Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گیس کا خوفناک بحران

عبداللہ خان

گیس کی بندش سے یقینی طور پر بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ پانی کا بحران بھی آئے گا، حکومت کو اس جانب سوچنا چاہئے اور کراچی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں

ملک کی عوام دہشت گردی مہنگائی اور لوٹ مار جیسے واقعات سے پہلے ہی پریشان ہے، اتنے میں عوام کو ایک اور پریشانی کا سامناہے وہ ہے سی این جی کا مسئلہ جس نے عوام کو بہت مشکل صورتِ حال میں ڈال دیا ہے، آخر یہ سی این جی کا مسئلہ اتنا سنگین کیوں ہوتا جارہا ہے، ملک میں سی این جی اسٹیشن ایک ہفتے میں دو یا تین دن کھلتے ہیں مثلاً سات دن میں دو یا تین دن کھل پاتے ہیں، سی این جی اسٹیشن جس سے طلباء و طالبات کو اور لوگوں کو عام ٹرانسپورٹ میں کافی مشکلات ہوتی ہیں، جس دن سی این جی بند ہوتی ہے اس دن ایک بس میں مسافروں کی تین گنا تعداد زیادہ ہوتی ہے اور کافی مسافروں کو بسوں کی چھت پر یا بس کے پیچھے لٹک کے سفر کرنا پڑتا ہے اور بس مالکان کی جانب سے کرایہ زیادہ لیا جاتا ہے جس کا وہ یہ کہتے ہیں سی این جی بند ہے، پیٹرول پر گاڑی چل رہی ہے، مسافر حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے بسیں الٹنے کے بہت واقعات ہوچکے ہیں اور کافی مسافر بسوں سے لٹکے ہوئے گر بھی جاتے ہیں لیکن اس طرح کے واقعے کا کوئی زیادہ نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔
تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری مرکز، تجارتی و اقتصادی حب اور معاشی شہ رگ ہے۔ یہاں روزانہ اربوں کھربوں کی لین دین اور تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ دو کروڑ سے زائد آبادی پر نفوس پذیر ملک کا ایکنومیکل انجن قومی آمدنی کا 70 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مجموعی پیداوار یعنی (جی ڈی پی) میں بھی کراچی کی 25 فیصد شراکت داری ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق ملک کے اقتصادی دارالحکومت سے روزانہ 16 ارب روپے سے زائد کے لگ بھگ زرمبادلہ اور دیگر محصولات حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحل پر قائم ملک کی دو اہم بندرگاہوں کے ذریعے بھی سالانہ اربوں ڈالرز کی برآمدات کی جاتی ہے۔
بجلی اور گیس کی قلت کے باعث ملکی صنعت کا پہیہ جام ہوتا جا رہا ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ گیس کی قلت کے باعث ہی ٹرانسپورٹ کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی کمی کے باعث زیادہ تر گاڑیاں سی این جی پر منتقل ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے بعد لوگوں نے تیزی سے نجی گاڑیاں سی این جی پر منتقل کی جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سی این جی کے اوپر ہی چل رہی ہے۔ سی این جی کی بندش سے غریب مزدور پریشانی سے دوچار ہیں۔ فیکٹریوں میں روزانہ بڑی تعداد میں مزدور اور ملازمین دفاتر پہنچنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہفتے میں چار دن ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شدید دشواریاں پیش آتی ہیں۔ تین دن تک سی این جی کی بندش جبکہ ہفتے کے روز شدید رش کی وجہ سے شہری سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں۔ اس دوران ٹرانسپورٹرز حضرات بھی عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منہ مانگے کرائے وصول کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز سی این جی کی بندش یا رش کا بہانہ بنا کر دھڑلے سے دگنا اور بعض اوقات اس سے بھی زائد کرایہ لیتے ہیں۔ شدید مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ کرایہ میں اس غیرقانونی اضافے کے باعث لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
ملک کے کونے کونے سے افراد یہاں ذریعہ معاش کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہ شہر اپنی جغرافیائی اہمیت اور معاشی زرخیزی کے باعث ہر فرد کے لیے روز گار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔منی پاکستان کہلانے والے یہ شہر بلند و بالا عمارات، بڑے بڑے کاروباری و تجارتی مراکز ، صنعتوں ، فیکٹریوں اور ملز سمیت دیگر انڈسٹریل زونز پر مشتمل ہے ، جس کے ذریعے ہزاروں شہری اپنے معاشی مفادات اور ضروریات زندگی کو پورا کر رہے ہیں۔ان تمام تر خوبیوں اور وسائل کے باوجود یہ بڑاشہر بے شمار مشکلات اورسنگین بحرانوں میں گھیرا ہوا ہے۔پانی کی کمی ، لوڈشیڈنگ ، امن وامان کی خراب و ابتر صورتحال اور ٹرانسپورٹ جیسے پیچیدہ اور گھمبیر ترین مسائل نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔
تصویر کے دوسرے رخ پر روشنی ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ کراچی کے باسیوں کی اکثریت معیاری یا مثالی زندگی بسر نہیں کررہے، یہاں کہ حالات کم و بیش پاکستان کے دیگر پسماندہ اور چھوٹے قصبوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور کشمور، ژوب اور سبی سمیت دیگر شہروں میں بسنے والے لوگوں تقریباً ایک جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح اب کراچی میں بھی سی این جی نایاب ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس شہر میں پہلی مرتبہ سی این جی کی بندش شروع ہوئی، البتہ ماضی کی نسبت اب صورتِ حال تشویشناک حد تک خراب ہوچکی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سی این جی کی بندش اکثر طے شدہ اوقات کار کے مطابق ہوتی تھی۔ ایک ہفتے کے دوران صرف دو سے تین روز سی این جی بند کی جاتی تھی اور وہ بھی ایک دن کے وقفے کے ساتھ۔ مگر اب ہفتے کے سات دنوں میں 24، 24 گھنٹوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی 48 گھنٹوں کے لئے بھی گیس کی فراہمی معطل کردی جاتی ہے، جس کے باعث معمولات زندگی اور کاروباری سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ اب شہریوں کو اس قیمتی اور انمول چیز کے حصول کے لئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ کبھی طویل انتظار معنی خیز ہوتا ہے، صارف کو سی این جی میسر آجاتی اور کبھی نہیں۔ معاملہ ثانی میں صارف کے پاس دو راستے ہوتے ایک تو یہ کہ وہ اپنی گاڑی کو سی این جی اسٹیشن پر چھوڑ کر گھر چلا جائے اور ایک دو دن تک سی این جی کھلنے کا انتظار کرے، یا پھر دھکا لگا کر ایک دو میل کا سفر طے کر کے اپنے ساتھ گھر لے جائے۔ یہ کراچی ہے یہاں سالم انسان غائب ہوجاتا۔ پھر ایک گاڑی کی کیا حیثیت۔۔؟ یہاں کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ مصائب و مشکلات کے انبار ہیں۔
اب گیس کا خوفناک بحران پیدا ہوگیا ہے۔ سی این جی کی بندش سے چلتا پھرتا اور دوڑتا ہوا شہر ساکت ہورہا ہے، لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے سے قاصر ہوجائیں گے جس سے یقیناً زندگی کا پہیہ منجمد ہوجائے گا۔ گیس کی بندش سے یقینی طور پر بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ پانی کا بحران بھی آئے گا۔ حکومت کو اس جانب سوچنا چاہئے اور کراچی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔

مطلقہ خبریں