آج پاک چین تعلقات کہاں ہیں، اس کے لئے بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سی پیک کہاں کھڑا ہے، اگر سی پیک کی رفتار سست ہے تو پاک چین تعلقات میں سردمہری ہے، اگر سی پیک کی رفتار تیز ہے تو پاک چین تعلقات میں بھی تیزی ہے، اس لئے سی پیک کو سمجھنا اور اس کے اہداف کو دیکھنا ضروری ہے، اسی سے پاک چین تعلقات کو سمجھا جا سکتا ہے
مزمل سہروردی
پاک چین تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں بہت بحث ہوتی ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم کچھ بھی کریں لیکن چین نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ لوگ اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ چین پاکستان کے ساتھ کیوں نہیں ہے۔ عام پاکستانی کے لئے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ چین پاکستان سے ناراض ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں بی آرآئی سی ایس کے اجلاس میں پاکستان کو مدعو کرنے پر بھی یہی رائے ہے کہ چین کے ہوتے ہوئے پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا، یہ کیسے ممکن ہے۔ لوگ یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ چین کی بھی مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ جیسے مذکورہ اجلاس میں بھارت کے ویٹو کرنے کے بعد چین کے پاس پاکستان کو زبردستی بلانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس فورم میں یہ طے ہے کہ اگر ایک بھی رکن کسی بھی ملک کی شرکت کو ویٹو کر دے گا تو اس ملک کو مدعو نہیں کیا جائے۔ بھارت کے ویٹو کے بعد کوئی آپشن نہیں تھا۔ اس لئے اس کو یہ رنگ دینا کہ پاک چین تعلقات میں خرابی ہے کوئی ٹھیک بات نہیں ہے۔
پاک چین تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ چین نے ہمارے لئے کیا کیا ہے۔ چین نے ہماری کیا مدد کی ہے۔ ہم کبھی اس نقطہ کا احاطہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم نے چین کے لئے کیا کیا ہے۔ چین کی بھی پاکستان سے کچھ توقعات ہیں۔ دو ممالک کے درمیان تعلقات میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں ہاتھوں کو ساتھ دینا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ چین امریکا اور دوسرے ممالک کی طرح اختلافات اور ناراضی کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتا۔ وہ خاموش سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں اور دوستوں کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے۔
پاک چین تعلقات میں سی پیک کو اس وقت بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پاک چین تعلقات میں معاشی تعاون کو بڑھانے کے لئے ہمیں سی پیک کو آگے لے کر جانا ہوگا۔ آج پاک چین تعلقات کہاں ہیں، اس کے لئے بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سی پیک کہاں کھڑا ہے۔ اگر سی پیک کی رفتار سست ہے تو پاک چین تعلقات میں سردمہری ہے۔ اگر سی پیک کی رفتار تیز ہے تو پاک چین تعلقات میں بھی تیزی ہے، اس لئے سی پیک کو سمجھنا اور اس کے اہداف کو دیکھنا ضروری ہے۔ اسی سے پاک چین تعلقات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ سی پیک میں گوادر کو ایک مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ گوادر کے بغیر سی پیک کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آج سی پیک اور گوادر منصوبے کی باتوں کو دو دہائیاں ہوچکی ہیں۔ لیکن ہم نہ تو گوادر کو فعال کرسکے ہیں اور نہ ہی سی پیک کے باقی منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ گوادر سنسان ہے اور سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ چین گوادر سے اپنا مال دنیا کو برآمد کرنا چاہتا ہے لیکن ہم نے گوادر کی بندرگاہ کا نظام تو چین کو دے دیا ہے لیکن چین ایک سنسان اور غیرفعال بندرگاہ کا کیا کرے۔ آج بھی گوادر کی وہی صورتِ حال ہے جو سنگاپور کو گوادر کا ٹھیکہ دینے کے بعد تھی لیکن چین تو گوادر کو چلانا چاہتا ہے لیکن ہم چین کی رفتار سے کام کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا ہے کہ جن کاموں کے لئے چین نے پیسے دے دیئے ہیں، ہم وہ بھی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بالخصوص گوادر کو فعال کرنے کے لئے جن منصوبوں کے لئے چین نے پیسے دیئے ہیں، ان میں سے کئی پر تو کام ہی شروع نہیں ہوا اور کئی سست روی کا شکار ہیں۔ چینی اہلکار بے بسی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ بول نہیں سکتے لیکن اگر آپ ان کو ملیں بات کریں تو ان کی بے بسی نظر آ جاتی ہے۔ گوادر کو چین کی سرحد تک جوڑنے کے لئے کیا ہم نے نیٹ ورک مکمل کر لیا ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔ میں نے M-8 کے بارے لکھا ہے۔ مجھے چینی اہلکاروں نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ کیسے چل سکتی ہے جب تک گوادر کا پاکستان سے رابطہ نہیں ہوگا، کون پاگل گوادر کی بندرگاہ پر مال لائے گا، پھر اس کو واپس کراچی لے کر جائے گا۔
