Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ہندو دہشت گردی کے سرچشمے

محسن فارانی

بھارت میں ہندو دہشت گردی اور مسلم کْشی عروج پر ہے۔ جولائی 2018ء کو ایک ہولناک واقعہ کرناٹک (جنوبی بھارت) میں پیش آیا۔ حیدرآباد دکن کے 32سالہ محمد اعظم جو گوگل سے وابستہ سافٹ ایئر انجینئر تھے، قطر سے آئے ہوئے اپنے دوست محمد صالح بن عید البدیسی، طلحہ اسماعیل اور مقامی رہائشی محمد بشیر کے ہمراہ سرخ کار پر سیر و تفریح کے لئے بیدر جھیل کی طرف جا رہے تھے۔ چاروں دوست ایک ہوٹل پر کھانا کھانے رکے تو ہندو دہشت گردوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا اور انہیں بچوں کے اغوا کار قرار دے کر سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مدد کو آنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی مارا۔ محمد اعظم اور ان کے عرب دوستوں نے کار میں نکل جانا چاہا مگر تیز رفتار کار ایک ٹرالر سے ٹکرا کر الٹ گئی اور ہجوم نے انہیں دوبارہ گھیر کر ان پر وحشیانہ تشدد کیا جس سے محمد اعظم جاں بحق اور ان کے تینوں عرب دوست شدید زخمی ہوئے۔ بعدازاں پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے 40 افراد حراست میں لے لیے۔
اس سے پہلے جون 2018ء میں بھارت میں گاؤ کشی کے الزام میں 4 مسلمان شہید کر دیئے گئے تھے۔ گوشت کے تاجر محمد سلیم عرف منّا کو ذبیحہ گاؤں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر ہندو دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ گوڈا (ضلع جھاڑ کھنڈ) میں گائے چْرانے کے شبہ میں ہندو دیہاتیوں نے 35 سالہ سراج الدین اور 30 سالہ مرتضیٰ انصاری کو مار مار کر شہید کردیا۔ نیز یو پی میں بجھوڑا خرد گاؤں ضلع ہاپوڑ کے قاسم نامی مسلمان پر گاؤ کشی کا الزام عائد کر کے ہندو شرپسندوں نے انہیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر شہید کردیا۔ یہ ہندو فسطائیت ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز ہی سے برصغیر میں ہندو قوم پرستی کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اس قوم پرستی کے لبادے میں پرورش پانے لگی تھی۔ 1915ء میں ’’ہندو مہا سبھا‘‘ کا قیام اور 1925ء میں آر ایس ایس (راشڑیہ سویم سیوک سنگھ) کی بنیاد دراصل اسی کوشش کا نتیجہ تھا۔ 1920ء کی دہائی میں یورپ میں جرمن نسل پرست ہٹلر اور اطالوی نسل پرست مسولینی کی حکمرانی کا آغاز ہوا تو بھارت کی اسلام دشمن تنظیموں نے فسطائی نظریات کے علم برداروں سے براہ راست تعلق پیدا کرنے کی سعی کی، جس کی تفصیل اطالوی دانش ور مارزیا کیسو لاری (مرزیا کاسولاری) کی علمی تحقیق دی  فاسکسٹ ہیریٹیج   اینڈ فارن کنکشنز  آف آر ایس ایسآرچیول ایوی ڈینس (آر ایس ایس کی دستاویزات سے اس کے فسطائی ورثے اور غیرملکی روابط کی شہادت) میں درج ہے۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں فسطائیت کی شکست فاش اور ہندوستان میں جاری تحریک آزادی نے ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کو ناقابل قبول بنا دیا تھا۔ آزادی کے وقت کانگریس میں ایم کے گاندھی، نہرو، شاستری، رادھا کرشنن، راجندر پرشاد، مرار جی ڈیسائی اور جے پرکاش نرائن جیسے اعتدال پسند لیڈروں کی بھاری تعداد موجود تھی جن کے مقابلے میں ’’ہندو توا‘‘ کے علم برداروں کے پاس کوئی ایسا مقبول لیڈر موجود نہیں تھا۔ اس لئے ہندو مہا سبھا اور ان کی معاون تنظیمیں انڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی انتخابات میں پے در پے شکست کھاتی رہیں۔
