اپنی خدمات کے صلہ میں اپنے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے ملک کے سفید فام لوگوں کو برسرروزگار دیکھنا چاہتے ہیں اور تارکین وطن کی تعداد کو گھٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر فوج تعینات کردی ہے اور ایک دفعہ انہوں نے دیوار یا خاردار تاروں کو عبور کرکے آنے والوں کو گولی مارنے کا حکم دے دیا تھا مگر دوسرے ہی روز اس سے مکر گئے، پھر اسی سوال پر سی این این کے صحافی سے اُن کی نوک جھونک بھی ہوئی۔ دراصل تارکین وطن کی اولاد باراک حسین اوباما کے صدر بننے پر 20 سفید فام امریکی ریاستوں میں بے چینی پیدا کردی تھی اُسی کے سبب امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ کو بطور صدر لے کر آئی تاکہ سفید فام ریاستوں میں بے چینی کا خاتمہ ہو۔ اب اُن کی مقبولیت دن بہ دن گر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وسطی مدت کے کانگریس کے انتخابات میں زیریں ایوان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہوگئی جبکہ سینیٹ میں اب بھی ٹرمپ کی پارٹی ری پبلکن کی اکثریت میں ہے، بہرحال ٹرمپ کی ہی پالیسی امریکہ میں روبہ عمل ہے۔ یاد رہے ماضی میں بھی امریکہ اخراجات برداشت کرنے کی شرط پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوا تھا اور اب بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن ہوگیا ہے کہ اگر کوئی جنگ ہو تو امریکہ یورپ کا ساتھ اس وقت دے گا جب وہ اُس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوجائے گا، امریکہ کے کئی دانشوروں نے پچھلے برسوں یہ لکھنا شروع کیا کہ دُنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی اور دُنیا کے وہ امراء جو دُنیا کے نظام کو چلانے کے دعویدار ہیں جن میں امریکی صدر خود بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ عالمی نظام گل سڑ گیا ہے اُس کو بحال کرنے کے لئے ایک جنگ کی ضرورت ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنگر نے یہ کہہ کر تصدیق کی ہے کہ اگر کوئی جنگ کا نقارہ نہیں سن رہا ہے تو وہ بہرہ ہے اسی طرح اب ایک یورپی دانشور نے لکھا ہے کہ اس نے عالمی جنگ کی رپورٹنگ کی ہے اور وہ اب دُنیا کے ویسے ہی حالات دیکھ رہا ہے جو دوسری جنگ عظیم میں تھے تاہم محسوس یہ ہورہا ہے کہ امریکی صدر برطانیہ اور نئی یورپی ریاستوں کے ذریعے یورپی دفاعی خودمختاری کی لہر کو کنٹرول کرلیں گے۔

مطلقہ خبریں