جہاں سے چین اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں جا سکے گا۔ سڑک کے راستے کتنا مال آسکتا ہے؟ چین سے گوادر تک مال پہنچانے کے لئے ریل بنیادی ضرورت ہے۔ ML-1 کے منصوبے میں تاخیر بھی چین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ چین تو قرض اور مدد ہی دے سکتا ہے۔ اگر ہم خود ہی نہ بنائیں تو چین کیا کر سکتا ہے۔ چین خالی بندرگاہ کا کیا کرے جب کہ گوادر تک مال پہنچانے کے لئے ہم کچھ کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔
چین نے گوادر کے بارے میں پاکستان کو ایک پلان بھی بنا کر دیا ہے۔ چین یہ پلان بنا کر دہی سکتا تھا۔ عمل تو پاکستان نے ہی کرنا ہے۔ چین کی رائے میں پاکستان کو گوادر کو ایک خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دینا چاہئے۔ اس خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ میں نظام چلانے کا ایک خودکار نظام ہونا چاہئے۔ چین اس ضمن میں ہانگ کانگ کی مثال دیتا ہے۔ ایک ملک میں دو نظام ہوسکتے ہیں۔
گوادر کو چلانے کے لئے بھی ہانگ کانگ جیسے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ ہانگ کانگ چین کی ملکیت ہے۔ لیکن وہاں ایک علیحدہ نظام ہے۔ اسی لئے گوادر کو چلانے کے لئے اسے خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا جائے۔ جو وفاقی حکومت کے ماتحت ہو۔ لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت گوادر کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن گوادر کی کم آبادی کی وجہ سے وہاں پیسے لگانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
ویسے تو یہ بات بھی حقیقت ہے کی بلوچستان حکومت کے پاس پہلے ہی پیسے کم ہیں۔ لیکن ان میں بھی اس کی گوادر پر توجہ اس سے بھی کم ہے۔ گوادر شہر کی پسماندگی گوادر پر عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گوادر کو خصوصی توجہ اور فنڈز کی ضرورت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ بلوچستان حکومت کہتی ہے کہ ہمیں پیسے دیئے جائیں۔ کوئی براہ راست کیسے لگا سکتا ہے۔
گوادر کی رئیل اسٹیٹ کے بارے میں بہت سنتے ہیں۔ لیکن آپ یقین کریں اتنے برسوں میں وہاں ایک بھی ایسی رہائشی کالونی نہیں ہے جس کو عالمی معیار کا نہ سہی لاہور، کراچی کی اچھی رہائشی کالونیوں کے معیار کا کہا جا سکے۔ مقامی لوگوں نے زمینیں بیچ دی ہیں۔ سرمایہ کاروں نے خرید لی ہیں اور سب اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی ان کو یہ سمجھائے کہ آپ کام کریں گے تو اچھی دن آئیں گے، بیٹھے رہنے سے تو اچھے دن نہیں آسکتے، ساحل سمندر کی زمین سرکاری اداروں نے حاصل کر لی ہے۔ حالانکہ یہ ساری زمین گوادر کی ترقی کے لئے استعمال ہونی چاہئے تھی۔ ساحل سمندر پر گھر بھی سرکاری افسروں کے بن گئے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی اکنامک یوٹیلیٹی نہیں ہے۔
گوادر کا ماسٹر پلان آچکا ہے لیکن عمل کون کرے گا۔ ماسٹر پلان میں گوادر کو دبئی اور ہانگ کانگ بنانے کے لئے سب باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ آپ گوادر جائیں افسران اور حکومتی لوگ ماسٹر پلان کے بارے میں فخر سے بتاتے ہیں۔ لیکن اس پر عملدرآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ فنڈز نہیں ہیں۔ انفرااسٹرکچر نہیں ہے۔ یہی سننے کو ملتا ہے۔
اب تو مقامی لوگوں میں بھی ناامیدی نظر آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج تک سی پیک نے ہمیں کیا دیا ہے۔ وہ لوگ سی پیک کی کہانیاں سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔ اب وہ کسی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ سی پیک آئے گا، روزگار اور خوشحالی لائے گا۔ انہیں روزگار ملا ہے نہ خوشحالی آئی ہے۔ یہ کس کا قصور ہے؟ لیکن چین کو ابھی امید ہے۔ اسی لئے چین وہاں بیٹھا ہے۔ جب ان کی امید ٹوٹے گی تو وہ بھی چلے جائیں گے۔