دراصل ہندوستان میں 1857ء کی شورش کے بعد ہی برطانوی حکومت کی ’’تقسیم اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ہندو فرقہ واریت کی ابتدا ہوگئی تھی۔ فارسی اور اردو زبان کے خلاف با ضابطہ تحریکیں شروع ہوگئیں۔ انگریزی حکومت کو عرضداشتیں دی جانے لگی تھیں کہ: ہندی کو سرکاری کام کاج کی زبان بنایا جائے۔ اس کے بعد 1867ء میں ہندی کے حق میں زبردست تحریک چلائی گئی۔ ہندو نسل پرستی کو تقویت بخشنے کے لئے 10 اپریل 1875ء کو ’’آریہ سماج‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیا، جس کے تحت 1920ء کے بعد شدھی تحریک چلائی گئی اور میوات میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی۔ آریہ سماج نے یہ نظریہ پھیلانا شروع کیا کہ ’’مسلمان حکمرانوں کے زیراثر اور عیسائی مشنریوں کے بہکاوے میں آ کر بہت سارے ہندو مسلمان یا عیسائی ہوگئے ہیں، اس لئے انہیں دوبارہ ہندو بنا کر شدھ یا پاک کیا جانا ضروری ہے۔‘‘ یہی وہ حالات تھے جن کے تحت بانی ایم او کالج علی گڑھ سرسید احمد خان کے افکار وخیالات میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے زبردست تبدیلی آئی اور انہوں نے اردو کی بقا و تحفظ کی تحریک چلائی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کی بھرپور وکالت کی۔ 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی مسلم تشخص کے بقا کی خاطر عمل میں آیا۔
بھارت میں فسطائیت کی بنیاد رکھنے والوں میں ونایک دامو درساورکر، ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈ گیوار اور مادھو سدا شیو گولوالکر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ساورکر نے اپنی کتاب ہندوتوا : ہو اِس ہندو? میں ’’ہندو توا‘‘ کا نظریہ سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اسی نے 1915ء میں ہندو مہا سبھا کی بنیاد ڈالی۔ اس نے بھارت کو ہندوؤں کا ملک بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ ’’یہ ہندوؤں کی پوتر بھومی (مقدس سرزمین) ہے، کیونکہ ہندوؤں کو ہی اس ملک کی تہذیب وراثت میں ملی ہے۔ وہ ہندوستان کی تہذیب کے وارث اور محافظ ہیں۔ ان کے ہیرو، ان کی تاریخ، ان کا ادب، ان کا آرٹ اور رسم و رواج، سب اس کی تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں۔‘‘
ساورکر کے نزدیک: ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی اس ملک میں مشترک ’’پدریت‘‘ (فتھرھود ) کا حصہ ملا، لیکن چونکہ ان کے مقامات مقدسہ، ان کے ہیرو اور ثقافت کا تعلق یہاں سے نہیں، لہٰذا انہیں اس مشترک تہذیب میں حصے دار نہیں بنایا جا سکتا، جس پر صرف اور صرف ہندوؤں کا حق ہے۔‘‘ یوں ساورکر نے ’’ہندو توا‘‘ پر ہندو قوم پرستی کی بنیاد ڈالی اور باقی قوموں کو اس قوم پرستی سے اس بنیاد پر علیحدہ کیا کہ ان کے مقامات مقدسہ عرب یا فارس وغیرہ میں ہیں۔ ساورکر ہی نے ’’ہندی، ہندو، ہندستان‘‘ کا نعرہ لگایا، جو آج سنگھ پریوار کا خاص نعرہ ہے۔ بعد میں ہیڈ گیوار اور گولوالکر نے ہندستانی قومیت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دستبردار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’’انہیں دوبارہ ہندو بنایا جائے تاکہ اس ملک میں ایک متحدہ قومیت پنپ پائے۔‘‘
بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے ہندو قوم پرست جب کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ’’مکھ دھارے‘‘ میں شامل ہونا چاہئے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کی ہندوانہ تہذیب و ثقافت سے جوڑ کر رکھیں اور طارق، خالد، علی، حسین، محمد، فاطمہ، عائشہ، زینب وغیرہ جیسے نام رکھ کر بیرونی کرداروں سے خود کی شناخت نہ کرائیں، یہاں تک کہ مساجد کی عمارتیں بھی ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کریں۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو ہندو سماج میں ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
گولوالکر سے منسوب کتاب بنچ آف تھوٹس (گل دستہ افکار 1966ء) میں ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی بھارت میں فسطائیت کی نظریاتی اساس کی اصل جھلک ملتی ہے۔ چونکہ گولوالکر نے 1940ء سے لے کر 1973ء تک آر ایس ایس کی قیادت کی، اس لئے اس کے افکار و خیالات آر ایس ایس پر آج تک حاوی ہیں۔ آج جو کچھ بھی سنگھ پریوار کہتا یا کرتا ہے اس کی جڑیں گولوالکر کے افکار میں ہی ملتی ہیں۔ اس کتاب کے تعارف میں ایم اے وینکٹ رقم طراز ہے: ’’مسلمانوں سے پہلے کے حملہ آوروں کو قومی معاشرت میں ضم کرنے میں ہندوستانی سماج نے کامیابی حاصل کی تھی، مگر مسلمانوں کے معاملے میں وہ ناکام رہا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے جسے قومی آزادی کے رہنماؤں نے یکسر نظرانداز کیا۔ انہوں نے یہ سوچ کر بہت بڑی غلطی کی کہ اکثریت کی قیمت پر مسلمانوں کو مراعات دے کر ان کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ رعایتیں حاصل کرنے والوں کے اندر جب تک نظریاتی تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
گولوالکر لکھتا ہے: ’’مسلمانوں کا (ہندوؤں میں) انضمام ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، لیکن اس کے لئے صحیح فلسفے، صحیح نفسیات اور صحیح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تاہم ہندوستانی لیڈر ایسی کوئی بھی تکنیک وضع کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی زبردست غلطیوں پر مسلسل گامزن رہے، حتیٰ کہ مادر وطن کو تقسیم کرنا پڑا۔ افسوس کہ وہ آج بھی انہی غلطیوں پر قائم ہیں اور اس طرح وہ ایک اور پاکستان کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔‘‘
برج رنج مانی ’’تاریخ کی برہمنیت سے نجات‘‘ (دبرہمنیسنگ ہسٹری) میں لکھتے ہیں: ’’گولوالکر نے جہاں حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے، وہاں مسلمانوں کے علاوہ شاکا (شکاس )، ستھین (سیتھانس ) اور ہْنوں (ہنس) کا ذکر کیا ہے لیکن دانستہ طور پر آریائی حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا، حالانکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو مختلف تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ آریائی نسل کے لوگوں کا تعلق ہندوستان سے نہیں بلکہ یورپ اور وسطی ایشیا سے ہے۔ یاد رہے کہ آریائی نسل کے لوگوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں ایک شاندار تہذیب موجود تھی، جسے وادی سندھ کی تہذیب کہتے ہیں اور محققین کے بقول یہ تہذیب آریائی حملے میں تباہ ہوئی۔ اس لئے آریائی نسل کے لوگ بھی اس ملک میں اسی طرح باہر سے آئے، جیسے شاکا، ستھین، ہن اور مسلمان آئے تھے۔
’’ہندو توا‘‘ کے علم برداروں کے نزدیک ہندوستان کی تہذیب دراصل ’’ویدک تہذیب‘‘ یا ’’آریائی تہذیب‘‘ ہی ہے اور تمام لوگ جو ہندوستان کی تہذیب میں اپنی حصے داری یا نمائندگی چاہتے ہیں، انہیں اسی ویدک تہذیب سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہو گا، لہٰذا تمام مذاہب کے ماننے والوں، مثلاً بدھ، جین، سکھ، مسلمان، عیسائی، ان سب کو اس تہذیب (ہندو توا ) میں ضم کرنا ہوگا۔
گولوالکر نے ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ میں تین اندرونی خطرات کی نشاندہی کی اور سب سے پہلا خطرہ مسلمانوں کو بتایا گیا، دوسرا عیسائیوں کو اور تیسرا کمونسٹوں کو۔ مسلمانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے لئے یہ سوچنا خودکْشی کے مترادف ہوگا کہ پاکستان بننے کے بعد (ہندوستانی) مسلمان راتوں رات وطن پرست ہوگئے ہیں بلکہ مسلم خطرناکی، پاکستان کے قیام کے بعد سو گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ پاکستان مستقبل میں ہندوستان کے خلاف مسلم جارحیت کا مرکز ہوگا۔‘‘ کتاب میں1947ء4 میں مشرقی پاکستان (بنگلا دیش) سے ہندوؤں کی نقل مکانی اور بنگال، بہار، اتر پردیش اور دہلی میں ہونے والے ’’ہندو مسلم فسادات‘‘ میں آر ایس ایس کے ممبران کی گرفتاریوں کا ذکر ہے۔ گولوالکر کے بقول اس نے اس وقت وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل سے ملاقات کی اور ان سے ’’ہندوستان میں مسلمانوں سے درپیش خطرات‘‘ کا ذکر کیا، جس پر سردار پٹیل نے کہا کہ ’’تمہاری بات میں سچائی ہے۔‘‘ اور پھر آر ایس ایس کے تمام کارکنان کو چھوڑ دیا گیا۔
گولوالکر کی اس کتاب میں ’’ٹائم بم‘‘ کے نام سے ایک ضمنی عنوان ہے جس میں مغربی اتر پردیش میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہلی سے لے کر رام پور اور لکھنو تک دھماکا خیز حالات پیدا ہورہے ہیں اور اس موہوم امکانی صورتِ حال کا 1946-47ء کے حالات سے موازنہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ خلاف واقعہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’متذکرہ علاقوں میں مسلمان ہتھیار جمع کر رہے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب پاکستان ہندوستان پر حملہ کرے گا تو وہ اندرونی طور پر ملک کے خلاف بغاوت کر دیں گے اور مسلح جدوجہد شروع کردیں گے۔‘‘ گولوالکر اور ساورکر اور اس کے بعد دین دیال اوپادھیائے جیسے لیڈروں کو سَنگھ پریوار (ہندو قوم پرست تنظیموں کا خاندان) میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تمام لیڈر ’’سنگھ پریوار‘‘ کی نظریاتی اساس قائم کرنے والے تھے۔ آج ’’سنگھ پریوار‘‘ کی سیاسی شاخ بی جے پی کے زیراقتدار بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہی لیڈروں کی مسلم دشمن تقریروں اور تحریروں کا حاصل ہے۔30 جنوری 1948ء کو گاندھی جی کے قتل نے بھارت میں ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی جارحانہ قوم پرستی کے نظریے کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا، جس کی وجہ سے ’’ہندو فسطائیت‘‘ کمزور ہوگئی۔ گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت دی گئی۔ اس کی وصیت یہ تھی کہ میری راکھ دریائے سندھ کے سرچشمے میں بہا دی جائے تاکہ اس کا اثر پورے پاکستان میں پہنچے۔ یہ گویا اس ہندو دہشت گرد کی پاکستان کو اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔ بھارت میں بعض اہلِ نظر نے فسطائیت کے خطرے اور اس کے خوفناک نتائج سے حکومت کو بروقت خبردار کیا۔ چیتنیا کرشنا نے اپنی کتاب فاسکیسم ان انڈیا فیسس فانجس اینڈ فیکٹس (بھارت میں فاشزم: چہرے، دانت اور حقائق) میں بتایا کہ بھارت کو فسطائیت کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ معروف سماجی کارکن ارون دھتی رائے نے ’’گجرات: فاشزم اینڈ ڈیمو کریسی‘‘ میں لکھا: ’’بھارتی گجرات میں فروری، مارچ 2002ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کْشی کے بعد ملک میں فسطائیت کے جمتے ہوئے قدم خطرناک ہیں۔‘‘ نیز سیاسی تجزیہ کار رجنی کوتھاری نے گجرات مسلم کْشی (2002ء) کے بعد ’’ہندو توا‘‘ کو بھارتی تہذیب کے لئے سب سے بڑا خطرہ بتایا۔ نوبل انعام یافتہ دانشور اور ماہر معاشیات امریتا کارسین نے بھی بارہا ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی قوم پرستی کو ملک کے لئے تباہ کن بتایا۔2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زبردست کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر نریندر مودی کے فائز ہونے سے بھارتی دانشوروں اور اقلیتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بی جے پی کی کامیابی کے بعد ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی جارح قوم پرستی ایک سماجی طاقت بن کر ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہولناک شکل اختیار کر گئی ہے۔ ایک طرف لو جہاد، گھر واپسی، گؤ رکھشا، بھارت ماتا کی جے، سوریہ نمسکار کے نعرے، دوسری طرف کشمیر میں فوجیوں اور پنڈتوں کے لئے علیحدہ کالونی، آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلا دیشی دراندازی کا مسئلہ اٹھانا، تاریخی حقائق کو مسخ کرنا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو متنازع بنانا جیسے تمام واقعات بھار ت کو ہندو راشٹر بنانے کی عکاسی کرتے ہیں۔

مطلقہ خبریں